دلیپ کمار۔ ایک صدی کا قصہ


تھیسپیس ایک یونانی شاعر تھا۔ قدیم روایات کے مطابق اس کو یونانی ڈرامے کا پہلا اداکار بھی مانا جاتا ہے۔ لیکن تھیسپیس کا اصل کارنامہ ڈرامے کو ٹریجڈی جیسی بڑی صنف سے متعارف کروانا تھا اور اسی لیے تھیسپیس کو ٹریجڈی کا موجد مانا جاتا ہے۔ اگر برصغیر کی بات کی جائے تو دلیپ کمار صاحب کو بلا مبالغہ برصغیر کا تھیسپیس کہا جا سکتا ہے اور آج اس عظیم اداکار کو اپنی زندگی کی بہاروں کی ایک صدی پوری کرنے کے لیے صرف دو بہاریں مزید دیکھنا رہ گئی ہیں۔

یوسف خان نے گیارہ دسمبر 1922 کو پشاور کے محلہ قصہ خوانی بازار کے لالہ غلام سرور خان کے ہاں آنکھ کھولی۔ لالہ سرور خان پشاور کے ایک معروف تاجر ہونے کے ساتھ اسی علاقے کے بھشیشورناتھ کپور کے بھی دوست تھے۔ لالہ سرور اکثر اپنے اس دوست سے جھگڑا کرتے تھے کہ تم نے اپنے بیٹے پرتھوی راج کپور کو فلموں میں کام کرنے کی اجازت کیوں دی ہے۔ لالہ کو کیا معلوم تھا کہ ایک دن ان دونوں دوستوں کے بیٹے ہندوستان کی تاریخ کی سب سے بڑی فلم ”مغل اعظم“ میں اکٹھے کام کر رہے ہو گے۔

جب دلیپ صاحب کا خاندان مہاراشٹرا شفٹ ہو گیا تو دلیپ صاحب پونے میں ایک ملٹری کینٹین چلانے لگے۔ قسمت نے ان کی ملاقات ہندی سنیما کی پہلی خاتون دیویکا رانی سے کرا دی۔ دیویکا بامبے ٹاکیز کی مالک تھی جو کہ ہندوستان کی ایک مشہور زمانہ فلمیں بنانے والی کمپنی تھی۔ اور یوں جب دیویکا نے دلیپ صاحب کو فلموں میں کام کرنے کی آفر کی تو دلیپ صاحب نے کہا کہ وہ اپنے والد سے یہ بات چھپانے کے لیے کسی فرضی نام سے کام کرنا چاہیں گے۔ دلیپ صاحب کے سامنے تین نام رکھے گئے جہانگیر، واسودیو اور دلیپ کمار۔ اس طرح اس دن یوسف خان، دلیپ کمار بن گئے۔

دلیپ صاحب کی پہلی فلم جوار بھاٹا 1944 میں ریلیز ہوئی۔ اگر چہ یہ ایک ناکام فلم ثابت ہوئی لیکن دلیپ صاحب دیکھنے اور پرکھنے والوں کی نظروں میں خوب آ چکے تھے۔ لیکن پھر بھی دلیپ صاحب کو اپنا نام بنانے میں چند سال انتہائی محنت کرنی پڑی۔ ڈائیلاگز کی ادائیگی اور چہرے کے تاثرات میں پختگی پیدا کرنے کے لیے ہدایتکار نیتن بوس اور بمل رائے نے آپ کی بہت مدد کی۔

پچاس کی دہائی تک دلیپ صاحب اگرچہ کامیابی کے گھوڑے پر سوار ہو چکے تھے لیکن پچاس کی دہائی تو مکمل طور پر دلیپ صاحب کے نام رہی جب ایک کے بعد ایک کامیابی آپ کو گلے لگانے دوڑتی چلی آئی۔ دلیپ صاحب اپنے آپ کو کردار میں نہیں ڈھالتے تھے بلکہ کردار آپ میں ڈھل جاتے تھے۔ 1951 میں بنی فلم دیدار نے آپ کو ایک ٹریجڈی کنگ کا خطاب دلوایا۔ اس فلم کے کردار میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے آپ ممبئی کی سڑکوں پر اندھے فقیر بن کر گھوما کرتے تھے۔

