عمران خان اور مریم نواز کا شخصی تقابل


گزشتہ صدی کے آخری تین عشروں میں عمران خان ایک عظیم کھلاڑی کی حیثیت سے بتدریج ایک کرشماتی عروج کی جانب مسلسل گامزن رہے لیکن ماننا پڑے گا کہ اس کرشماتی شخصیت کی تخلیق میں وراثت کا عمل دخل ہرگز نہ تھا بلکہ یہ عمران خان کی ذاتی محنت اور صلاحیت کے بل بوتے پر ہی وجود میں آیا تھا۔آگے چل کر یہی مقبولیت اور چاہت اسے سیاسی میدان کی طرف دھکیل کر لے گئی اور یہاں سے اس کی شخصیت کے مختلف (مثبت اور منفی) پہلو بھی سامنے آئے، جن پر آگے چل کر بحث کریں گے۔

دوسری طرف عمران خان کی طاقتور سیاسی حریف مریم نواز شریف (جس نے اگرچہ ماضی قریب ہی میں سیاسی میدان کا رخ کیا ) تاہم سیاسی اور سماجی حوالوں سے وہ پس پردہ رہ کر کافی عرصے سے سرگرم تھیں۔

لیکن ماننا یہ بھی پڑے گا کہ مریم نواز کی مقبولیت عمران خان کے برعکس اس کی ذاتی شخصیت کی بجائے اس کے والد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی ذات سے پھوٹی۔ یعنی عمران خان اور مریم نواز کی مقبولیت کا منبع الک الگ اور متضاد ہے۔

جب ہم موجودہ اور رواں منظر نامے میں دو مقبول سیاسی لیڈروں (عمران خان اور مریم نواز) کے ذہنی و فکری خدوخال اور ظاہری وضع قطع کا غیر جذباتی انداز اور مشاہدے کی گہرائی کے ساتھ تقابل کرتے ہیں تو بعض اوقات عمران خان ایک افسوسناک بے خبری کے ساتھ اپنی کرشماتی شخصیت کے انہدام میں محو نظر آتے ہیں جبکہ مریم نواز اس حوالے سے عمومی طور پر تعمیر اور اٹھان کی سمت گامزن دکھائی دیتی ہیں۔

گو کہ حالیہ کچھ بیانات مثلاً مریم کا حکومت پر الزام لگانا کہ مجھے دادی (نواز شریف کی والدہ مرحومہ) کی موت کی بروقت اطلاع نہیں دی گئی یا یہ الزام کہ جیل میں مجھے چوہوں سے بچا کھچا کھانا دیا جاتا تھا اس کے رویے پر خلاف معمول قدرے بچگانہ اور مبالغہ آمیزی کا رنگ چڑھا گیا لیکن ماضی قریب میں مریم کے مجموعی روپے کی تعمیر بہت حد تک حقیقت پسندی دلیری اور استدلال کے اجزائے باہمی سے ترتیب پاتا نظر آ رہا ہے جبکہ اس کے برعکس عمران خان کے رویے پر زمینی حقائق سے بے خبری، تہذیبی اقدار سے متصادم اور الفاظ کے چناؤ میں حد درجہ بے احتیاطی کا غلبہ رہا جس کے سبب عمران خان کی کرشماتی شخصیت پر ان کے اپنے ہی ہاتھوں بہت غبار آیا۔

ایک زمانے میں عمران خان حد درجہ خوش شکل اور عظیم کرکٹر کی حیثیت سے ایک پلے بوائے بن کر دنیا بھر کے اہم میگزینز کے سرورق پر ایک فیشن آئیکون کی حیثیت سے ہمیشہ جگمگاتا رہا لیکن ایک عرصے سے ان کی یہ “خوبی” ماند پڑ چکی ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ رنگدار کرتوں اور پشاوری چپل سے آگے نہیں بڑھ رہے ہیں جو بحیثیت ایک سابق عظیم کھلاڑی اور موجودہ ریاستی سربراہ کسی طور ان پر جچتا نہیں۔ حالانکہ عمران خان کے پیروکار انہیں ہمیشہ ایک دیدہ زیب روپ میں دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں۔

جبکہ اس حوالے سے مریم نواز اپنی مقبولیت کے ساتھ ساتھ بدلتی ہوئی دنیا اور میڈیائی چکا چوند کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے کپڑوں جوتوں ہینڈ بیگ سکارف حتی کہ جیولری کے انتخاب میں بھی حد درجہ معیاری انتخاب پر مسلسل توجہ دے کر اپنی جاذبیت کی سکورنگ بڑھاتی نظر آ رہی ہیں۔

منولو بلانک کے جوتے گوچی کے ہینڈ بیگز اور شینل جیسے مہنگے برانڈز کی ایئر رنگز کےاستعمال سے گو کہ وہ بعض اوقات تنقید کی زد میں بھی آئیں لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اس (مریم) کا تعلق اس ملک کے مالدار ترین صنعتی خاندان سے ہے اور ان لگژری برانڈز کی خریداری اور استعمال نہ ہی آن کےلئے ناممکن ہے نہ ہی خلاف معمول !

