حضرت سید نوشہ گنج بخشؒ نے شاہی پہلوان کو پچھاڑ دیا


اولیاء اللہ حضرت سید نوشہ گنج بخشؒ ایک مرتبہ لاہور آئے تو سب سے پہلے آپؒ نے وہاں مدفون بزرگان دین کے مزارات کی زیارت کی اور حیات اولیاء اللہ سے ملاقاتیں کیں۔ ان دنوں لاہور میں پہلوانوں کا بہت چرچا تھا۔ بیجا پور سے ایک مشہور شاہی پہلوان بھی لاہور آیا ہوا تھا۔ آپؒ نے سوچا کہ لاہور میں اولیاء اللہ اور مزارات مقدسہ کی زیارت تو ہو گئی کیوں نہ شاہی پہلوان سے بھی مل لیا جائے۔ آپؒ شاہی پہلوان کو ملنے اس کے اکھاڑے میں چلے گئے۔

اکھاڑے میں تگڑا شاہی پہلوان لنگوٹ کسے پٹھوں (شاگردوں ) کو داؤ پیچ سکھا رہا تھا۔ اسی دوران آپؒ نے دیکھا کہ اگر کوئی پٹھہ (شاگرد) غلط داؤ لگادیتا یا اس ہدایت پر عمل نہ کرتا تو شاہی پہلوان غصے میں آ جاتا اوراپنے پٹھوں کو گالیاں دینے لگتا۔ حضرت سید نوشہ گنج بخش ؒ کو اس کی متکبرانہ استادی پربہت تعجب ہوا کہ ایک طاقتور پہلوان کس طرح اپنے سے کمزور پہلوان خاص کر شاگردوں کو یوں گالیاں دے سکتا ہے۔ ابھی آپؒ اکھاڑے کے پاس کھڑے شاہی پہلوان کی استادی کا جائزہ لے رہے تھے کہ شاہی پہلوان کی نظر آپؒ پر پڑی۔

اس نے آپؒ کے کسرتی اور مضبوط جسم اور قدکاٹھ کو دیکھا اور پھر آپؒ کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے بدتمیزی سے پوچھا ”تم پہلوان ہو؟“ آپؒ نے فرمایا ”ہاں جی میں بھی پہلوان ہوں“ شاہی پہلوان نے پھر پوچھا ”لڑو گے؟ لنگوٹ کس لو اور ذرا میرے پٹھے کے ساتھ ایک پکڑ (داؤ) تو دکھاو۔“ آپؒ بولے ”پہلوان جی، میں آپ کے پٹھے سے کشتی نہیں لڑوں گا۔“ شاہی پہلوان نے طنزیہ کہا ”کیوں، کیا بات ہے؟ کیا یہ تیری دف کا ہے؟ اگر تیری دف کا بھی ہے تو کیا ہوا، ذرا میں بھی تو دیکھوں لاہوریوں کی دف میں کتنی جان ہے۔

“ حضرت سید نوشہ گنج بخشؒ نے جواب دیا ”پہلوان جی، میرا کسی دف سے تعلق نہیں ہے۔ میں تو پہلوان جی آپ سے کشتی کرنا چاہتا ہوں۔“ آپؒ نے شاہی پہلوان کو اکھاڑے میں کشتی کی دعوت دے دی، یہ سن کر اکھاڑے میں موجود دیگر پہلوان بھڑک اٹھے اوراپنی رانوں پر ہاتھ مار کر آپؒ کی جانب لپکتے ہوئے بولے ”پہلے ہم سے دست پنجہ لڑا پھر ہمارے استاد کو چیلنج کرنا۔“ آپؒ نے کوئی جواب نہ دیا۔ شاہی پہلوان جو بدستور آپؒ کو گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

اس نے اپنے پٹھوں سے کہا ”اوئے منڈیو، صبر کرو“ شاہی پہلوان نے آپؒ کا چیلنج قبول کرتے ہوئے کہا ”آ جا، نوجوان میں تیری حسرت پوری کرتا ہوں۔ چل جلدی سے لنگوٹ کس لے۔“ حضرت سیدنوشہ گنج بخشؒ مسکرائے اور پھر بڑے تحمل سے کہا ”پہلوان جی، کشتی بھی لڑ لیتے ہیں ذرا پہلے دست پنجہ تو ہو جائے“ یہ کہہ کر آپؒ نے اپناہاتھ آگے بڑھایا۔ شاہی پہلوان بڑے تکبراور غرار سے ہنستا ہوا آگے بڑھا اوراپنا بھاری، چوڑا ہاتھ آگے بڑھایا۔

اب دونوں کے درمیان دست پنجہ کا مقابلہ شروع ہو گیا۔ اکھاڑے کے پہلوان اور لوگ مقابلہ دیکھنے کے لئے اکٹھے ہو گئے۔ ہر کسی کو یقین تھا کہ شاہی پہلوان نوجوان کو آسانی سے ہرا دے گا۔ مقابلہ شروع ہو گیا، حضرت سید توشہ گنج بخشؒ نے شاہی پہلوان کے ہاتھ پکڑ کر رکھنے تھے اورشاہی پہلوان کو اپنی طاقت سے ہاتھ چھڑانے تھے۔ آپؒ نے جونہی شاہی پہلوان کے ہاتھ پکڑے اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کے پورے جسم سے جان نکل گئی ہے۔ وہ درد سے بلبلا اٹھا اور آپؒ کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرنے لگا لیکن بری طرح ناکام رہا۔

قریب تھا کہ شاہی پہلوان کی انگلیوں سے خون جاری ہو جاتا۔ وہ زور زور سے چلایا ”مجھے معاف کر دو نوجوان، میرا ہاتھ چھوڑ دو، ورنہ میری جان نکل جائے گی۔“ مقابلہ دیکھنے والے پہلوان اورلوگ حیرت میں مبتلا ہو گئے کہ ایک تگڑے، ماہر شاہی پہلوان کو کس طرح ایک نئے پہلوان نے ہرا دیا۔ آپؒ نے شاہی پہلوان کی التجا پراس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور فرمایا ”پہلوان جی، اللہ رب العزت نے آپ کو اتنی طاقت عطا کی اورعزت بخشتے ہوئے بادشاہ کے دربار تک پہنچا دیا مگر آپ نے اپنی طاقت اور عزت کو تکبر اور ظلم کا وسیلہ بنا لیا ہے۔ ، اتنا زیادہ غصہ نہ کیا کریں اور یاد رکھیں اصل پہلوان تو وہ ہے جو اپنے غصے پر قابو پاتا ہے۔“ آپؒ کی بات سن کر شاہی پہلوان شرمندہ ہو گیا اور اپنی اصلاح کی ٹھان لی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).