نئے نقاد کے نام دوسرا خط


عزیزم!

مجھے تمھاری تشویش سمجھ میں آتی ہے۔ ذرا غور کرو گے تو تمھیں تشویش کے اسباب بھی سمجھ آ جائیں گے۔ اپنی ہر حالت کو، اس حالت سے باہر نکل کر دیکھو گے تو تمھیں کئی مشکل سوالوں کے جواب ملنے لگیں گے۔ تشویش کو کچھ دیر معطل کر و اور پھر اس پر غور کرو۔ ( یہ مشکل کام ہے مگر تمھاری بساط سے باہر نہیں ہے ) تم پر کھلے گا کہ چیزیں بجائے خود مشکل نہیں ہیں، وہ مشکل لگتی ہیں اور اس لیے لگتی ہیں کہ ہر چیز کے گرد آرا اور تاثرات کے اتنے دبیز جالے بنے ہوئے ہیں کہ عام سی چیز بھی پراسرار، پیچیدہ اور کبھی کبھی تو عفریت نظر آنے لگتی ہے۔ صرف ایک ہنر سیکھ لو۔ ہر شے کو اس کے بارے میں ظاہر کیے گئے تاثر سے الگ کر کے دیکھنے کا ہنر۔

میں تاثر کے خلاف نہیں، تاثر کی جارحیت کے سلسلے میں تحفظات رکھتا ہوں۔ اگر تاثر یہ کہہ کر پیش کیا جائے کہ یہ کسی چیز کے بارے میں ایک شخص کا، ایک خاص موقع اور سیاق میں پیش کیا گیا تبصرہ ہے، جو کسی دوسرے وقت مختلف بھی ہو سکتا ہے (اور اس میں ایک نوع کا عارضی پن ہے ) ، کیوں کہ کوئی آدمی ایک لمحے میں سب باتیں، پوری وضاحت اور گہرائی کے ساتھ سمجھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ نیز یہ بات بھی اصولی طور پر تسلیم کی جائے کہ کسی دوسرے شخص کو بھی اسی طرح تاثر ظاہر کرنے کا پورا حق حاصل ہے تو اس سے تاثر کی جارحیت قائم نہیں ہوتی، لیکن جب کوئی شخص کسی شے کے بارے میں اپنے تاثر کو ایسے پیش کرے، جیسے اس پر کوئی ابدی سچائی اتری ہو تو تمھیں فوراً چوکنا ہوجانا چاہیے۔ اپنی حدوں کے سلسلے میں فریب کے شکار افراد ہی تاثر اور سچائی کا فرق مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے جس ”مابعد سچائی“ ( پوسٹ ٹروتھ) کا غلغلہ بلند ہے، اس کا ایک اہم پہلو یہی ہے کہ تاثر اور رائے کو سچائی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ پھر جن کے پاس طاقت ہے، وہ تاثر یا اپنی آرزو کے ذریعے گھڑی گئی سچائی کو ایک جیتی جاگتی حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔ ذرا وقت نکال کر ژولیاں بگینی کی چھوٹی سی کتاب A Short History of Truth، Consolations for a Post۔ Truth Worldپڑھو۔ مصنف نے اس میں آٹھ قسم کی سچائیوں کو بیان کیا ہے : ابدی، مقتدر، سری، استدلالی، تجربی، تخلیقی، اضافی اور طاقت ور سچائیاں۔ اس میں تمھیں جابجا تاثر اور طاقت کے ذریعے سچائی وضع کرنے کے متعلق حقائق ملیں گے۔

یاد رکھو، طاقت صرف کرسی، بندوق، دھن کی نہیں، گروہ کی بھی ہے۔ جب تم طاقت کے منبع کو پہچان لو گے تو اس کے خوف سے باہر آنے میں تمھیں دقت نہیں ہوگی۔ تم یہ بھی دیکھو گے کہ جنھیں تم طاقت ور سمجھتے ہو، وہ خود بھی خوفزدہ ہوتے ہیں۔ کرسی، بندوق، دھن والے اور گروہ اسی لیے تنقید سے خوفزدہ رہتے ہیں۔

تمھاری تشویش کا سبب وہ سوالات اور اعتراضات ہیں جو تم روز تنقید کے سلسلے میں سنتے اور پڑھتے ہو۔ سوال اور اعتراض میں فرق کرنا سیکھو۔ لیکن اس سے پہلے یہ جان لو کہ کوئی شے سوال اور اعتراض کا نشانہ کب اور کیوں بنتی ہے؟ جب کوئی شے اہم۔ اور طاقت ور محسوس کی جانے لگے اور لوگ اس کے سلسلے میں متجسس اور سہمے ہوئے بہ یک وقت ہوں۔ اسے سمجھنے اور اسے زیر کرنے کی خواہش، ایک ہی وقت میں کی جانے لگے۔ سمجھنے کی خواہش سوال کو اور زیر کرنے کی تمنا اعتراض کو جنم دیتی ہے۔

