ہم نے بنگالی فوجی افسر کو سیلوٹ نہیں کیا، ملک توڑ دیا


پاکستان جو الیکشن میں مسلم لیگ کی کامیابی کی وجہ سے معروض وجود میں آیاتھا، وہی پاکستان 1970 کے الیکشن کے نتائج قبول نہ کیے جانے کی وجہ سے دولخت ہونے کی راہ پہ چل نکلا۔ پاکستان کی اشرافیہ کو شاید المیہ مشرقی پاکستان سے کوئی فرق نہ پڑا ہو لیکن پاکستان کے ان شہریوں کے لئے ناقابل تلافی صدمہ ثابت ہوا جو نظریہ پاکستان پر یقین کو اپنے ایمان کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ بعض حلقے آج بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کا المیہ مغربی پاکستان کی طرف سے مشرقی پاکستان سے کی جانے والی زیادتیاں تھیں۔

یہ درست ہے کہ اگر بھارت مشرقی پاکستان پر حملہ آور نہ ہوتا تو پاکستان دولخت نہ ہوتا لیکن مشرقی پاکستان سے کی جانے والی زیادتیوں اور 1970 الیکشن میں عوامی لیگ کی کامیابی کو تسلیم نہ کرنا پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کی وجوہات کی واضح بنیادیں ہیں۔ میں نے بھی تعلیمی نصاب میں پڑھا کہ مشرقی پاکستان کے ہندو اساتذہ نے بنگالی مسلمانوں کا ذہن تبدیل کر دیا، مغربی اور مشرقی حصوں میں فاصلہ بہت زیادہ تھا، عالمی ساز ش، انڈیا کی سازشیں، انڈیا کا مشرقی پاکستان پر حملہ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن تاریخ سے آگاہی رکھنے والوں کے لئے یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ مشرقی پاکستان سے روا رکھی جانے والی زیادتیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان کے وہ لوگ دوسرا راستہ اپنانے پر مجبور ہوئے جنہوں نے مسلم لیگ کے قیام میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا اور جنہوں نے قیام پاکستان کے لئے بے مثال قربانیاں دی تھیں۔

یہ تو سب کو ہی معلوم ہے کہ مارشل لا کے دور میں 7 دسمبر 1970 کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی 300 نشستوں میں سے عوامی لیگ نے 160 اور پیپلز پارٹی نے 81 سیٹیں حاصل کی تھیں اور شیخ مجیب الرحمان نے 1966 میں پاکستان کے نئے آئین کے لئے اپنے وہ چھ نکات پیش کیے تھے جنہیں بعد میں شیخ مجیب کی غداری قرار دیا گیا۔ ذالفقار علی بھٹو نے لاہور میں پیش کردہ شیخ مجیب کے ان نکات میں سے ساڑھے پانچ نکات تسلیم کر لئے لیکن ملک میں پارلیمنٹ کی بالادستی اور مارشل لا کی نفی پر مبنی نکتے پر اتفاق نہ کر سکے۔

میری رائے میں مشرقی پاکستان کی علحیدگی کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ ہم نے اپنے بنگالی بھائیوں کو اپنے برابر کا رتبہ نہ دیا، ان کو ان کے حقوق سے محروم رکھا، ان کے ساتھ تعصب کیا۔ چند سال قبل دسمبر کے ہی مہینے میں جب ایک نشست میں مشرقی پاکستان کے المیے پر بات ہو رہی تھی تو محفل میں موجود ایک بزرگ نے بنگالیوں سے زیادتی کی بات کی تائید کی اور اس کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وہ فوج میں رہ چکے ہیں، جب وہ کسی بنگالی فوجی افسر کو دیکھتے تو اپنی ٹوپی اتار کر منہ دوسری جانب پھیر لیتے تاکہ اس بنگالی افسر کو سیلوٹ نہ کرنا پڑے، اتنا ہی نہیں منہ دوسری طرف کر کے اسے گالی بھی دیتے کہ اس کالے کو ہم سیلوٹ کریں۔

اس بزرگ نے بتایا کہ اب معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دماغ کتنے خراب ہو گئے تھے۔ 1962 میں مشرقی پاکستان کے ایک رکن کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں کئی گئی تقر یر کا یہ حصہ اس حوالے سے نہایت اہم ہے۔ مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کے رکن سید عبدالسلطان نے 1962 میں قومی اسمبلی میں جو تقریر کی، اس کا ایک حصہ پیش خدمت ہے۔

”تو جناب اگر حکومت پاکستان مشرقی پاکستان میں سیلاب کے مسئلے سے واقعی نمٹنا چاہتی ہے۔ وہ ایسا نہیں کر سکتے جب تک وہ اپنی پرانی پالیسی پر چلتے رہیں گے، امداد کے نام پر ہومیوپیتھک دوائیاں بھیج دینا، اور مشرقی پاکستان کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا۔ ان کو مستقل علاج ڈھونڈنا چاہیے، سیلاب سے بار بار ہونے والی تباہ کاریوں کا۔ جناب، کروگ مشن 1957 میں آیا اور اس نے اس سال خبردار کیا تھا سیلاب سے، اور کہا تھا کہ جتنے بھی ممکنہ اقدامات انسان کے بس میں ہیں، کیے جائیں، مشرقی پاکستان میں بار بار سیلاب آنے سے روکنے کے لئے۔

