کورونا اور طلاق: عالمی وبا سے علیحدگیوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟


شادی کے سات سال بعد 29 سالہ سوفی ٹرنر اور ان کے شوہر نے طلاق کے لیے درخواست دائر کر دی۔ کورونا وائرس کے بحران سے پہلے انھوں نے کبھی بھی الگ ہونے پر بات نہیں کی تھی، لیکن عالمی وبا کے دوران ان کی شادی میں دراڑ پڑ گئی۔ انگلینڈ کے شہر سفولک کی سوشل سروسز میں بچوں کے لیے سپورٹ ورکر ٹرنر کا کہنا ہے کہ ’میں زیادہ تناؤ کا شکار تھا اور یہ سب بڑھ رہا تھا، اور پھر ہم نے شاید آزمائشی علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ بہت جلد ہی ہمیں اندازہ ہو گیا کہ یہ اس سے زیادہ مستقل ہونے والی ہے۔‘

ایسا تجربہ کرنے والے وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ یہ تجربات تیزی سے عام ہو رہے ہیں، جن میں طلاق کی درخواستوں کی تعداد اور بریک اپس پورے برطانیہ اور دنیا بھر میں بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ سرکردہ برطانوی قانون ساز کمپنی سٹیورٹس نے گذشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں جولائی اور اکتوبر کے درمیان طلاق کے متعلق معلومات میں 122 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا ہے۔

سٹیزن ایڈوائس نامی خیراتی ادارے نے رشتہ ختم کرنے سے متعلق آن لائن مشورے کی سرچ میں اضافے کی اطلاع دی ہے۔ امریکہ میں ایک اہم قانونی معاہدہ تخلیق کرنے والی ویب سائٹ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اس کے طلاق کے بنیادی معاہدے کی فروخت میں 34 فیصد اضافہ ہوا ہے، جن میں گذشتہ پانچ ماہ میں شادی کے بندھن میں بندھنے والے جوڑوں نے 20 فیصد سیل بڑھائی ہے۔ کچھ ایسا ہی چین میں بھی دیکھنے میں آیا ہے، جہاں عالمی وبا کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا کا سخت ترین لاک ڈاؤن لگایا گیا تھا۔ سویڈن میں بھی کچھ ایسا ہی ہے، جہاں کچھ عرصہ پہلے تک کووڈ۔19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے رضاکارانہ رہنما اصولوں پر انحصار کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیئے

لاک ڈاؤن کے دنوں میں پُرانی محبت سے تعلق بحال کرنے کی کہانیاں

’اس نے جیب سے چاقو نکالا اور میری ناک کاٹ دی‘

کورونا کے دنوں میں انوکھی شادی، مہمانوں کو کھانا گاڑیوں میں تقسیم

نیو یارک میں جوڑے اب زوم پر ’ورچوئل شادی‘ کر سکیں گے

یہ خبر اب پرانی ہے کہ عالمی وبا ہمارے بنیادی تعلقات پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ لیکن وکلا، تھیراپسٹ اور ماہرِ تعلیم کو اب کووڈ۔19 بریک اپس کی وجہ بننے والے متعدد عوامل کے متعلق واضح طور پر سمجھ آنا شروع ہو گیا ہے اور یہ بھی کہ ایسا کیوں لگتا ہے کہ 2021 میں یہ رجحان جاری رہے گا۔

قانون ساز فرم سٹیورٹس میں اس کی پارٹنر کارلی کنچ عالمی وبا کو جوڑوں کے لیے ایک ’طوفانِ کامل‘ کہتی ہیں، جس میں لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کی وجہ سے انھیں ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ وقت اکٹھا گزارنا پڑا۔ یہ بہت سارے کیسز میں بریک اپ کی وجہ بنا، جس کی وجوہات شاید پہلے ہی موجود ہوں، لیکن پہلے والے معمولات نے ان پر پردہ ڈال رکھا تھا۔

’میں نہیں سمجھتی کہ لوگوں کے طلاق دینے کی وجوہات میں لازمی طور پر کوئی تبدیلی آئی ہے۔ آپ کے پاس ہمیشہ ایک جواز چھپا ہوتا ہے کہ میں گھر پر اس سے یا کسی اور چیز سے خوش نہیں ہوں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ اب گھریلو معاملات کو اتنی باریک بینی سے سامنے لایا ہے جتنا کہ عام طور پر نہیں ہوتا تھا۔‘