سوال وہ ہے جو کسی فکر، خیال یا نظریے کو زیادہ گہرائی میں سمجھنے میں مدد دے اور بحث کو آگے بڑھائے یا کوئی یکسر نیا رخ دے۔ سوال اٹھانے والے کو اپنا ہمدرد ہی نہیں اپنا ہم سفر خیال کرو۔ اپنے ہمدردوں اور ہم سفروں کو پہچاننے میں غلطی نہ کرنا۔ اور جہاں کسی استفہامی جملے کے ساتھ کوئی پریشان کن جذبہ نتھی ہو، یعنی اس کا پیرا یہ طنز، تضحیک، تمسخر کا ہو، یا مطلق تردید کا ہو، اسے اعتراض کے خانے میں رکھو۔ جب تم دونوں میں فرق کرنا سیکھ جاؤ گے تو یہ دیکھ کر حیران ہو گے کہ سوالات کم سے کم اور اعتراضات بیش از بیش ہیں۔ (اسی لیے تمھیں اپنے ہمدرد اور ہم سفر کم نظر آتے ہیں اور جو دوچار قدم تمھارے ساتھ چلتے ہیں، وہ جلد ہی کسی غبار میں گم ہو جاتے ہیں ) ۔ اس کہ وجہ سادہ ہے۔ سوچنا مشکل اور محسوس کرنا آسان ہے۔ لوگ اپنی قدیمی جبلتوں کو آج بھی اپنی استفہام پسند کھوپڑی پر ترجیح دیتے ہیں ؛انھیں دماغ سے زیادہ ریڑھ کی ہڈی پر بھروسا کرنا زیادہ فطری محسوس ہوتا ہے۔ وہ گالی، نفرت، تعصب، حسد، بغض، عناد جیسے جذبوں کو، جنھیں قدیم زمانے میں حقیقی دشمن سے مقابلے کے لیے آدمی نے پیدا کیا تھا، انھیں اپنے وجود کے سچے اظہار کے طور پر قبول کرتے نظر آتے ہیں (یہ الگ بات کہ ان کے نام انھوں نے بدل دیے ہیں ) ، جب کہ دلیل، شائستگی، غور و فکر، ٹھہراؤ اور استقامت کو اپنے اوپر مسلط کیا گیا محسوس کرتے ہیں۔ تم دیکھو گے کہ کچھ لوگ شائستگی اور دلیل کا جامہ پہن لیتے ہیں مگر جلد ہی وہ پھٹ جاتا ہے، یا وہ خود ہی، کسی بے خودی کے لمحے میں، اسے اتار پھینکتے ہیں۔ ایسا صرف اردو تنقید میں نہیں ہو رہا، باقی سب شعبوں میں بھی ذرا سے تناسب کے فرق سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ لیکن میں کہوں گا تم سوال اور اعتراض میں فرق کرنا ضرور سیکھو، غور دونوں پر کرو۔ کئی دفعہ اعتراض کے شور میں کسی سوال کا آہنگ مل سکتا ہے، جیسے کوئی خراب شاعر، کسی وقت اچھا شعر بھی کہہ سکتا ہے یا کسی بے سرے گویے سے اتفاقاً کوئی اچھا سر بھی لگ سکتا ہے۔ تم سوالوں کی تلاش کرو، خود اپنے اندر اور دوسروں کے یہاں۔ خود پر بھروسا ضرور کرو، مگر اس فریب میں مت آنا کہ کسی موضوع پر دن رات کام کرنے والے ہی سب سوالوں تک پہنچنے کے اہل ہوتے ہیں۔ آدمی میں قریب ترین چیزوں کو نظر انداز کرنے کا قوی میلان ہوتا ہے۔ کبھی نہ بھولو کہ یہاں کوئی شخص، تنہا سب کچھ کرنے کا اہل نہیں۔ کوئی ایسا دعویٰ کرے تو اسے دیوانے کی بڑ سمجھو۔ دیوانے کی بڑ کو فکشن نگار اور تحلیل نفسی کے ماہر کے لیے چھوڑ دو۔

تمھیں اسی دنیا میں، انھی لوگوں کے درمیان رہنا ہے اور انھی سے مخاطب ہونا ہے اور انھی کو سننا ہے۔ کئی حساس اور نازک طبع لوگ، ابنائے زمانہ سے مایوس ہو کر اپنے لیے خانقاہیں تلاش کر لیتے ہیں، لیکن ان پر جلد ہی کھلتا ہے کہ جس دنیا سے منھ موڑ کر وہ یہاں آئے تھے، وہ ان کا پیچھا کرتے وہاں بھی پہنچ چکی ہے۔ اس بات کو کبھی فراموش نہ کرنا کہ پیچھا کرتے ہوئے آنے والی دنیا منتقم مزاج ہوتی ہے۔ آدمی کا انتقام برداشت کیا جاسکتا ہے، دنیا کا نہیں۔ دنیا سے منھ مت موڑو، اس کو سمجھنے اور ہو سکے تو اس کا رخ بدلنے کی اپنی سی سعی کرتے رہو۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے میرا جی کی نظم ”اجنتا کے غار“ کسی وقت پڑھنا۔