انہوں نے مزید یہ کہا تھا کہ مشرقی پاکستان کے دریاؤں کے معتدل استعمال کے لئے اقدامات کیے جائیں، ورنہ جانی و املاک کے نقصان کا خطرہ رہے گا۔ کروگ مشن کی سفارشات پر واپڈا کا محکمہ 1959 میں وہاں قائم کیا گیا۔ ہم نے سنا کچھ سکیمیں بن رہی ہیں۔ برہما پترا پروجیکٹ، تستا پروجیکٹ، کھلنا پروجیکٹ، اور ہاں سانگو ریور پرجیکٹ چٹاگانگ کی پہاڑیوں پر۔ لیکن یہ سب سکیمیں سردخانے میں پڑی ہیں نامعلوم وجوہا ت کی بنا پر۔

جب تک یہ پروجیکٹ شروع نہیں کیے جاتے، اور بہت مناسب طریقے سے چلائے نہیں جاتے بغیر کسی تاخیر کے، پاکستان میں بار بار سیلاب آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جناب، برہما پترا پروجیکٹ کی لاگت صرف 44 کروڑ ہے، تیستا کی 39 کروڑ، اور باقی منصوبوں کی لاگت ان سے بھی کم ہے لیکن پھر بھی یہ منصوبے کام نہیں کر رہے۔ یہ عرصہ دراز سے سرد خانے میں پڑے ہیں۔ لیکن جناب، سندھ طاس منصوبہ 1000 کروڑ کا ہے، اس پر کام ہو رہا ہے اور اب یہ شاندار ترقی کر رہا ہے۔

مشرقی پاکستان کے لوگ بہت خوش ہیں کہ اب کے بہن بھائی مغربی پاکستان میں ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں اس ترقی کی وجہ سے۔ لیکن حکومت پاکستان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مشرقی پاکستان کے لوگ بھی انسان ہیں۔ اس طرح کے انسان جس طرح کے مغر بی پاکستان کے ہیں۔ اسی طرح کے انسان ہیں، اور اسی ملک پاکستان کے باشندے۔ ان کی بھی اسی طرح خواہشات اور کمزوریاں ہیں، اسی طرح اسی خدا کی دی ہوئی زندگی کو اچھی طرح گزارنے کی انمٹ آرزو۔

لیکن یہ ایک المیہ ہے اور اس سے بڑا کوئی المیہ ہو نہیں سکتا کہ جہاں مغربی پاکستان میں اتنے تعمیراتی کام ہو رہے ہیں، مشرقی پاکستان میں کوئی ترقی کا کام نہیں ہو رہا، حکومت کے تغافل کی وجہ سے۔ حکومت کو جب تک احساس نہیں ہوتا کہ مشرقی پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں کو بھی اسی طرح اہمیت دینی چاہیے جس طرح مغربی پاکستان کے ترقیاتی منصوبے، کوئی حقیقی ترقی نہیں ہو سکتی۔ یہ بدقسمتی ہے کہ حکومت پاکستان کی نظر مشرقی پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے کبھی ہمدرد اور مخلص، مساویانہ اور آزادانہ نہیں رہی۔ حکومت پاکستان ہمیشہ تغافل، تاخیری حربے اور گریزی حربے استعمال کرتی رہی ہے۔ جتنی جلدی یہ صورتحال ختم ہو اتنا بہتر ہے۔ جب آپ کسی شخص پر مصائب اور تکالیف کے انبار لگائیں گے اس سے کتنے صبر کی توقع کر سکتے ہیں۔ مشرقی پاکستان مسلسل مصائب اور بے حسی کے رویے پر کتنی دیر صبر کر سکتا ہے ”۔

اب بھی اگر کوئی اس بات پہ اصرار کرے کہ مغربی پاکستان نے مشرقی پاکستان کے ساتھ زیادتی نہیں کی، تو اس کی عقل پر ماتم کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ آج مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے 45 سال ہو چکے ہیں لیکن یہ دیکھ کر دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ جس سوچ اور ”اپروچ“ کی وجہ سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا، وہی سوچ اور ”اپروچ“ آج بھی کارفرما ہے۔ ملک میں عوامی مفاد دوسرے مفادات کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے نچلے درجے پر متعین رکھا گیا ہے۔ بات یہی ختم کرتا ہوں کہ اگر ہم نے مشرقی پاکستان کے سانحے سے کوئی سبق حاصل کیا ہے تو پھر ہمارا کوئی نقصان نہیں، لیکن اگر ہم نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا تو یہ ایسا نقصان ہے جو اب بھی جاری ہے اور اس کے خطرات محب وطن شہریوں کے دلوں کو دہلا دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).