”دیوداس“ میں دلیپ صاحب کی اداکاری نے کے ایل سہگل جیسے بڑے نام کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ”دیوداس“ کے کردار کو دلیپ صاحب نے یوں اپنے اوپر طاری کیا تھا کہ فلم مکمل ہونے کے بعد آپ کو لندن کے ایک ماہر نفسیات سے اپنا علاج کروانا پڑا۔ اور اسی ماہر نفسیات نے آپ کو یہ تجویز کیا کہ آپ مزید ٹریجڈی فلمیں نہ کریں اور اب کچھ ہلکی پھلکی فلموں میں بھی کام کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد ہمیں دلیپ صاحب چند لائٹر سکرپٹ والی فلموں جیسے کہ کوہ نور اور لیڈر میں اداکاری کے پھول کھلاتے نظر آئے۔ لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں تھا کہ دلیپ صاحب اپنے کرداروں کو بھی ہلکا لیتے۔ کوہ نور فلم کا کردار ادا کرنے کے لیے آپ نے چھ مہینے استاد حلیم جعفر خان سے ستار سیکھنے کی تربیت لی کیونکہ اس فلم میں آپ نے نوشاد کی موسیقی میں چند گانوں پر ستار بجانا تھا۔

سب سے زیادہ ایوارڈز جیتنے والے انڈین ایکٹر کا گنز ورلڈ ریکارڈ رکھنے والے دلیپ صاحب نے صرف ایک نہیں بلکہ کئی نسلوں کو اپنے فن سے متاثر کیا ہے۔ اس وقت کے پردھان منتری جواہر لال نہرو کے علاوہ ہندی فلموں کے بہت سے دوسرے کامیاب اداکار بھی آپ کے فن کے ہمیشہ گرویدہ رہے ہیں جن میں امیتابھ بچن سے لے کر شاہ رخ خان تک سبھی شامل ہیں۔ دھرمیندر یہ بات کئی دفعہ کر چکے ہیں کہ دلیپ صاحب کی فلمیں دیکھ کر ہی میرے اندر بھی یہ شوق پیدا ہوا۔ خیبر پختونخوا کے ہی شہر ایبٹ آباد میں پیدا ہونے والے منوج کمار، جنھیں مسٹر بھارت کمار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے اپنا فلمی نام منوج اس لیے رکھا تھا کیونکہ دلیپ صاحب کی ایک فلم ”شبنم“ میں دلیپ صاحب کا نام منوج تھا۔

مردانہ وجاہت اور دلکش خد و خال کے مالک دلیپ صاحب، اپنی زندگی میں آنے والی خواتین کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بائیوگرافی میں لکھتے ہیں کہ ان کا پہلا پیار ان کی ساتھی اداکارہ کامنی کوشل تھی۔ لاہور میں پیدا ہونے والی کامنی کوشل ہندی فلم انڈسٹری کی اس وقت کی سب سے پڑھی لکھی اداکارہ مانی جاتی تھی۔ کامنی نے کنیئرڈ کالج لاہور سے انگریزی لٹریچر میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔ دلیپ صاحب نے انہیں شادی کی پیشکش بھی کی تھی لیکن کامنی چونکہ پہلے سے شادی شدہ تھی اس لیے وہ قبول نہ کر سکی۔ کامنی نے فلموں میں آنے سے پہلے ہی اپنی بہن کے مرنے پر، اس کے بچوں کی خاطر، اپنے بہنوئی سے شادی کر لی تھی۔ اور وہ دلیپ صاحب کی پیشکش قبول کر کے ان بچوں سے دور نہیں ہونا چاہتی تھی۔