سوالوں کو پہچاننا بھی کافی نہیں۔ سوالوں میں فرق کرنا بھی لازم ہے۔ کچھ سوال تمھیں بھٹکا سکتے ہیں ؛ تمھیں غیر ضروری بحثوں میں الجھا سکتے ہیں۔ تم جانتے ہو، جس طرح پھیپھڑوں کو تازہ ہوا چاہیے اسی طرح ذہن کو بھی ”تازہ دم“ رہنے کے لیے کوئی نیا خیال، انوکھا نکتہ، فرضیہ، یہاں تک کہ پہیلی یا کوئی پزل چاہیے۔ تم نے دیکھا ہوگا، انسانی ذہن کی اس خصوصیت کا فائدہ طاقت وروں نے بہت اٹھایا ہے۔ جب اصل مسئلے سے توجہ ہٹانی ہو تو لوگوں کو سوچنے اور بحث کے لیے کوئی فرضیہ، پہیلی، کوئی سیکنڈل دے دیا جاتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب نقاد کو سامنے آ کر ضروری اور غیر ضروری سوال میں فرق بتانا چاہیے۔ (اپنے فہم اور امتیاز کی صلاحیتوں کو زنگ سے بچاؤ) ۔ کیا ضروری ہے اور کیا غیر ضروری، اس پر اتفاق مشکل ہے مگر جو لوگ کسی قدر میں یقین رکھتے ہیں، ان کے لیے یہ مرحلہ آسان ہوجاتا ہے۔ ایک لکھنے والے کے لیے انسانیت سے بڑی قدر کیا ہو سکتی ہے!

تم یہ بھی دیکھو گے کہ کچھ سوالات میں ذہن کو متجسس بنانے، سوچنے کے عمل کوپر لطف بنانے کی صلاحیت اور کسی نئی دریافت کی توقع مضمر ہوتی ہے مگر لازم نہیں کہ ان کا تعلق تنقید سے ہو۔ ان سوالوں کو الگ کر لو۔ کسی جگہ محفوظ کر لو۔ ہو سکتا ہے، کسی وقت تمھارے کام آئیں۔ سوالوں کو خزانہ سمجھو، خزانہ۔ تم ان سوالوں کو ضرور اہمیت دو جو تمھیں اپنے زمانے میں تنقید کے منصب کو سمجھنے میں مدد دیں۔ لیکن یہ اسی وقت ہوگا جب خود تمھارے پاس اپنے سوالات ہوں۔ درست اور بر محل سوالات ہی کسی بحث کو مفید اور نافع بناتے ہیں۔ ایک اور بات بھی یاد رکھو، جس شخص کے ذہن میں سوال واضح ہوں، اسے بحث کی سب جہتوں اور اس کے وسیلے سے دنیا، ادب اور سماج کو سمجھنے کے سارے عمل پر بھی اختیار ہوتا ہے۔ اپنے اختیار کو پہچانو اور اس کی حفاظت کرو۔

غور کرو اور مجھے بتاؤ کہ تم اس وقت، اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے خاتمے پر تنقید کا کیا کردار دیکھتے ہو؟ تم دیکھو گے کہ یہ سوال تمھیں اب تک کی۔ یا کم از کم پچھلی صدی کی تنقید کے کردار کے جائزے کی تحریک دے گا۔ اور یہ سمجھنے میں مدد دے گا کہ ادب کو قاری، متن، مصنف کے زاویوں سے سمجھنے میں کیا کیا مدد ملی، تنقید نے جہاں ادب کو لائحہ عمل دیا وہاں کیسا ادب تخلیق ہوا اور جہاں ادیب کی مکمل آزادی کا علم تھاما، اس کا اثر ادب پر کیسا پڑا۔ جہاں تنقید نے خود ادب سے اصول اخذ کیے، اور جہاں دوسرے علوم سے مدد لی، اس سے کیا کیا ہمارے سامنے آیا۔ جہاں تنقید نے ادب کو تہذیب و روایت کا مظہر جانا اور جہاں انسانی ہستہ کا اظہار، اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ قوم پرستی نے ادب کو کیا دیا، شناختوں کی سیاست کا ادب پر اثر کیا پڑا؟ ادب کو محض ہیئت یا محض موضوع سمجھنے سے کیا کچھ واقع ہوا؟ ان میں سے اب، تنقید نے کس کو جاری رکھنا ہے، کس سے بچنا ہے اور کہاں نئے زاویوں کی تلاش کرنی ہے۔ تم اس سوال کا مجھے جواب دو گے تو ہم مزید گفتگو کریں گے۔

آخری بات۔ تم محسوس کرو گے کہ صرف ایک سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے تمھیں کہاں کہاں کی خاک چھاننی پڑے گی۔ اس سے تمھیں اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ آخر لوگ خاک چھاننے سے زیادہ دوسروں کی خاک اڑانے میں دل چسپی کیوں لیتے ہیں؟

مجھے ایک بزرگ نقاد نے دعا دی تھی کہ ”خدا تمھیں زخم چشم سے بچائے“ ۔ آج میں یہ دعا تمھیں دیتا ہوں۔
دعاگو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).