فرانس میں سیاسی اسلام کے خلاف قانون سازی


فرانسیسی کابینہ نے صدر ایمانیوئل میکرون کے تیار کردہ قانون کی منظوری دے دی ہے۔ یہ قانون نو دسمبر کو پیش کیا گیا، نو دسمبر کی تاریخ اتفاقیہ نہیں تھی۔ کیونکہ یہی وہ تاریخ ہے جب 1905ء میں فرانسیسی عوام نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ ریاست اور مذہب کے معاملات کو علیحدہ علیحدہ رکھے گی۔ اسی لئے میکرون نے اسلام پسند علیحدگی کے خلاف قانون بنانے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ اورمسلمانوں سے ایک چارٹر سائین کروانے پر زور دیاتھا کہ اسلام ایک مذہب ہے کوئی سیاسی تحریک نہیں ہے۔

فرانسیسی صدرکو ان کے بیانات کی وجہ سے دنیا بھر کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مسلمان ممالک کے اسکالرز کے علاوہ ملک میں بائیں بازو کی جماعتوں نے بھی میکرون کی جانب سے بار بار مذہب اسلام کو نشانہ بنانے کو تعصب سے تعبیر کیا گیا تھا۔ فنانشل ٹائم اور نیو یارک ٹائم میں بھی ان کے خلاف آرٹیکل لکھے گئے۔ شاید اسی وجہ سے اب اس قانون کا نام بدل دیا گیا ہے اور اسے رپبلکن ویلیوز یا جمہوری اقدار کو مضبوط کرنے کا نام دیا گیا ہے۔

فرانسیسی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ قانون اسلام کے خلاف نہیں بلکہ انتہا پسندی کے خلاف ہے۔ اس قانون کے تحت فرانس میں موجود مساجد پر کڑی نظر رکھی جائے گی کہ وہ بیرونی ممالک سے فنڈنگ نہ لے سکیں۔ بچوں کو گھروں میں مذہبی تعلیمات دینا منع ہوگا۔ سرکاری سکولوں کی بجائے بچوں کو صرف اسلامی سکولوں میں بھیجنے والے والدین کو جرمانہ ہوگا۔ اسی طرح ایسے ڈاکٹرز کو سخت جرمانے ہوں گے جو کسی لڑکی کو کنوارے پن کا لیٹر جاری کرے۔

فرانسیسی حکومت کا کہنا کہ ان کے ملک میں لوگ موجود ہیں جو شادی سے پہلے لڑکی کے کنوارے پن کا ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ اسی طرح زبردستی کی شادی روکنے کے لئے حکومتی اداروں کو اختیار ہوگا کہ وہ لڑکے اور لڑکی کا علیحدہ علیحدہ انٹرویو کریں جس سے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کہیں ان کی شادی والدین کی جانب سے زبردستی تو نہیں کروائی جا رہی۔ فرانس کے قانون کے تحت ایک سے زیادہ شادیاں تو ویسے ہی منع ہیں لیکن اس نئے قانون کے تحت ایسے امیگرنٹس کو فرانس میں رہائشی اجازت نامہ نہیں مل سکے گا جو ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے ہیں۔

دوسری جانب صدر میکرون فرانس میں موجود مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم سے یہ معاہدہ بھی کر چکے ہیں کہ فرانس میں مساجد کے اماموں کی ایک کونسل بنائیں گے جو مساجد میں اماموں کے لئے باقاعدہ اجازت نامہ جاری کرے گی اگرکسی امام کے متعلق پتہ چلا کہ وہ فرانسیسی اقدار کے خلاف بات کرتا ہے تو اسے معزول کیا جا سکے گا۔ نئے آنے والے قانون کے تحت کسی سرکاری ملازم کو مذہبی بنیاد پر ڈرانے دھمکانے والو ں کو سخت سزا ہوگی۔ اسی طرح کسی سرکاری ملازم کی معلومات شیئر کرنا اور لوگوں کو اس کے خلاف اکسانا بھی جرم ہوگا۔

قانون میں موخر الذکر شقیں شامل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ فرانس میں قتل ہونے والے استاد سیموئل پیٹی کے خلاف سوشل میڈیا مہم چلائی گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں ایک چیچن نوجوان نے اس استاد کا سر قلم کر دیا تھا حالانکہ وہ نوجوان اس کی کلاس میں پڑھتا نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس ٹیچر کو پہچانتا تھا وہ کسی دوسرے شہر سے آیا۔ طلبا سے اس کی شناخت پوچھی، اس کا پیچھا کیا اوراس کا سر قلم کیا۔

