ہم فقیر خانہ میوزیم کیوں نہیں دیکھ سکے؟


فقیر خانہ میوزیم پاکستان کے چند پرائیویٹ میوزیم میں سے ایک ہے۔ لاہور چونکہ اکثر جانا ہوتا ہے، تو ہم واپسی سے قبل ایک دن لاہور کی سیر کی کوشش کرتے ہیں اگر موسم اچھا ہو اور ایک دن اضافی بھی ہو۔

یہ کورونا کی پاکستان آمد سے چند دن پہلے کی بات ہے۔ مارچ کی ابتدائی تاریخیں تھیں اور موسم بھی خوشگوار۔ ہم نے کچھ وقت گوگل پہ لاہور کی تاریخی جگہوں کی تلاش کی تو ”فقیرخانہ میوزیم“ کے حق میں فیصلہ ہوا، یہ ایسی جگہ تھی جو ہم تینوں نے نہیں دیکھی تھی۔

ٹیکسی والے نے ہمیں بہت ہی عاجزی سے رضامند کیا کہ لکشمی سے تھوڑا آگے ہی گاڑی نہیں جا سکتی اور نا ہی وہ راستہ جانتا تھا، کہنے لگا بس سر آپ لوگ تھوڑی ہمت کریں تو آرام سے پیدل بھی پہنچ جائیں گے۔

ہم بھی جوش میں چلنے لگے، اس روز ہم نے اندرون شہر لاہور کے سارے ہی دروازے دیکھ لئے، موسم بہت اچھا تھا ہلکی بارش بھی ہو رہی تھی، اندرون شہر کا صدیوں پرانا گاڑھا کالا کیچڑ ہمارے پائنچوں پہ جابجا چپک رہا تھا، جوتے کیچڑ میں لت پت۔ ایسے میں ایک چنگچی میں بیٹھے جس نے ہمیں بھاٹی کے قریب کہیں اتارا۔ وہاں سے ہم ہانپتے ہوئے آخر کار منزل پر پہنچ ہی گئے۔ دروازے پہ ہم نے جلدی سے فوٹو بنائی۔

اس جگہ پہنچنے کی یہ میری تیسری کوشش تھی پہلے بھی میں اپنے بھائی کے ساتھ دو بار بھاٹی سے بھٹک کے جا چکی تھی۔

گویہ بچپن کا خواب آج پورا ہونے جا رہا تھا۔

ہم خوشی خوشی فقیرخانہ عجائب گھر کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئے تو گندا سا برآمدہ جہاں پرانے فرنیچر کو بارش نے دھو کے بھگو بھی دیا تھا۔ ایک چھوٹی سی اینٹیک شاپ جس میں چند بوسیدہ اشیا خاص گوروں کے حساب سے بنائی اور سجائی گئی تھیں۔

پھر بھی ہم اپنی منزل مقصود پہ خوش و خرم گندگی اور تمام تر بے ترتیبی کو نظر انداز کر رہے تھے کہ، ہم نے حویلی کے دروازے کو دستک دینے کے لیے ہاتھ لگایا تو دروازہ اندر کی جانب کھل گیا۔ اندر ایک چھوٹا سا آنگن دائیں جانب ایک کمرہ جس میں در و دیوار پہ کچھ پرانی سجاوٹ دکھائی دے رہی تھی۔

آنگن نما جگہ پہ ایک شخص انگریزی لہجے میں اردو میں کسی سے فون پر گفتگو کر رہا تھا۔ ہماری اچانک آمد پہ ناگوار چہرہ بنا کہ ہماری طرف متوجہ ہوا۔

جی؟
السلام علیکم۔
جی؟
وہ ہم فقیرخانہ میوزیم دیکھنے کے خواہش مند ہیں کیا ہم اندر آ جائیں؟
جی نہیں!
کیا کیوں؟
کیوں کہ آپ نے وقت نہیں لیا۔

اوہ لیکن گوگل پہ تو ہمیں کوئی نمبر دکھائی نہیں دیا۔ اور ہم بڑی مشکل سے بہت بھٹک کے یہاں آئے ہیں۔ ہم کراچی سے آئے ہیں۔

So؟ So what؟ یہاں تو سب ہی دور سے آتے ہیں۔ کینیڈا، یوکے، امریکہ تو کراچی کی کیا اہمیت؟
اندر آنے کا کوئی طریقہ؟

جی ہے، آپ لوگ یوں کریں کہ فیس بک پر ہمارے پیج پہ جائیں۔ وہاں ایک نمبر ہے اس پہ کال کریں اور الماس صاحب سے وقت لیں، پھر آجائیں۔

اوہ شکریہ، ابھی کرتے ہیں۔ ہمارے ساتھی نے فوری طور پر فیس بک پہ پیج نکالا اور کال ملانے پہ ہمیں حویلی میں گھنٹی بجنے کی آواز آئی۔

ییلو جی الماس صاحب بات کر رہے ہیں؟
جی میں الماس ہی بات کر رہا ہوں۔
وہ ہم آپ کے میوزیم کے باہر موجود ہیں اور اندر آنے کے خواہشمند ہیں کیا ہم اندر آ جائیں؟
جی نہیں میں نے ہی آپ کو منع کیا تھا۔
تو ہم کب آئیں؟
کل آجائیں۔
کل تو ہم کراچی واپس جا رہے ہیں، ابھی ہم باہر ہیں اگر آپ کہیں تو ہم آ جائیں؟
جی نہیں۔ اور لائن کٹ گئی۔

کچھ دیر باہر اس بوسیدہ اینٹیک شاپ پہ جعلی اینٹیک دیکھتے رہے پھر ہم تینوں سڑی ہوئی شکلیں بنائے ذلیل و خوار، باہر آئے اور خلیفہ کی نان خطائی کی تلاش میں نکل گئے۔

اس روز ہمیں معلوم ہوا کہ پاکستان میں اول تو کسی بھی تاریخی عمارت کو دیکھنے جاؤ تو اس کی حالت دگرگوں ہے، مرمت کے نام پہ سیمنٹ اور چونا لگایا جا رہا ہے پھر جو یہ چھوٹے موٹے چند ایک پرائیویٹ میوزیم نما جگہیں جیسے ہیرامنڈی کا کوکوز ڈین ہو یا فقیرخانہ، یہاں صرف گوروں، سکھوں اور امیروں کو بیوقوف بنانے کے لیے ہی دروازے کھلتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پروجیکشن اور کمائی ہو۔

ٹھسا ٹھس تکبر سے بھرے یہ انگریزی لہجے میں پنجابی اور اردو بولنے والے امرا کے ملازم شاہ سے بڑھ کے شاہ کے غلام ہیں۔ اگر میری بات پہ آپ کو یقین نہ آئے تو فقیر خانہ میوزیم کا فیس بک پیج دیکھ لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).