میری دوسری محبت


مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے۔ شام کی پھوار نے مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو سے ہوا کو معطر کر دیا تھا اور درختوں کے پتے ہلکے ہلکے سرسرا رہے تھے۔ شاید وہ آپس میں سرگوشی کر رہے تھے میرے اور ابراہیم کے بارے میں۔ جب میں اس سے پہلی بار ملی تھی، اس کے شائستہ اطوار نے، اس کے چہرے کی دلکش مسکراہٹ نے، اس کی شیریں زباں نے، اور جب اس نے میرے اصرار پر اپنے کہے ہوئے شعر سنائے۔ میں سوچ ہی نہیں سکتی تھی کہ ایک معمولی پڑھا لکھا انسان بھی اتنی خصوصیات کا حامل ہو سکتا ہے۔

میں کس طرح اس کی محبت میں گرفتار ہو گئی! پھر اس دن کا بھی مجھے ایک ایک لمحہ یاد ہے جب ہم نے عقد کیا اور ہمیشہ ساتھ ساتھ رہنے کے وعدے کیے ۔ میں نے اس کی قربت میں اپنی جنت پا لی اور سمجھا کہ یہ جنت اس زمیں پر ہمیشہ کے لئے ہے۔ اور وہ ہجر کا دن میں کیسے بھلا سکتی ہوں جس کی ایک ایک ساعت میرے دل میں تیر کی طرح اترتی رہی، مجھے گھائل کرتی رہی، جب میں نے ابراہیم کو آخری بار دیکھا، وہ بس میں بیٹھا جا رہا تھا۔

بس نظروں سے اوجھل ہو گئی تو میں بس سے نکلے ہوئے دھوئیں کو ہی تکتی رہی جب تک وہ بھی ہوا میں تحلیل نہیں ہو گیا۔ اور میں نے محسوس کیا کہ میں بھی اس دھوئیں کی طرح تحلیل ہو رہی تھی اپنے اندر ہی اندر۔ اس روز بھی پھوار نے زمین کو گیلا کیا تھا لیکن ایک عجیب سی بو اٹھ رہی تھی، درختوں کے پتے اس شام بھی سرسرا رہے تھے کہ شاید نوحہ خواں تھے۔

ابرا ہیم کبھی کچھ دنوں کے لئے مجھ سے دور چلا جاتا تو میں اس کی جدائی آسانی سے برداشت کر لیتی کیونکہ اس کا ایک مشن تھا، ایک جنون تھا اور میرا بھی وہی مشن اور جنون تھا۔ جب آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو ہم دونوں دن و رات، صبح و شام اس میں مصروف ہو گئے۔ مجھے یقین تھا کہ چند ہی مہینوں میں ہم غلامی کی بیڑیوں کو توڑ کر آزاد ہو جائیں گے لیکن ابراہیم کو اس تحریک کی کامیابی پر شک تھا لیکن پھر بھی اس کا عزم مجھ سے کئی گنا زیادہ تھا۔

وہ کہا کرتا کہ اگر اس تحریک کی کامیابی کا ایک فیصد بھی امکان ہو تو وہ اس کے لئے جان نثار کرنے کے لئے تیار تھا۔ کتنے خونی ایام تھے وہ جب دن میں ہم لوگوں کو محض کرفیو کی خلاف ورزی کرنے پر گولی سے ہلاک کر دیا جاتا اور رات کی سیاہ تاریکیوں میں گھروں پر چھاپے پڑتے اور صبح ہونے تک نجانے کتنے ہی نوجوان غائب کر دیے جاتے۔ اور پھر ابراہیم ایک روشن صبح کسی مشن پر گیا اور واپس نہیں آیا۔ مجھے اس نے ایک رحم دل فوجی کارندے کے ذریعے پیغام بھجوا دیا کہ اس کو قابض فوج نے پکڑ لیا ہے۔

آزادی کی تحریک ناکام ہو گئی لیکن ابراہیم اب میرے پاس نہیں تھا۔ میں اس کی جدائی میں پروانے کی طرح جلتی رہی کہ وہ ہر لحاظ سے میرے لئے ایک شمع کی مانند تھا۔ پھر وہ ہوا جس کا میں سوچ ہی نہیں سکتی تھی یا شاید سوچنا نہیں چاہتی تھی حالانکہ اوروں کے ساتھ وہ کب سے ہو رہا تھا۔ فوج نے ابراہیم کو ملک بدر کرنے کی سزا سنا دی۔ میری اس سے صرف ایک ملاقات ہوئی جس دن وہ جا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر کتنی طمانیت تھی، کتنا استقلال تھا۔