اگر بحث اس زاویئے پر مڑ ہی گئی ہے تو مثال دینے میں حرج ہی کیا ہے۔

متحدہ ہندوستان میں الیکشن سے ذرا پہلے قائد اعظم محمد علی جناح مسلم لیگ کی سنٹرل ورکنگ کونسل کے اجلاس میں سختی کے ساتھ یہ تجویز رد کر چکے تھے کہ مسٹر جناح بھی کانگریس کے لیڈر گاندھی جی کی مانند ریل گاڑی کے تیسرے درجے کے ڈبے میں بیٹھ کر پورے ہندوستان میں انتخابی کمپین کےلئے نکلیں تا کہ اکثریتی ووٹ (غریب لوگوں) کی توجہ حاصل کر سکیں لیکن یہ اصول پسند قائد اعظم ہی تھے جنہوں نے ڈٹ کر کہا کہ میں اپنے عوام کے سامنے ڈرامہ بازی ہرگز نہیں کروں گا بلکہ فرسٹ کلاس ہی میں ٹکٹ لوں گا کیونکہ میں ہندوستان کا کامیاب ترین اور مالی طور پر حد درجہ مستحکم وکیل ہوں، اسی لئے مہنگا ٹکٹ لینا میرے لئے چنداں مشکل نہیں۔ سو تیسرے درجے کے ڈبے میں بیٹھ کر ڈرامہ بازی کی ضرورت کیا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ قائد اعظم نے ایسا ہی کیا۔ اور یہی اسے ٹھیک بھی لگا تھا!

سو اس حوالے (فیشن اور برانڈز ) پر اعتراض اٹھانا کسی طور منطقی نہیں لگتا۔

بین الاقوامی تعارف اور پہچان کے حوالے سے عمران خان اور مریم نواز کا شخصی تقابل بہت دلچسپ ہے سچ تو یہ ہے کہ اس میدان میں عمران خان کا ہمسر کوئی نہیں کیونکہ بحیثیت ایک لیجنڈ کرکٹر عشروں پر پھیلی عمران خان کی مقبولیت اور شہرت کا پھیلاؤ اسے عالمی سطح پر حد درجہ اہمیت دلا چکی ہے دوسری طرف شوکت خانم جیسا عظیم منصوبہ اسے انسانی اور سماجی حوالوں سے عزت اور تکریم کی بلندیوں پر بھی لے کر گیا ہے جبکہ مریم نواز اس میدان میں فی الحال “خالی ہاتھ” کھڑی نظر آ رہی ہیں !

سیاسی حوالوں سے دیکھیں تو مریم نواز جس سیاست کی پشتی بان ہیں اسے گو کہ عمران خان طاقتوروں کے پرانے پاکستان سے تشبیہ دیتے چلے آ رہے ہیں لیکن درحقیقت عمران خان خود ہی پرانے پاکستان کے علمبردار ہیں کیونکہ احتساب کا عمل صرف “مخالفین” تک ہی محدود کرنے اور روایتی طور پر طاقتور طبقے اور اپنے سیاسی ساتھیوں کو احتساب سے بچانے والا بھی دراصل عمران خان ہی ہے جس نے پرویز مشرف سے عاصم باجوہ اور جہانگیر ترین سے علیمہ خان تک قانون اور احتسابی عمل کی رسائی روکنے میں مسلسل ایک ناپسندیدہ اور کمزور کردار ادا کیا جبکہ اس کے برعکس مریم آئین اور قانون کی بلا تفریق اور یکساں عملداری کے مطالبے پر ایک بہادرانہ استقامت کے ساتھ ڈٹی نظر آئیں۔

تقریر گفتگو اور الفاظ کے چناؤ کے حوالے سے تقابل ہو تو عمران خان اس میدان میں بری طرح پٹتے نظر آ رہے ہیں بلکہ اس کی شخصیت کو سب سے زیادہ نقصان بھی اسی “کمزوری” ہی نے پہنچایا۔ عمران خان اس حوالے سے حد درجہ غیر محتاط اور ناقابل فہم حد تک لاپرواہ ہیں حتی کہ اکثر اوقات وزیراعظم کے باوقار منصب اور اس کے تقاضوں تک کو بھی روند کر گزر جاتے ہیں۔

حال ہی میں ایک متنازع کردار کی حامل فلمی اداکارہ کی ٹوئٹر پر کثرت سے استعمال ہوتے بے معنی طنز “نانی” کو بھی ایک ناپسندیدہ اور بد رنگ استہزا کے ساتھ مستعار لینے سے بھی گریز نہیں کیا جس کا تاثر عوامی سطح پر بہت منفی رہا۔

لیکن عمران خان کے برعکس مریم نواز موجودہ سیاسی قیادت میں مولانا فضل الرحمن کے بعد غالباً سب سے زیادہ نپی تلی اور فصاحت و بلاغت کے لہجے میں بات کرنے والی رہنما ہیں۔ اس سلسلے میں اگر ایک طرف عمران خان کے لہجے سے اس کا اندرونی ہیجان اور ذہنی انتشار نمایاں ہے تو دوسری طرف شدید مشکلات اور ناسازگار حالات کے باوجود بھی مریم نے اپنے رویے اور لہجے پر قابو پا کر اسے انتہائی کمپوزڈ اور یکسو بنا کر رکھا ہے جس کا فائدہ وہ اپنے طاقتور سیاسی مورچے یعنی سوشل میڈیا کے ذریعے کمال چابکدستی کے ساتھ اٹھاتی نظر آ رہی ہے۔

مستقبل میں سامنے آتے نئے منظر نامے اور اس سے جڑے ان جدید حقائق کو سمجھنے کے لئے کسی بقراطی دانش کی ہرگز ضرورت نہیں کہ اگلے شب و روز سیاسی طور پر عمران خان اور مریم نواز کے حوالے سے حد درجہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اس لئیے نہ صرف دونوں مقبول رہنماوں کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا بلکہ کمزوریوں پر قابو پانا اور خوبیوں کا فائدہ سمیٹا بھی سیکھنا ہوگا کیونکہ نئے بنتے سیاسی منظر نامے اور بدلتی ہوئی جدید دنیا میں خوبیوں سے صرف نظر اور کمزوریوں کو فراموش کر نے کی گنجائش تیزی کے ساتھ مفقود ہوتی نظر آ رہی ھے.

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).