کنچ کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کو انگلینڈ کے پہلے قومی لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد طلاق کی درخواستوں میں اضافے پر حیرت نہیں ہوئی تھی، کیوں کہ عام طور پر جب خاندان زیادہ لمبا عرصہ ساتھ گذارتے ہیں تو بریک اپس بڑھ جاتے ہیں، جیسا کہ سکول کی چھٹیوں یا کرسمس کے دوران۔ ’میرے خیال میں لاک ڈاؤن بنیادی طور پر ان طویل ادوار کی طرح ہے، لیکن اس میں دباؤ بہت زیادہ ہے۔‘ لیکن جو مختلف ہے وہ یہ ہے کہ طلاق کے لیے کہنے والی خواتین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور خواتین کلائنٹ سے 76 فیصد کیسز آ رہے ہیں جو کہ ایک سال پہلے 60 فیصد تھے۔

ان کا خیال ہے کہ یہ رجحان کووڈ۔19 کے دوران کام کرنے والے والدین کی زندگی کے متعلق اکثر تحقیقات سے مطابقت رکھتا ہے، جن میں بتایا گیا ہے کہ گھریلو کام اور بچوں کی دیکھ بھال کا غیر متناسب بوجھ اب بھی خواتین پر پڑ رہا ہے ، یہاں تک کہ ہیٹرو سیکچویل جوڑوں میں بھی، جہاں مرد ساتھی بھی گھر سے کام کرتا ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ کچھ لوگ یہ سوچ کر لاک ڈاؤن میں گئے کہ اوہ، کیا یہ خوبصورت نہیں ہو گا! ہم بہت سا اچھا وقت ایک ساتھ گزاریں گے اور میرا پارٹنر جو کہ عام طور پر شہر جاتا ہے، وہ میرے پاس ہو گا اور زیادہ مدد کرے گا۔ اور میرے خیال میں بہت سوں کے لیے حقیقت اس سے کہیں زیادہ دور رہی ہے۔‘

ٹرنر کہتی ہیں کہ ساتھی سے علیحدگی کا فیصلہ باہمی تھا اور وہ دونوں اب بھی دوست ہیں۔ ان کے لیے جس چیز نے اسے بڑھاوا دیا وہ ٹرنر میں ایک پہلے سے موجود بیماری کی وجہ سے انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے کے لیے الگ الگ بیڈروم میں سونے کا فیصلہ، اور یہ سمجھنا تھا کہ اس سے ان کے تعلقات کے معیار پر ’کوئی خاص فرق نہیں پڑے‘ گا۔ لیکن بہت سے دیگر عالمی امراض کی وجہ سے ہونے والے بریک اپس کی طرح، ان کے بریک میں ایک دوسرے سے بات کرنے کا مسئلہ بھی تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ایک دوسرے کے اعصاب پر سوار ہو رہے تھے اور واقعی ایک دوسرے سے ٹھیک طرح سے بات نہیں کر رہے تھے۔‘

ٹرنر کے گھریلو کام کے بڑھ جانے کی وجہ سے، کیونکہ وہ اپنے بیٹے کو گھر سے پڑھا رہی تھی اور ایک رشتہ دار کے بچوں کی بھی دیکھ بھال کر رہی تھیں، تکرار میں اضافہ ہوا۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کے پارٹنر کے لیے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ ان کی توجہ کہیں اور تھی، جب کہ وہ اس حقیقت سے نبرد آزما تھیں کہ وہ (ان کے شوہر) تو اپنی پلمبنگ کمپنی میں اپنے ساتھیوں سے ملنے کے لیے گھر سے نکل سکتے ہیں لیکن وہ گھر میں ہی پھنسی ہوئی ہیں۔

دوسرے جوڑوں کے لیے ذہنی صحت کی پریشانیوں میں اضافہ جس کا تعلق عالمی بیماری سے ہے، بریک اپ میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ جب ایمسٹرڈیم کی رہائشی 43 سالہ ایڈیٹر میری کو مارچ میں کووڈ۔19 ہوا تو ان کے ساتھی کی بے چینی کنٹرول سے باہر ہو گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے قرنطینہ کے دوران تقریباً ایک ماہ سب کچھ ہینڈل کرنا پڑا اور یہ مکمل طور پر تھکا دینے والا عمل تھا۔‘

انھیں کووڈ کافی لمبے عرصے تک رہا، اور جولائی میں بھی وہ عام ضروری چیزوں سے ہٹ کر کچھ کرنے میں دقت محسوس کر رہی تھیں جیسا کہ پارٹ ٹائم کام اور اپنے چار سالہ بچے کی دیکھ بھال۔ ’بدقسمتی سے، ہمارا رشتہ ان عناصر میں سے ایک تھا جن نے میری طرف سے بہت زیادہ کوششوں کی توقع کی جاتی تھیں جو کہ جذباتی، ذہنی اور جسمانی تھیں۔ لہذا، میں نے انھیں علیحدگی کے لیے کہا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے یہ زندگی یا موت کا مسئلہ ہو۔‘