اس کی سزا میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ کبھی اپنے ملک واپس نہیں آسکتا، کبھی نہیں۔ وہ میری زندگی کے تاریک ترین دن و رات تھے، میں اپنے کمرے میں کئی کئی دن بند ہو کر روتی رہتی۔ ایک دن میں نے اسے خواب میں دیکھا تو صبح میں قابض حکام کے پاس اپنی رویداد لے کر گئی۔ مجھے بتایا گیا میں ملک سے باہر جا سکتی ہوں لیکن واپس نہیں آسکتی۔ ان کا منصوبہ مجھ پہ صاف عیاں تھا کہ کسی طرح مقامی لوگ آہستہ آہستہ یہاں سے چلے جائیں تاکہ وہ اپنے حامی لوگوں کو یہاں بسا دیں۔ میں نے ابرہیم کے ساتھ فون پر بات کر کے یہی فیصلہ کیا کہ میں ابھی اپنی جگہ نہ چھوڑوں۔ میں کچھ ہی مہینوں کے بعد ماں بننے والی تھی اور ہم دونوں یہ چاہتے تھے کہ بچہ اپنی آبائی زمین پر پیدا ہو، یہیں کچھ عرصہ گزارے تاکہ بڑے ہو کر اسی زمین سے اپنا ناتا جوڑے اور اس کی پہچان اسی ملک سے ہو۔

ابراہیم کا یہ تحفہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا لیکن میرا بیٹا اور اس کا باپ اس زمیں پر نہیں مل سکتے تھے۔ یہ کیسی ہجر کی زندگی میں نے اپنا لی تھی اور میں اس بارے میں سوچتی رہتی، سوچتی رہتی کہ کب میرا بیٹا اپنے باپ سے کھیلے گا، اس کے کندھوں پر سوار ہو گا، اور میں کب اس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر مسکرا سکوں گی، کب ہم لوگ ایک روایتی خاندان کی طرح زندگی گزاریں گے۔ جس دن میرا بچہ دو سال کا ہوا تو یہ احساس بری طرح ستانے لگا کہ میرے بچے کا یہاں کوئی مستقبل نہیں ہے، دیواروں اور فوجی چوکیوں سے گھرے ہوئے اس شہر میں مفلسی اور تشدد کے علاوہ کوئی تیسری شے نہیں تھی۔ میں ان کمینوں کو بتا دوں گی کہ میں سب کچھ چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے جا رہی ہوں تا کہ وہ مجھے جانے کی اجازت دے دیں۔

اگلے ہفتے میں نے قابض انتظامیہ سے سفر کے کاغذات تیار کروائے تو مجھے پھر متنبہ کیا گیا کہ ہم یہاں سے جا تو سکتے ہیں لیکن کبھی بھی واپس نہیں آ سکتے۔ میں یہ خروج کے ویزے لے کر واپس آئی تو گلی میں ایک کہرام مچا ہوا دیکھا۔ پندرہ سالہ خلیل کو ٹینک پر پتھر پھینکنے کے الزام میں فوج اس یتیم لڑکے کو گھر سے لے گئی جس کا باپ پہلے ہی آزادی کی جد و جہد میں ابھی تک لاپتہ تھا۔ شاید اس کے مکان کو اب بلڈوزر آ کر ملیا میٹ کر دیں گے کیونکہ شہر میں پہلے بھی کئی لوگوں کو فوج پر پتھر پھینکنے کی یہ سزا دی جا چکی تھی۔

میں کافی دیر اس کے گھر کا باہر کھڑی رہی، لوگوں کے چہروں پر یاسیت کی کہانیاں پڑھتی رہی، ان کی زبان سے نکلتی ہوئی آہ و بکا سنتی رہی۔ میر ی آنکھیں ماضی کی فلم دیکھ رہی تھیں، خون سے لتھڑے ہوئے جسم، زخمیوں کی چیخ و پکار، سہمے ہوئے بچے، شوہروں اور بیٹوں کی موت پر بین کرتی ہوئی جوان اور عمر رسیدہ عورتیں، منہدم ہوتے ہوئے ان کے گھر، اور ان سب مظالم کے باوجود آزادی اور اس کے لئے قربانی کے لئے کم نہ ہونے والا جذبہ! یہ سب کیا ہے کیوں ہے اور کب تک ہوتا رہے گا؟ میری ان معصوم و مظلوم لوگوں سے محبت، ان کے خون سے کئی بار نہلائی ہوئی فلسطین کی زمین سے محبت، میں ان سب سے منہ پھیر کر کہیں نہیں جا سکتی!

میں نے خروج کے ویزے چمڑے کے تھیلے میں سے نکالے اور ایک انجانی قوت کے تحت ان کو پھاڑتی رہی جب تک کہ وہ ریزہ ریزہ نہیں ہو گئے۔

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).