عبدالرحمن ایسوٹ: ایک جدوجہد کا نام


دلوں پر راج کرنے والی شخصیات کے عمل اور کردار پر بحث کرنا بڑے بڑے لکھاریوں کا کام ہے۔ جو لوگ پرجوش، پرعزم، متحرک، ناداروں اور غربوں کے ہمدرد اور پسے ہوئے لوگوں کے پارسا، پسماندگی کو جڑ سے اکھاڑنے کا عزم رکھنے والے مبارز کو قریب سے دیکھ لیتے ہوں وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان مبارزین کی عملی جدوجہد کو سامنے رکھ کر، ان کے افکار پر عمل پیرا ہو کر اپنے لئے راہیں متعین کرتے ہیں۔ مگر افسوس اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے ہیروز کو بھول جاتے ہیں یا وقت کے ساتھ سمجھوتہ کر کے منہ موڑ لیتے ہیں۔

جی چاہتا ہے کہ ایسی ہی شخصیات میں شامل مرحوم عبدالرحمن ایسوٹ کی زندگی کا احاطہ مختصر الفاظ میں بیان کروں مگر ایسے الفاظ جن کی بنا پر اس شخصیت کی عملی جدوجہد اجاگر ہو سکے، کے لئے حافظے کی ضرورت ہے۔ بہر حال مرحوم کی مختصر حالات زندگی زیر قلم ہے۔

عبدالرحمن ایسوٹ کی ولادت 8 ستمبر 1956 کو ہوئی۔ آپ کے والد محترم ڈاکٹر پائند خان روایتی طب کے پیشے سے وابستہ تھے۔ آپ چھوٹے ہی تھے کہ والد کے سایہ شفقت سے محروم ہو گئے۔ عبدالرحمن نے پرائمری سکول موسی خیل میں ابتدائی داخلہ لیا۔ ذہین و فطین بچوں کی طرح تعلیم کے حصول میں دلچسپی لینے لگا۔ 1971 میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد مالی مجبوریوں کے باعث میونسپل کمیٹی لورالائی میں ملازمت اختیار کر لی۔ 1973 کو ملازمت سے مستعفی ہو کر لورالائی کالج میں داخلہ لیا۔

علاقے کی پسماندگی اور ناخواندگی کے نقوش ذہن پر چھائے ہوئے تھے۔ جو ان کے دل و دماغ میں کھٹک رہے تھے۔ انہی وجوہات کے سبب تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی سیاست میں قدم رکھا۔ باچاخان کے فلسفہ اور جدوجہد اور خان عبدالولی خان کی ولولہ انگیز قیادت سے متاثر ہو کر پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کو مزید فعال بنانے کے لئے اس تنظیم کے رکن بنے۔ حاکم وقت کے خلاف چلنے والی تحریک میں حصہ لیا اور اپنی کارکردگی کی بنا پر اہم مقام حاصل کیا۔ دیگر چیدہ چیدہ رہنماؤں کی طرح عبدالرحمن ایسوٹ نے تند و تیز سیاست کی۔

حکمرانوں نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی اور قائدین و کارکنان کا پابند سلاسل کیا۔ عبدالرحمن ایسوٹ کو بھی 1974 میں گرفتار کیا گیا۔ 1975 کو قلعہ سیف اللہ میں پولیس کی حراست سے فرار ہو کر افغانستان چلے گئے۔ افغانستان فرار ہونے والے قابل ذکر رہنماؤں میں شیرمحمد مری (شیروف) ، نواب خیربخش مری، رازق بگٹی، حبیب جالب بلوچ، شیرجان مری، اجمل خٹک، عزیز ماما، خان میر مندوخیل، خان میرموسیٰ خیل، بسم اللہ کاکڑ، صاحب جان کاکڑ، عبدالشکور کاکڑ، ارباب غلام کاسی، اسمٰعیل بازئی شامل ہیں۔

حکومت کے خاتمے پر مارشل لائی حکومت نے نیپ کے خلاف نام نہاد حیدرآباد سازش کیس کے متاثرین کو عام معافی کا اعلان کیا۔ جیلوں سے سیاسی کارکنان و رہنما رہا ہوئے اور افغانستان سے جن سیاسی کارکنوں کی واپسی ہوئی ان میں عبدالرحمن ایسوٹ بھی اپنے آبائی وطن کی طرف روانہ ہوئے۔ محترم اجمل خٹک کی قیادت میں بڑے جلوس کی صورت میں قندھار کے راستے سپین بولدک تک لا کر رخصت کیا گیا۔

بلوچستان بالخصوص موسیٰ خیل، لورالائی اور ژوب میں ایسوٹ کی مقبولیت حد سے بڑھ کر تھی۔ اس لئے موسیٰ خیل، لورالائی اور دیگر علاقوں سے چمن بارڈر تک مختلف جلوس استقبال کے لئے گئے وہاں پر جوش نعروں کی صورت میں موسیٰ خیل لایا گیا۔

عبدالرحمن ایسوٹ نے اپنا تعلیمی سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔ ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ لورالائی میں بجلی اور لورالائی کالج کے لئے ان کی جدوجہد کسی سے پوشیدہ نہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں طلبا تنظیموں کے ساتھ ساتھ مزدور یونین میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مختلف مراحل میں پابند سلاسل ہوئے۔ ان کی سرکردگی میں حمید بلوچ اور ناصر اچکزئی سے موسوم تحریکوں میں صف اول کا کردار ادا کیا۔ افغان ثور انقلاب کی نہ صرف بھرپور حمایت کی بلکہ اس کے لئے عملی جدوجہد میں حصہ لیا۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں فعال کردار ادا کیا۔ ان کی کاوشوں سے عوامی نیشنل پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اور اسی جماعت کے تادم مرگ صوبائی پریس سیکرٹری رہے۔

عبدالرحمن ایسوٹ کو سیاست کے ساتھ ساتھ ادب سے بھی دلچسپی تھی۔ اگرچہ ان کا باقاعدہ شعری مجموعہ موجود نہیں۔ پھر بھی ان کی ڈائری ان کے اشعار سے مزین تھی۔ انہوں نے سیاسی اصطلاعات کے متعلق ایک کتاب پشتو زبان میں لکھی۔ 1990 کے اوائل میں اردو میں ایک کتاب ”جنبش“ لکھی۔ یہ کتاب اب ناپید ہے مگر میری کوشش ہے کہ جلد ہی اس کی دوبارہ شائع کیا جائے۔ یہ کتاب ہر حوالے سے سیاسی کارکنوں کے لئے ایک مشعل راہ سے کم نہیں۔ مرحوم مجلہ ”زوان ژغ“ کے منتظم رہے۔ اس کے علاوہ ایک اور تحریر جو اب تک شائع نہیں ہوئی، موجود ہے۔

عبدالرحمن ایسوٹ کمال درجے کے مقرر تھے۔ مختلف مواقع پر ان کی تقریر کے دوران سامعین جذباتی ہو کر آبدیدہ ہو جاتے۔ انہوں نے نوجوانوں میں جوش و ولولہ پیدا کیا۔ سیاست کو عبادت کی حیثیت دی۔ جوانوں اور بالخصوص ناداروں کو جینے کی راہ دکھائی۔ باعمل سیاست دان ہونے کے ناتے لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ انہیں راہ نجات کا نمونہ سمجھا جانے لگا۔ مگر قدرت نے ساتھ نہ دیا اور بالآخر 23 جنوری 1995 کو کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر ریلوے کے اندوہناک حادثے میں جان کی بازی ہار گئے اور اپنے چاہنے والوں کو دردناک دنیا میں چھوڑ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).