لیکن تعلقات کے ماہرین کا خیال ہے کہ وہ مضبوط جوڑے جنھیں عالمی مرض سے پہلے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں تھا، اور جنھوں نے گھریلو صحت یا حرکیات میں بڑی تبدیلیوں سے گریز کیا تھا، وہ بھی بریک اپ کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ماہر نفسیات اور یوکے کونسل برائے سائیکو تھراپی کے ترجمان رونن سٹل مین کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عالمی مرض نے ’پہلے سے قائم شدہ معمولات زندگی جن سے سکون، استحکام اور توازن ملتا تھا، چھین لی تھیں۔‘ ان کے بغیر پارٹنرز کے پاس اپنے تعلقات سے پرے سپورٹ یا محرک کی تلاش کے مواقع محدود رہ جاتے ہی، اس کی وجہ سے ان پر دباؤ پڑ سکتا ہے۔

سٹیل مین کہتے ہیں کہ ’کافی زیادہ لوگ خود ایسی صورتحال میں پھنس رہے ہیں جہاں وہ نہ صرف کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے بلکہ ان کے درمیان کیا ہو رہا ہے جیسے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بالکل ایک پریشر کوکر کی طرح جو کسی دباؤ کو باہر نہیں ہونے دیتا ہے، ڈھکن آخر کار اڑ جاتا ہے ہے اور رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔‘

سٹاک ہوم میں رہنے والی امریکی لڑکی نورا کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ انھوں نے عالمی وبا کے پہلے ہی کچھ مہینوں میں اپنے ہسپانوی بوآئے فرینڈ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ ابھی ایک سال پہلے ہی ان دونوں نے ایک ساتھ رہنا شروع کیا تھا۔ 29 سالہ نورا جنھوں نے درخواست کی ہے کہ ان کی کنیت کے متعلق نہ بتایا جائے، کہا کہ ان دونوں نے انفیکشن کو بہت سنجیدگی سے لیا، دونوں نے ہی گھر سے کام کرنا شروع کیا اور غیر ضروری طور پر باہر جانے سے گریز کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے اپنی سماجی زندگی اور اندر کی خوشیوں کو چھوڑ دیا۔ اس نے باسکٹ بال اور میں نے پہاڑوں پر چڑھنے کو۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے اختلافات بڑے دکھائی دینے لگے، خصوصاً میرے اپنی ذات میں رہنا اور اس کی باہر کی چیزوں میں دلچسپی۔ ہم اس طرح ری چارج نہیں ہو سکے جیسا کہ ہم پہلے ہو جاتے تھے جب ساتھ رہ رہے تھے۔ اسے زیادہ لوگوں کی ضرورت تھی اور مجھے اپنی ذات کے لیے ذیادہ جگہ کی۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ان دونوں نے بڑی کوشش کی کہ کوئی حل نکل آئے، لیکن ایسا نہیں ہوا اور انھیں آخر کار علیحدہ ہونا پڑا۔

مزید پڑھیے

’میرے ساتھ تو سب اچھا ہوگا‘، اس نفسیات کی وجہ کیا ہوتی ہے؟

کورونا کی بلا ٹلنے کے بعد آپ کے کیا ارادے ہیں؟

کیا کورونا کی وبا نے ہمارے رومانوی برتاؤ پر اچھے اثرات چھوڑے ہیں؟

‘اللہ کی موجودگی میں شادی ضروری ہے، لوگوں کی موجودگی ضروری نہیں’

وکیل کنچ کہتی کہ شاید عالمی وبا زندگی کے سب سے اہم بڑے چیلنجز میں سے ایک ہو جس کا سامنا نوجوان جوڑوں کو ایک ساتھ کرنا پڑا ہو، جس سے شاید یہ کچھ حد تک سمجھ آئے کہ امریکہ اور کینیڈا سمیت کچھ ممالک میں نوبیاہتا جوڑوں میں طلاق کی درخواستوں میں اضافے کی وجہ کیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ نوبیاہتا ہیں یا نسبتا اپنے تعلقات کے ابتدائی دور میں ہیں، تو شاید یہ اس طرح کے حالات سے نہ گزرا ہو جس طرح 30 سال کی شادیاں گزرتی ہیں جن میں مختلف آزمائشیں اور مصائب آتے ہیں۔‘ دریں اثنا بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والا ’بہت ہی کم‘ چیزوں والا طرز زندگی شاید بہت سے نئے جوڑے کے گمان میں بھی نہ ہو۔

