میاں صاحب اب بتا دیں نیب کسٹڈی میں کیا ہوا


دسمبر کے مہینے میں جہاں ہم برطانیہ میں کرونا ویکسین کی تقسیم کے ساتھ بریکسٹ کے آخری مراحل طے کر رہے ہیں، سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو فلسطینی ریاست کے حل پر مشروط طور پر مان چکا ہے، امریکہ پوری دنیا میں اپنے سفارت خانوں کے لئے پوسٹ ٹرمپ ہدایات جاری کر رہا ہے، وہاں پاکستان میں اپوزیشن کچھ دنوں بعد دو ہزار بیس کے فائنل شو ڈاؤن کا مظاہرہ کرنے والی ہے۔ پاکستان کی سیاست میرے برطانیہ کے دوستوں کے لئے ہمیشہ ہی ایک دلچسپ کیس اسٹڈی رہی ہے، خصوصاً انڈین اور بنگلہ دیشی سفارت خانوں کی کرونا کے باوجود ان کے شہریوں کے ویزوں کے لئے لابنگ کے دوران پاکستانی سفارت خانے کی مکمل خاموشی انہیں احساس دلاتی ہے کہ ہم ہر حال میں اپنے ہی معاملوں میں مست رہنے والی قوم ہیں۔

ہمارے سفارت خانے کو پتہ ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ جو تھوڑا بہت کام ہے، وہ میاں صاحب کی جاسوسی ہی سے نکلنے کی فرصت نہیں دیتا تو کسے پڑی ہے کہ پاکستانی ڈاکٹرز، نرسز، یا دوسرے پروفیشنلز کے پوسٹ بریکسٹ مواقع پر نظر رکھی جائے۔ اسرائیل کے معاملے پر بھی ہم اگر سعودی عرب اور بحرین کی تجاویز سامنے لا کے فلسطینی ریاست کے قیام کی تجاویز لے آتے تو ایک پاور فیکٹر بن سکتے تھے۔ پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے ایک لا یعنی بحث چلتی رہی، کچھ جرنلسٹس تو اسرائیل کو ایک عظیم ملک بھی ڈیکلیئر کر بیٹھے لیکن کسی نے ”اسرائیل ہم کو کیا دے سکتا ہے“ پر نہیں سوچا۔

کسی نے کشمیر کی آزادی کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرط اور اسرائیل کے ہندستان پر پریشر ڈالنے کا نہیں سوچا۔ میں 2018 سے کہتی رہی کہ آپ کا سب سے بہترین دوست آپ کا مفاد ہوتا ہے، آپ اپنا فائدہ سوچیں اور اپنے مطالبات منوائیں، اسرائیل کو ٹیبل پر بٹھا کے امریکا پر پریشر ڈالیں اور کشمیر آزاد کروائیں یا قرضے معاف کروائیں لیکن ہمارے جغادریوں نے دوبئی تک کے ویزے بند کروا دیے۔

لہٰذا دوبارہ آتے ہیں اپوزیشن یعنی کہ پی ڈی ایم کے شو ڈاؤن کی طرف جس کا حکومت کو اتنا خوف ہے کہ سردیوں میں بھی مینار پاکستان میں پانی چھوڑ کے اپنی سبکی کی مزید سامان پیدا کیا گیا۔

سنا ہے کہ اس جلسے میں میاں صاحب وہ راز آشکار کرنے جا رہے ہیں جو ان کو بہت پہلے تب بتا دینے چاہیے تھے جب جج ارشد ملک حیات تھے۔ وار کرافٹ کے بہت سارے اصولوں میں سے ایک اصول وقت پر کاری چوٹ لگانے کا ہے۔ امریکا بائیڈن کے آنے کے بعد نہ صرف ڈو مور کا راگ دوبارہ شروع کرنے کو تلا بیٹھا ہے بلکہ پاکستان میں بھی ہائبرڈ نظام پر کڑی نظر رکھے گا جس کا فوری مظاہرہ بائیڈن کی فتح کے اعلان کے ساتھ ہی میر شکیل کی مہینوں کے بعد فوری رہائی کی صورت میں دیکھنے کو ملا، ورنہ جب مہینوں سے میر صاحب کو سبق سکھایا جا رہا تو ایسا کیا چمتکار ہوا کہ فوری ضمانت ہو گئی۔

دوسری طرف میاں صاحب اور مریم نواز دونوں بیک ڈور رابطوں کی وجہ سے چپ رہ کے موقعے گنوا چکے ہیں اور کئی راز ابھی تک سینوں میں دفن کیے بیٹھے ہیں، جس کی وجہ سے اتنی کامیاب مہم کے باوجود پی ڈی ایم کی عوامی رابطہ مہم کو وہ طے شدہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے جس کی بین الاقوامی پولیٹیکل سائنٹسٹ توقع کر رہے تھے۔ کیونکہ دو چار نام لینے کے بعد بھی میاں صاحب نے وہ حدود پار نہیں کیں جس کا ان پر الزام لگ رہا ہے۔ ورنہ اگر لندن آتے ہی میاں صاحب اپنی گردن اور جسم کے نشانوں کی پلیٹ لیٹس کم ہونے کے بعد کی تصویر لیک کر دیتے جنہیں دیکھ کے ہی شاید شیریں مزاری بھی رو پڑی تھیں تو حکومت کو اس غلیظ پروپیگنڈے کا موقع ہی نہ ملتا جو پچھلے ایک سال سے جاری ہے، اور انٹرنیشنل پریشر بھی پوچھتا کہ ایک تین مرتبہ کے منتخب وزیراعظم کے ساتھ نیب کسٹڈی میں کیا کیا گیا۔

