نیٹو کی افغانستان میں مستقل جنگ بندی کی اپیل


میں نے گزشتہ اپنے کالموں میں سے ایک کالم افغانستان میں امن کے لئے راستہ ہموار میں لکھا تھا کہ ”بین الافغان مذاکرات ایک وسیع البنیاد، کثیر الجہتی حل پر اختتام پذیر ہوں گے۔ اس سے ایک پرامن، مستحکم اور خوش حال افغانستان کا راستہ ہموار ہو گا۔ اب دیکھنا ہے کہ آنے والے دنوں میں افغانستان میں دیرپا امن کی بنیاد کا عمل کیسے اور کہاں سے شروع ہوتا ہے جس کی ضرورت نہ صرف اندرون افغانوں کے لئے ہے بلکہ بیرون دنیا کی نظریں بھی اس جانب مرکوز ہیں“

کیونکہ بین الافغان مذاکرات تو پہلے ہو نہیں رہے تھے التوا میں پڑ گئے تھے لیکن جب دونوں راضی ہوئے تو مذاکرات لفظی غلطیوں یا لفظی داؤ پیچ کے سہارے ایک دوسرے کو قائل نہ کر سکے لیکن اس دوران وہ خون کی ہولی کھیلی گئی کہ پہلے کبھی مذاکرات کے درمیان ایسا عمل دیکھنے میں نہیں آیا تھا جبکہ طالبان اس کی قبول داری بھی اپنے سر نہیں لے رہے تھے اور حکومت وقت کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے اور حکومت وقت طالبان کو اس عمل کا ذمہ دار گردانتے تھے لیکن اچھی بات یہ تھی کہ اس تمام صورت حال کے باوجود بین الافغان مذاکرات کا یہ سخت ترین عمل جاری رہا اور بالآخر دوحہ سے کچھ اچھی خبر آئی کہ اب کی بار طالبان اور افغان مذاکراتی ٹیم کے درمیان مذاکرات نہ صرف حوصلہ افزا رہے بلکہ کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

اب اس کامیاب مذاکراتی عمل کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں فریقین کے مابین سب سے پہلے افغانستان کے اندر امن اور جانی و مالی زیاں کے تسلسل کے تدارک کی بات ہوگی اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ امن کے کیے اب افغانستان میں راہ ہموار ہو سکتی ہے اگر بیرونی ہاتھوں نے سچ مچ افغانستان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی سے خود کو دور رکھا۔ دوحہ سے اس اچھی خبر کے مطابق فریقین نے اس ابتدائی معاہدے کو اہم پیش رفت قرار دیا ہے جب کہ اقوام متحدہ، امریکا اور پاکستان کی جانب سے بھی اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔

اس ابتدائی معاہدے میں اگرچہ امن مذاکرات کے لیے لائحہ عمل طے کیا گیا ہے تاہم اسے بڑی پیش رفت قرار دینے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس کے بعد مذاکرات کار جنگ بندی سمیت کئی اہم امور پر بات چیت کا آغاز کرسکیں گے۔

اس تمام صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے حال ہی میں نو دسمبر دو ہزار بیس کو نیٹو نے افغانستان میں مستقل جنگ بندی کی اپیل کر دی ہے۔ نیٹو ہیڈ کوارٹرز برسلز سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق نیٹو نے افغانستان کی خوشحالی اور امن کے حصول کے لئے فوری طور پر جاری تشدد کا خاتمہ کر کے افغانستان میں مستقل جنگ بندی کے لئے سیاسی لائحہ عمل اختیار کرنے کی اپیل کی ہے۔

نیٹو نے کہا کہ حکومت افغانستان اور طالبان کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان قواعد پر ہونے والا معاہدہ اور اس کے بعد ہائی کونسل برائے قومی مفاہمت کی لیڈرشپ کی پہلی میٹنگ افغانستان میں جامع اور دیرپا امن کے حصول کی طرف اہم قدم ہے۔ نیٹو نے اس اعلامیے میں مزید یاد دلایا کہ چار عشروں کی طویل جنگ اور تکالیف کے بعد یہ سیاسی مفاہمتی مذاکرات امید کی آخری کرن ہیں۔ نیٹو نے افغان حکومت اور طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ امن عمل سے متعلق اپنے ان وعدوں کو پورا کریں جو امریکا اور افغان حکومت، طالبان اور امریکا کے درمیان طے پائے ہیں۔

مغربی دفاعی اتحاد افغانستان میں شروع کی جانے والی امریکی جنگ میں سن دو ہزار تین میں شامل ہوا تھا۔ عسکری ماہرین نے اس شمولیت کو نیٹو کی ایک بڑی مہم جوئی قرار دیا تھا۔ سن دو ہزار پندرہ میں جنگی کارروائیوں کے سلسلے کو ختم کر دیا گیا تھا اور اس کی جگہ پر افغان فوج اور سکیورٹی سے جڑے دیگر اہلکاروں کی تربیت کے پروگرام کو شروع کیا گیا تھا۔ یہ مشن اب بھی جاری ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی فوج کی موجودگی اور نیٹو کے تربیتی مشن کے باوجود افغانستان کا مسلح تنازعہ بدستور موجود ہے جس کا قلع قمع اس باہمی مذاکرات کے نتیجے میں عارضی نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر کیا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).