اس کے علاوہ تعلقات کے ماہرین کا خیال ہے کہ کووڈ۔19 کے مالی اثرات بھی بریک اپس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، کیونکہ لوگ بے روزگار ہو سکتے ہیں، فر لو میں جا سکتے ہیں اور کم تنخواہ لینے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ شمالی سویڈن کی امیا یونیورسٹی میں آبادیاتی تاریخ کی تحقیق کرنے والے گلین سینڈسٹروم کہتے ہیں کہ ’کم سے کم دوسری جنگ عظیم کے بعد سے معاشی بدحالی کے دور میں طلاقوں کی تعداد میں بغیر کسی استثنا کے اضافہ ہوتا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر یہ دیکھیں کہ اب ہمیں شدید بحران کا سامنا ہے، خصوصاً معاشی بحران کا، تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا حتمی نتیجہ ازدواجی عدم استحکام میں اضافہ ہو گا‘۔

ازدواجی مسائل میں پیسے کی وجہ سے جھگڑا پہلے ہی ایک عام وجہ ہے۔ سینڈسٹروم کہتے ہیں کہ ’کم آمدنی کی وجہ سے ہونے والے جھگڑوں سے تعلقات میں تناؤ پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ مختلف قسم کے استعمال کی چیزوں کو کس طرح ترجیح دینی ہے اور اس کے نتیجے میں نفسیاتی تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں تعلقات کے معیار میں کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ یہ پریشانی رہتی ہے کہ گھر کیسے چلانا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ نوکری سے نکال دیا جانا بھی خود اعتمادی کے لیے ایک بڑا دھچکا ہو سکتا ہے، خصوصاً مردوں کے لیے، جو ’اب بھی عورتوں کے مقابلے میں خاندان کو معاشی تحفظ فراہم کرنے کی اپنی اہلیت پر خود کو بڑا قابل سمجھتے ہیں۔‘ اس سے پریشانی، غصہ اور مایوسی جنم لیتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ گھریلو تشدد کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔

تاہم، دیگر مالی بحرانوں کے بر عکس، عالمی وبا نے ان افراد کو غیر متناسب طریقے سے متاثر کیا ہے جو پہلے ہی کم آمدنی والی صنعتوں جیسا کہ ہاسپیٹیلیٹی (مہمان نوازی)، تفریح​​، ریٹیل (خوردہ) اور سیاحت کے شعبوں میں غیر محفوظ ملازمت کر رہے تھے۔ یہ وہ شعبے ہیں جہاں خواتین، نوجوان افراد اور نسلی اقلیتوں کی نمائندگی زیادہ ہے۔

نکیتا امین کلچر مائنڈز تھراپی میں ایک تھراپسٹ ہیں۔ یہ تھراپی برطانیہ کی سیاہ فام اور ایشیائی برادری کے لیے کام کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ انھیں جوڑوں کی تھراپی اور انفرادی سیشنز کے لیے زیادہ انکوائریاں موصول ہوئی ہیں۔ نکیتا کہتی ہیں کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان گروہوں پر عالمی وبا کے اثرات کتنے ہیں، کیونکہ برطانیہ میں نسلی اقلیتوں میں ذہنی صحت اور تعلقات کے معاملات میں مدد لینے کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان میں علیحدگی اور طلاق کو ایک بری چیز سمجھا جاتا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ بہت سے ایسے دوسرے لوگ بھی ہوں گے جنھوں نے وقت اور پیسہ کی کمی کی وجہ سے مدد نہیں لی ہو گی یا وہ سوچ کر ڈر گئے ہوں گے کہ اگر انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ علیحدگی پر غور کر رہے ہیں تو ان کے ساتھی یا رشتہ دار کیسا ردعمل ظاہر کریں گے۔

اس امید کے باوجود کہ 2021 کے وسط تک ویکسین آ جائے گی جس سے ہم میں سے بہتوں کو عالمی وبا سے پہلے والی زندگی گزارنے کا موقع ملے گا، لیکن بہت سے طلاق کے ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ بریک اپ کے رجحان کا خاتمہ ہو جائے گا۔

