اپنا وقت کب آئے گا


”اچھے وقت اچھی یادیں بن جاتے ہیں اور برے وقت اچھے سبق بن جاتے ہیں“ ۔
”کبھی کبھی زندگی میں آپ کی صورتحال اپنے آپ کو دہراتی رہے گی جب تک کہ آپ اپنا سبق نہ سیکھیں“ ۔

ہماری ملکی صورتحال اب تک نازک مراحل میں ہے اور مزید رہنے کے قوی امکانات ہیں۔ افسوس ہم اپنے وقت سے کچھ نہیں سیکھتے، آج کے حاکم کل کے محکوم تاحد نگاہ حماقتوں کے شاہکار ہیں، مزید آنے کی امید پر دنیا قائم ہے۔ بقول حزب اختلاف لاہور جلسہ ہو گا چاہے عوام کی جانوں کا ضیاع ہی کیوں نا ہو، یہ وہی حزب اختلاف ہے جو لاک ڈاؤن نا لگانے پر میرے کپتان کا تمسخر اڑاتی تھی۔ اب بضد ہیں کہ جینا ہو گا مرنا ہو گا جلسہ ہو گا جلسہ ہو گا۔

ہمارے سیاسی قائدین کا اس بچہ والا حساب ہے جس نے اس بات پر شرط لگا لی کہ ”کاں چٹا ہوندا اے“ یعنی کوا سفید ہوتا ہے، جب گھر پہنچا اور اپنی والدہ کو اس نے اس شرط کے متعلق فخریہ انداز میں بتایا تو اس کی والدہ جو ایک عقلمند خاتون تھی کہنے لگیں کہ بیٹا کوا تو کالا ہوتا ہے، تم یہ شرط ہار جاو گے۔ بیٹا مزید فخریہ انداز میں بولا اماں ”میں من ساں تے گل بن سی“ یعنی میں مانوں گا تو شرط ہاروں گا۔

میرے محبوب قائد جناب نواز شریف خود کرونا کی حفاظتی تدابیر کے ساتھ حفاظت سے لندن میں براجمان ہیں، اور ان کے چھوٹے بھائی کرونا کا شکار ہو کر قوت مدافعت سے توانا ہو چکے ہیں۔ ان کے سیاسی بھائی زرداری صاحب جن حفاظتی انتظامات کے اہتمام کے ساتھ تشریف لاتے ہیں اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کرونا جیسی وبا کے متعلق کتنے محتاط ہیں۔ رہ گئے عوام جس کا کوئی وارث نہیں ہوتا اس کا اللہ وارث ہوتا ہے۔ جس طرح پہلی لہر اللہ کے حوالہ کر کے گزاری گئی ہے، دوسری لہر بھی اسی طرح گزار لی جائے گی۔ رہ گیا علاج تو ہمارے ملک میں ویکسین تو قہوہ کی شکل میں ایجاد ہو چکی ہے بس قہوہ والی جڑی بوٹی مہنگی نا ہو جائے جس طرح پہلے والی لہر میں ہمارے ملک میں الحاج حضرات نے مہنگی کر دی تھی۔

مقصد اس تحریک کا کیا ہے، اللہ ہی جانتا ہے ناجانے حکومت اور حزب اختلاف کی ضد میں مزید کتنے لوگوں کی جان جائے گی، یہ بات تو خدائے بزرگ و برتر اللہ کی ذات جانتی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے جب تک کسی سیاسی تحریک میں انسانی جانوں کی قربانی نا دی جائے تب تک تحریک کامیاب نہیں ہوتی۔ امید ہے کرونا مدد فرمائے گا اور مطلوبہ تعداد حاصل کر لی جائے گی۔ مطلوبہ تعداد حاصل کرنے کے بعد حکومت اور حزب اختلاف دشنام طرازی کا بازار گرم کریں گے اور اگر کسی مخیر گورے کو ہماری حالت پر ترس آ گیا تو سستی والی ویکسین امداد کی صورت میں شاید ہمیں مل جائے، نا بھی ملی تو ہم ایک اور دعائے خیر فحاشی و عریانی کے خلاف کروا لیں گے کیونکہ مسئلہ کی اصل جڑ تو وہی ہیں۔

مزید ضرورت پڑی تو ارطغرل کے بعد یونس ایمرے پیش خدمت ہے ہی، اب تو پی ٹی وی پر حزب اختلاف کا حقہ پانی بھی بند کر دیا گیا ہے نیز تنبیہ کی گئی ہے کہ سب مثبت ہی کی رپورٹنگ کی جائے۔ جس طرح کسی زمانے میں جب بچوں کے کم نمبر آتے تھے تو ماں باپ اپنی عزت رکھنے کے لئے جھوٹ بول دیتے تھے کہ بچہ فرسٹ کلاس میں پاس ہوا ہے۔

خیر شکر ہے ملکی معیشت اب ان قابل لوگوں کے ہاتھ ہے جو جنرل مشرف کے دور سے ملکی معیشت ٹھیک کر رہے ہیں اور 20 سال گزر گئے ہیں معیشت کی الہڑ جوانی ان ماہرین سے سنبھالی نہیں جا رہی۔

مجھے تو کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ تنزلی کا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہو گا، کردار بدلتے رہیں گے لیکن ہمارے بنیادی مسائل وہی رہیں گے، جن میں آبادی کی بے ہنگم شرح نمو، مہنگائی، بجلی و پانی کی کمی، دہشت گردی، فرقہ واریت، معیشت کی زبوں حالی، یکساں تعلیمی نظام، صحت کی سہولیات، تھانہ و پٹواری کا نظام، بیوروکریسی میں اصلاحات، اور حکومتی اداروں کی نجکاری وغیرہ وغیرہ۔

منیر نیازی مرحوم صحیح فرما گئے تھے
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).