ہندی سنیما کی مارلن منرو کہلانے والی خوبصورت ترین اداکارہ، مدھو بالا، کے ساتھ دلیپ صاحب کا عشق قریب سات سال چلا۔ مدھو بالا کے والد پشتون یوسف زئی تھے اور مردان اور صوابی سے ان کا تعلق تھا۔ 1956 میں ایک مشہور فلمی کیس عدالت میں جاتا ہے جو کہ بی آر چوپڑہ اور مدھو بالا کے والد کے درمیان ہوتا ہے اس کیس میں دلیپ کمار، بی آر چوپڑہ کا ساتھ دیتے ہیں جس پر مدھو بالا کے والد دلیپ کمار کے مخالف ہو جاتے ہیں۔ بس یہیں سے ایک انا کی جنگ شروع ہو جاتی ہے جس میں شاید مدھو بالا بری طرح ہار جاتی ہے اور ہار کر یوں ٹوٹتی ہے کہ پھر کبھی خود کو جوڑ نہیں پاتی۔ 1969 میں بالی ووڈ کی مارلن منرو، صرف چھتیس سال کی عمر میں اپنے دکھوں سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کر لیتی ہے۔ ہندوستان کو مغل اعظم جیسی فلم دینے والی مدھوبالا اور دلیپ کمار کی جوڑی نے جب اس آخری فلم میں ایک ساتھ کام کیا تو ان دونوں میں بول چال بالکل بند ہو چکی تھی۔

دلیپ صاحب کی زندگی میں پھر سائرہ بانو آتی ہیں۔ یہاں اس دلچسپ بات کا ذکر بھی کرتے چلیں کہ جب دلیپ صاحب کو ایک فلم میں سائرہ بانو کے ہیرو کے طور پر کام کرنے کی آفر ہوئی تو آپ نے یہ کہ کر انکار کر دیا تھا کہ یہ مجھ سے بہت چھوٹی ہیں۔ اور پھر دلیپ صاحب سے بائیس سال چھوٹی، سائرہ بانو 1966 میں آپ کی جیون ساتھی بن جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دلیپ صاحب کی شادی کے بعد مدھو بالا نے دلیپ صاحب کو فون کیا اور کہا کہ میرے شہزادے کو آج اس کی شہزادی مل گئی اور میں بہت خوش ہوں۔

یہ ان دونوں کے درمیان ہونے والی آخری بات تھی۔ دلیپ صاحب اور سائرہ بانو کے رشتے میں ایک دراڑ اس وقت پڑی تھی جب دلیپ صاحب نے اچانک ایک پاکستانی بیک گراؤنڈ کی لڑکی، عاصمہ رحمان سے خفیہ شادی کر لی تھی لیکن دو سال بعد آپ نے اس لڑکی کو طلاق دے دی تھی۔ اور یوں دلیپ صاحب اور سائرہ بانو ہمیشہ کے لیے اکٹھے ہو گئے۔

پاکستان ہمیشہ دلیپ صاحب کے دل میں رہا ہے۔ اور آپ ان دو ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی اپنی سی کوشش بھی کرتے رہے۔ پاکستان کی حکومت نے 1997 میں آپ کو نشان امتیاز سے نوازا تھا جس پر ہندوستان میں بہت لے دے ہوئی تھی اور آپ پر انتہائی دباؤ ہونے کے باوجود آپ نے وہ ایوارڈ واپس کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ دلیپ صاحب نے 1998 میں پشاور میں اپنے گھر کا بھی دورہ کیا تھا اور اس کی مٹی کو چوما تھا۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے اعلان تو کیا تھا کہ وہ دلیپ صاحب کا گھر اور کپور خاندان کے گھر کو خریدنے جا رہی ہے لیکن ابھی تک کیا پیش قدمی ہوئی ہے یہ نہیں معلوم۔

دلیپ کمار صاحب آپ کو آپ کے جنم دن کی ڈھیروں شب کامنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).