اس سے پہلے پچیس ستمبر کو ایک پاکستانی نوجوان نے پیرس میں چاقو زنی کر کے دو شہریوں کو زخمی کر دیا تھا اوراسی طرح فرانس کے شہر نیس میں بھی ایک تیونسی نوجوان نے چرچ میں تین فرانسیسی شہریوں کو قتل کر دیا تھا۔ مسلمان نوجوانوں کی جانب سے ان واقعات کا محرک متنازعہ میگزین شارلی ایبڈو کی جانب سے نبی مکرم ﷺ کے خاکے شائع کرنا تھا۔ لیکن ان واقعات کے بعد بدقسمتی سے صدر میکرون نے اس آگ پر پانی ڈالنے کی بجائے آزادی اظہار رائے کے نام پر وہ خاکے سرکاری عمارات پرآویزاں بھی کر دیے تھے جس کے نتیجے میں انہیں عالمی سطح پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا

فرانس نے ان واقعات کے بعد ستر سے زائد مساجد کی نگرانی شروع کروا دی اور ایسے لوگوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا پروگرام بنا لیا جو سوشل میڈیا پر نفرت پھیلاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پیرس کی عدالت نے ایک پاکستانی امام مسجد لقمان حید ر کو اٹھارہ مہینے قید کی سزا سنائی اور اس کے بعد اسے ملک بدر کرنے اور اس پر تاحیات فرانس میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے ان امام صاحب پر الزام تھا کہ انہوں نے ٹک ٹاک پر تین ویڈیوز جاری کی تھیں جس میں وہ غیر مسلموں کو واصل جہنم کرنے کی دعوت دے رہے تھے۔ اسی طرح فرانس نے تیرہ چودہ سال کے ان بچوں پر بھی استاد سیموئل پیٹی کے قتل کا مقدمہ قائم کر دیا ہے جن بچوں نے استاد کی معلومات اس چیچن نوجوان کو دی تھی۔ پولیس نے اس چودہ سالہ بچی اور اس کے والد کو بھی قتل کا ملزم قرار دیا ہے جنہوں نے سیموئل پیٹی کے خلاف سوشل میڈیا پر تحریک چلائی تھی۔

فرانس میں اس وقت ستاون لاکھ مسلمان موجود ہیں اسلام فرانس کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ نیا قانون فرانسیسی کابینہ سے پاس ہو گیا ہے اورجنوری میں پارلیمنٹ میں اس پر گرما گرم بحث بھی ہوگی اور فرانس میں موجود مسلمان تنظیمات کو یہ حق بھی ہوگا کہ وہ اگر اس کی کسی شق کو غیر آئینی سمجھتے ہیں تو اسے فرانسیسی عدالت میں چیلنج کر سکتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب یورپ میں موجود مسلمانوں کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ صرف چند انتہا پسندانہ اقدام کی وجہ سے یورپ میں کئی ملین مسلمانوں کو سخت قوانین کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ مسلمان کمیونٹی رہتے تو ایسے ممالک میں جن کی اپنی اقدار اپنے قوانین ہیں لیکن جب انہیں راہنمائی کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ ان ممالک کے علما ءکی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، جو ایک ملٹی کلچر سوسائٹی کے خد وخال اور ماحول کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کوئی نوجوان انتہائی قدم اٹھا لیتا ہے اور ہم دنیا میں متشدد مشہورہو جاتے ہیں۔ ایسا تاثر پیدا ہوجاتا ہے جیسے ہمارے پاس دلائل ہی نہیں ہیں جیسے ہمیں اپنے مسائل کے لئے مکالمے کی میز پر بیٹھنا نہیں آتا۔

جیسے ہمیں قانونی دروازوں پر دستک دینانہیں آتا حالانکہ یورپی اقدار اور ان ممالک کے دستور میں ان اصولوں کی گنجائش موجود ہے کہ ہم ان سے مکالمہ کر سکتے ہیں۔ ناموس رسالت ﷺ کے حوالے سے ویانا کی عدالت کا 2011ء کا فیصلہ اوراس کے بعد یورپین کورٹ آف ہیومن کمیشن کی اس پر رولنگ اس بات کی گواہی ہے کہ اگر قانون کا راستہ اپنایا جائے تو پر امن حل ممکن ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے اقدامات ہمیشہ ایسے نہیں ہوتے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فرانس کے وزیر داخلہ گیرالڈڈارمانن کو یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایسے والدین جو کسی استاد یا کسی سرکاری ملازم کو مذہبی بنیادوں پر دھمکائیں گے جب ان کا کیس عدالت میں لگے گا تو جج انہیں ملک بدر کرنے سے پہلے ضرور پوچھے گا کہ اگر آپ کو ہماری روایات یا اقدار پسند نہیں ہیں تو پھر ہمارے ملک میں رہنا کیوں چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).