میاں صاحب نے بھی آج تک نہیں بتایا کہ ان کے پلیٹ لیٹس انتہائی کم کیوں ہوئے، اور انہیں نیب کسٹڈی میں کس چیز سے ایکسپوز کیا گیا۔ میاں صاحب نے یہ بھی نہیں بتایا کہ وہ کیا روابط تھے جس کے بعد قومی مفاد میں پوری مسلم لیگ نے ایکسٹینشن کے معاملے پر ووٹ دے کے خود میاں صاحب ہی کے کسی بھی چیف کو ایکسٹینشن نہ دینے والے اصول کی نفی کردی۔ میں تو تب بھی ہر تجزیے اور ہر کالم میں کہتی تھی کہ آزمائے ہوئے راحیل شریف کو ایکسٹینشن دینا ہی ایک مکمل طور پر نئے چیف کو آزمانے سے بہتر چوائس ہوگی۔

راحیل شریف خاندانی آدمی تھے وہ کبھی بھی وہ حدود پار نہ کرتے جو ہم نے ان کے آنے کے بعد دیکھیں۔ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں اور ہم اپنی ہی غلطیوں سے سیکھتے ہیں۔ لیکن بات وار کرافٹ کے اسی اصول پر آجاتی ہے کہ جب آپ کسی بھی مصلحت کے تحت انتظار کرتے ہی رہ جاتے ہیں تو گیم آپ کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ پی ڈی ایم کے محسن داوڑ سے سلوک سے تو یہ واضح ہو گیا ہے کہ یہ احتجاج کبھی بھی ایک خاص حد کو پار نہیں کرے گا، لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کون سا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے اور بار بار ہو رہا ہے۔ اسی مصلحت اور آسروں میں رہ کے سینیٹ الیکشنز سے لے کے گلگت بلتستان کے جھرلو کے بعد بھی پیپلز پارٹی اس طرح کھل کر نہیں کھیل رہی جو مریم نواز کی پہچان بن گیا ہے اور جس کے بارے میں، میں یہاں برطانیہ میں پولیٹیکل سائنٹسٹس اور مبصرین کو کہتی ہوں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے مریم نواز محترمہ بینظیر بھٹو سے زیادہ خطرناک اور ناقابلِ پیش گوئی ہے۔ مریم کو ہمیشہ بڑوں نے خاموش کرایا اور یہی بات پالیسی سازوں کو چبھتی ہے کہ وہ خود خاموش کیوں نہیں ہوتی۔

ایک جنگجو اور طاقتور عورت ویسے بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ رہی ہے۔ فاطمہ جناح اکیلی ہونے کے باوجود لڑتی رہیں اور پراسرار موت کا شکار ہوئیں۔ بی بی شہید جنگجو ہونے کے باوجود زرداری صاحب کے مشوروں کی وجہ سے مصلحت پسندی کا شکار ہوئیں اور بالآخر شہید کردی گئیں۔ میاں صاحب دو بار خوش نصیب نکلے اور باہر نکل گئے، لیکن مریم وہیں ہے اور سہیل وڑائچ صاحب کچھ پلانز اور سازشوں کا ویسے ہی بتا چکے ہیں تو اب لانگ مارچ اور استعفوں سے پہلے لاہور کا آخری معرکہ طے کرے گا کہ مریم کی زندگی کو درکار خطرات سے نمٹنے کے لئے اپوزیشن اپنی پٹاری سے کیا نکالتی ہے اور کس طرح عمران کی ایگزٹ کے مطالبے میں اسٹیبلشمنٹ کو بیک فٹ پر دھکیلتی ہے

دوسری طرف کہ اس پورے معرکے میں عمران وہ مہرہ ہے جو اپنی ہی کوئین کی بلی چڑھا سکتا ہے، کیونکہ ”ہم جب ڈوبیں گے صنم تو سب ہی کو ساتھ لے کے ڈوبیں گے“ کے مصداق وہ جاتے جاتے سب کو لے ڈوبے گا اور یہی وہ بات ہے جس کا کپتان خود بھی کئی بار تذکرہ کرچکا ہے کہ اس کے علاوہ ”ان“ کے پاس اور کوئی چوائس ہی نہیں تو آگے آگے دیکھتے ہیں ہوتا ہے کیا۔

شمع جونیجو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمع جونیجو

شمع جونیجو علم سیاسیات میں دلچسپی رکھنے والی ماہر قانون ہیں۔ یونیورسٹی آف لندن سے ایل ایل بی (آنرز) کے علاوہ بین الاقوامی تعلقات میں میں ایم اے کیا۔ ایس او اے ایس سے انٹر نیشنل سیکورٹی اسٹڈیز اور ڈپلومیسی میں ایم اے کیا۔ آج کل پاکستان مین سول ملٹری تعلاقات کے موضوع پر برطانیہ میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ تعلیم کے لئے بیرون ملک جانے سے پہلے شمع جونیجو ٹیلی ویژن اور صحافت میں اپنی پہچان پیدا کر چکی تھیں۔

shama-junejo has 15 posts and counting.See all posts by shama-junejo