امیا کے سینڈسٹروم کہتے ہیں کہ کووڈ۔19 کے مالی اثرات طویل مدتی کساد بازاری کا باعث بن سکتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ پیسوں کے جاری مسائل کی وجہ سے تعلقات میں تناؤ پیدا ہو سکتا ہے۔ ’اگر معاشی صدمہ بہت زیادہ ہے، جس سے بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہو، تو بہت سی شادیوں پر اس کے اثرات ہوں گے۔‘ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر 2021 کے دوران دنیا کے ممالک توقع سے زیادہ تیزی سے سنبھل گئے تو معاملہ اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے۔

تاہم وکیل کارلی کنچ نے خبردار کیا ہے کہ معاشی خوشحالی بھی طلاقوں کی وجہ بن سکتی ہے، کیوں ہو سکتا ہے کہ کچھ جوڑے جو اس وقت ازدواجی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں عملی وجوہات کی بنا پر الگ ہونے کے فیصلے میں تاخیر کر رہے ہوں۔ کنچ کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں جب معاملات بہتر ہو رہے ہوں گے تو مجھے اس میں کوئی حیرت نہیں ہوگی، اگر اس میں ایک اور اضافہ دیکھیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ بریک اپس کی نئی لہر میں وہ پارٹنرز بھی شامل ہو سکتے ہیں جو اس وقت اکٹھے رہ رہے ہیں کیونکہ وہ اکیلے رہنے سے گھبراتے ہیں۔۔۔ یا وہ اس سے لاجسٹک سے ڈرتے ہیں کہ وہ طلاق کی کارروائی شروع کر دیں اور پھر بھی لاک ڈاؤن کے دوران ساتھ ہی رہ رہے ہوں۔ ’وہ یہ کہنا نہیں چاہتے کہ ‘میں طلاق چاہتا/چاہتی ہوں’ اور پھر اس کے بعد انھیں ان کے ساتھ دن میں 24 گھنٹے گزارنا پڑیں۔‘

کنچ کی فرم کو پہلے ہی مستقبل کی بریک اپس سے پہلے لوگوں کی طرف سے ’معلومات اکٹھی‘ کرنے والی انکوائریوں کا سامنا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگ ’ہمارے پاس بہت سارے سوالات لے کر آتے ہیں کہ طلاق کے بعد کی زندگی کیسی ہوگی؟ میں آخر میں اس مقام سے اپنی نئی زندگی تک کیسے پہنچوں گا؟‘

’مجھے لگتا ہے کہ لوگ شاید اس پر اب کہیں زیادہ تحقیق اور گراؤنڈ ورک کر رہے ہیں جتنا انھیں شاید عالمی وبا سے پہلے کرنا چاہیئے تھا۔‘

لندن میں مقیم سائیکو تھراپسٹ نوئل بیل کہتے ہیں کہ عالمی وبا وجون کے متعلق دوبارہ اندازے لگانے پر بھی لوگوں کو اکسا رہی ہے کہ وہ اپنی زندگیوں میں کیا اور کون چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ان ثبوتوں سے واضح ہے کہ لوگ گھر بدلنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور مختلف طرز زندگی چاہتے ہیں، جیسا کہ دیہی علاقوں میں چلا جایا جائے تاکہ سفر پر کم وقت صرف ہو۔ اس طرح کی جانچ پڑتال شادیوں میں بھی ہو رہی ہے اور جوڑے اپنی زندگی کے انتخاب اور جذباتی ضروریات کا دوبارہ جائزہ لے رہے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’عالمی وبا کے دباؤ نے ہم سب کو یاد دلایا ہے کہ شاید زندگی مختصر ہو اور ہمیں یہ اندازہ لگانے کا کام سونپا گیا ہے کہ ہم اپنا قیمتی وقت کیسے اور کس کے ساتھ گزار رہے ہیں۔‘

سفولک میں سوفی ٹرنر نے ابھی ایک نئے گھر کی لیز پر دستخط کیے ہیں، اور اب اس کے بعد وہ اپنی بہن اور والدین کے قریب رہ سکیں گی۔ اور اگرچہ شوہر سے علیحدگی ایک مشکل عمل رہا ہے، وہ سمجھتی ہیں کہ یہ سب کچھ اچھے کے لیے تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’(عالمی وبا کے) مشکل حالات کا تسلی بخش پہلو یہ ہے کہ اس نے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دی ہے کہ ہمیں واقعی ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر، ہم ابھی بھی ایک بیڈروم شیئر کر رہے ہوتے اور ایک دوسرے سے بات بھی نہ کر رہے ہوتے۔‘

’ہم بطور دوست زیادہ خوش ہیں اور ہم چھوٹی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض بھی نہیں ہو رہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp