والدین جھیلتے ہیں، کہتے کچھ نہیں: ایک عام لڑکی کی ڈائری (4 )



مورخہ تیرہ دسمبر انیس سو بانوے
بروز اتوار
13/12/1992
پیاری فرخندہ کیسی ہو؟

ہاں مجھے پتا ہے فرخندہ میرا نام ہے مگر خدا کی بندی کبھی میری خیریت بھی پوچھ لیا کرو۔ یار واقعی کبھی کبھی بالکل مزا نہیں آتا کہ میں تو بولتی رہتی ہوں تم منہ میں گھنگھنیاں ڈالے پڑی رہتی ہو۔ دوستی کی کوئی تو ذمہ داری ہے۔ مانا تم بے جان اشیا کی صف میں آتی ہو۔ مگر کبھی میرا دل رکھنے کے لیے ہی کچھ پوچھ لیا کرو۔ ویسے بھی کافی دنوں سے گھر میں بہت ٹینشن ہے۔ پتا نہیں کیوں امی ابو دونوں ہر وقت عجیب سا رویہ دکھاتے ہیں۔

ابو تو خاص طور پہ بہت ہی بدلے ہوئے لگ رہے ہیں۔ شام میں اخبار پڑھنے بیٹھتے ہیں تو اخبار سامنے کھلا رہتا ہے چائے برابر میں رکھے رکھے ٹھنڈی ہوجاتی ہے اور وہ اوپر خلا میں پتا نہیں کہاں گھورتے رہتے ہیں۔ پھر مجھے ڈانٹتے ہیں یا امی سے لڑنے لگتے ہیں کہ ٹھنڈی چائے دے دی۔ آفس سے واپس آ کر گھر میں رکتے بھی کم ہی ہیں۔ ورنہ صرف جمعرات کی شام دوستوں کی طرف جاتے تھے کہ اگلے دن چھٹی ہوتی ہے۔ سوتے ہوئے بھی اتنے بے چین لگتے ہیں بار بار کروٹیں بدلتے ہیں پتا نہیں سوتے بھی ہیں یا نہیں۔

امی کا دھیان بھی پتا نہیں کہاں رہتا ہے۔ پچھلے ہفتے سے روز شام میں کہتی ہوں کہ فیس کے پیسے دے دیجیے گا مگر روز دینا بھول جاتی ہیں۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ امی جتنی بھی مصروف ہوں ڈیو ڈیٹ سے پہلے میری اور راحیل کی فیس میرے بستے میں رکھ کر مجھے بتا دیتی تھیں۔ اپنی بی پی کی دوا بھی نہیں کھا رہیں جب یاد دلاؤ تو ڈانٹ دیتی ہیں کہ تم ہر چیز میں ٹانگ مت اڑایا کرو۔ شاید امی نے شگفتہ پھوپھو کا ساتھ رہنا بہت ہی سر پہ سوار کر لیا ہے۔

خیر ان کا کام بھی تو بڑھ گیا ہے۔ گھر میں لوگ بھی بڑھ گئے ہیں۔ امیراں باجی بھی چھٹی لے کر اپنے گاؤں چلی گئی ہیں اس بات کو بھی مہینہ ہو گیا ہے۔ اب صفائی بھی امی کچھ خود کرتی ہیں کچھ مجھ سے کرواتی ہیں۔ بلکہ زیادہ مجھ سے ہی کرواتی ہیں۔ اسکول سے آ کر برتن بھی اب مجھے دھونے ہوتے ہیں۔ ورنہ صفائی اور برتن تو امیراں باجی کر لیتی تھیں۔ میری پڑھائی اتنی متاثر ہو رہی ہے کیا بتاؤں۔ اسکول میں مسیں اوہ سوری ٹیچرز ویسے ہی ڈراتی ہیں اگلا سال بورڈ کا ہوگا ابھی سے محنت کر لیں۔

سال بھی ختم ہو رہا ہے۔ ششماہی امتحان میں تو پھر بھی میرے نمبر اچھے آ گئے تھے سالانہ میں تو بس اللہ ہی حافظ ہے۔ ریاضی کی مشقیں بھی بہت مشکل ہو گئی ہیں جن کا سر پیر ہی سمجھ نہیں آ رہا۔ چھٹی ساتویں میں اتنی مشکل سے الجبرا اور ان میں متغیر اور غیر متغیر اور ان کا مساواتوں میں استعمال سیکھا تھا مجھے پتا ہوتا کہ آٹھویں میں یہ بھوت ارتقا کی نئی منازل طے کر لے گا تو میں آتی ہی نہیں آٹھویں میں۔

سوری سوری اللہ میاں سوری جلدی میں لکھ دیا پلیز آٹھویں میں فیل نہیں کیجیے گا۔ آمین

لیکن پیاری ڈائری مجال ہے جو ٹیچرز کبھی یہ بتا دیں کہ یہ اصل زندگی میں یہ سب کہاں استعمال ہوتے ہیں۔ اور ہوتے بھی ہیں یا نہیں۔

لیکن ریاضی سے زیادہ مشکل ان بڑوں کے رویے سمجھنا ہے۔ شگفتہ پھوپھو بھی عجیب سی رہتی ہیں اب کم کم ہی نیچے آتی ہیں۔ اب یہ لوگ کھانا بھی ساتھ نہیں کھاتے۔ بلکہ کھانا لے جاتے وقت پھوپھو امی سے ہی کہتی ہیں کہ بھابھی آپ اپنے حساب سے نکال دیں تاکہ ضائع نہ ہو۔ گھر میں عجیب سی اداسی طاری رہتی ہے جو صرف محسوس ہوتی ہے۔ کوئی آ جائے تو سب ایک دم ہنسنے مسکرانے لگتے ہیں جیسے سب ٹھیک ہے۔ ویسے تو لگتا بھی ٹھیک ہی ہے لیکن مسئلہ کیا اور کہاں ہے مجھے سمجھ نہیں آ رہا۔

میرا دل چاہتا ہے میں اسکول میں ہی رہوں۔ یا اسکول کے بعد کہیں اور چلی جایا کروں جیسے راحیل گلی میں کھیلنے چلا جاتا ہے۔ مجھے تو امی سہیلیوں کے گھر بھی نہیں جانے دیتیں۔ ہمارے گھر بھی فون ہوتا کتنا مزا آتا۔ جب دل چاہا کسی بھی دوست کو فون کر لیا۔ پورے محلے میں صرف سامنے والوں کے گھر فون ہے جہاں محلے بھر کے رشتے داروں کے فون آتے ہیں مگر یہاں سے کوئی فون نہیں کر سکتا۔ آنٹی نے ڈائل پہ چننا منا سا تالا لگایا ہوا ہے۔

بقول ان کے کہ ان کے بچے بلا وجہ کوئی بھی نمبر ملا دیتے ہیں پھر بہت بل آتا ہے۔ ان کے گھر میں تو رنگین ٹی وی بھی ہے۔ اتنا فرق ہے ان کے اور ہمارے ٹی وی میں۔ ایک ہی ڈرامہ دونوں ٹی ویوں پہ دیکھو ایسا لگتا ہے دو الگ الگ چیزیں دیکھ رہے ہیں۔ محلے میں کہیں اور جاؤں نہ جاؤں امی جب بھی سامنے والی آنٹی کے گھر جاتی ہیں میں ضرور ساتھ جاتی ہوں۔ کبھی کبھی جب آنٹی فون کا وہ ننھا منا تالا کھول کے کوئی نمبر ڈائل کرتی ہیں اتنا مزا آتا ہے دیکھ کر۔

سب سے مزا آتا ہے جب نمبر میں آٹھ، نو یا صفر ہوتے ہیں ج آنٹی نو نمبر والے رنگ میں انگلی پھنسا کر گھماتی ہیں اور چھوڑنے پہ وہ دھیرے دھیرے دوبارہ گھررر کی آواز کے ساتھ واپس اپنی جگہ پہ واپس آتا ہے۔ میں نے تو سنا ہے اب باہر کے ملکوں میں بغیر تار والے فون بھی ایجاد ہو گئے ہیں۔ موبائل فون کہتے ہیں شاید اسے۔ پتا نہیں ابو کب فون لگوائیں گے۔ جمعے کو امی سے کہہ بیٹھی تھی امی چڑ کے بولیں ہاں تمہارے ابا گورنر ہیں شہر کے؟ پھر کہنے لگیں پڑھ رہے ہو تم لوگ اسی کو غنیمت جانو۔ امی کا یہ لہجہ بہت اجنبی سا تھا۔ مجھے اس وقت بھی رونا سا آیا تھا اور اب بھی ایسا ہی لگ رہا ہے۔ بس مزید نہیں لکھ رہی کچھ۔ شب بخیر پیاری ڈائری

مورخہ تیرہ دسمبر دو ہزار بیس
بروز اتوار
13/12/2020

میں کبھی کبھی سوچتی ہوں شاید والدین ہونا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ اور ہم نے یعنی ہمارے معاشرے نے اسے مزید مشکل بنا دیا ہے۔ اتنا مقدس کیا اتنا مقدس کیا کہ ہم والدین کے کاندھوں پہ قربانیوں کے پہاڑ رکھ دیے پھر امید یہ کہ ہم شکایت بھی نہ کریں۔ پہلے جب میں نے کمانا شروع کیا تھا اور ابو سے اپنی خرچے لینے بند کیے تھے تو چند ماہ بڑے مزے میں گزرے۔ نئے نئے پیسوں کا خمار تھا۔ بہت کچھ بے تکا بھی خریدا۔ پہلا موبائل بھی تب ہی لیا تھا جس پہ امی بہت ناراض ہوئی تھیں کہ لڑکیوں کے پاس موبائل نہیں ہونا چاہیے۔

مجھے بھی افسوس ہوا تھا کہ مجھے ایسی کیا ضرورت تھی اس کی مگر آہستہ آہستہ کب یہ زندگی کا ضروری حصہ بن گیا پتا ہی نہیں چلا۔ اور اب اس سال تو بچوں کی آن لائن کلاس کے لیے بالکل نیا موبائل دلوانا پڑا ہے۔ حالاں کہ میرا بڑا بیٹا ہی ابھی چھٹی کلاس میں ہے۔ جس وقت میں نے ڈائری میں اس نئی ڈیوائس کا تذکرہ کیا تھا اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ نیا آلہ ایسے ہماری زندگیاں ناصرف بدل دے گا بلکہ ہماری زندگیوں پہ حاوی ہو جائے گا بلکہ رشتوں کے درمیان حائل ہو جائے گا۔

لیکن شاید یہاں میں غلط ہوں۔ رشتوں میں موبائل حائل نہیں ہوا۔ وہاں پہلے ہی خالی جگہیں موجود تھیں۔ اس نے بس وہ خالی جگہیں پر کی ہیں۔ جیسے میرے راحیل اور امی ابو کے درمیان بن گئیں تھیں۔ گھر کا خرچہ بڑھ گیا تھا اور بجائے اس کے کہ وہ ہمیں بتاتے کہ وہ پریشان ہیں ان لوگوں نے خود کو ہم سے دور کر لیا۔ اسی لیے تو میں اتنی گھٹن کا شکار رہنے لگی تھی۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ بار بار اوپر شگفتہ پھپھو کے پورشن میں چلی جایا کروں۔

جس کی امی اجازت نہیں دیتی تھیں۔ غلطی شاید امی ابو کی بھی نہیں تھی۔ وہ لوگ کوئی ماہر نفسیات یا ماہر عمرانیات نہیں تھے نا انہیں اولاد کی تربیت کا کوئی کورس کروایا گیا تھا ابو مشکل سے بی اے تک پڑھے ہوئے تھے ان کی تمام زندگی کا محور ان کا گھر اور آفس رہا اور امی کی تو شادی ہی ایف اے کے پہلے سال میں ہو گئی تھی۔ اب سوچتی ہوں کہ اتنی کم عمر لڑکی سے غلطیوں سے مبرا تربیت کی امید لگانا ہی کتنا ظلم تھا۔ میں جب آٹھویں میں تھی اس وقت مجھے لگتا تھا کہ امی شاید بہت بوڑھی ہیں وہ امی جو ہیں لیکن اب اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس وقت بہ مشکل پینتیس سال کی ہوں گی اور ہائی بلڈ پریشر کی مریضہ بھی بن چکی تھیں۔

اور امی ہی کیا شگفتہ پھپھو کا بھی یہی حال تھا بلکہ کچھ برا ہی تھا۔ ہمارے گھر کے حالات دیکھ کر انہوں نے اپنے خرچے بھی محدود کرلیے تھے۔ دونوں چھوٹے چھوٹے خاندان ایک چھت کے نیچے اپنے اپنے طریقوں سے اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے۔ ناں امی ابو ہم سے کچھ کہتے تھے ناں شگفتہ پھپھو اور شکیل پھپھا شازیہ نازیہ سے کچھ کہتے تھے۔ ہم چاروں کزنز فارغ وقت میں ایک دوسرے سے یہی شکایت کرتے تھے کہ شاید ہماری والدین کو ہم سے محبت نہیں جو بات کرو ڈانٹتے رہتے ہیں۔

غیر ضروری فرمائش تو دور کی بات ضروری چیز کا بھی بتاؤ تو ہزار دوسرے خرچے گنوانے لگتے ہیں۔ ان دنوں مجھے لگتا تھا کہ وہ لوگ والدین ہونے کا احسان جتاتے ہیں۔ مگر اب احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنا شدید احساس بے بسی ہوتا ہوگا جب آپ کو پتا ہے کہ بچوں کے کپڑے آنے ہیں فیس جانی ہے بچے دوسرے بچوں کو دیکھ کر نئی نئی فرمائشیں کرتے ہیں مگر آپ ان کو پورا نہیں کر سکتے نہ انہیں بتا سکتے ہیں کہ آپ کی سکت نہیں۔ اور یہ آخری نکتہ ہی سب سے پیچیدہ مگر سب سے آسان بھی ہے۔

ہمارے اکثر مسائل یہیں سے شروع ہوتے ہیں کہ ہمیں جو جھیلنا ہے وہ بتانا نہیں ہے۔ اور مجھے اندازہ ہوا کہ یہ وہ غیر حقیقی قربانی ہے جس کی وجہ سے والدین کا کام مزید مشکل ہوجاتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم بچوں کو گھر کے حالات میں ساتھ لے کر چلیں انہیں جذباتی طور پہ اپنے قریب رکھیں ہم سب اچھا کا سائن بورڈ لگا کے گھومتے ہیں اور بچوں کو خود سے دور کرلیتے ہیں۔ میں نے جب اپنے بچوں سے اس حوالے سے بات چیت شروع کی تو احساس ہوا کہ جب بچوں کو پتا ہوتا ہے کہ والدین بھی مختلف جذبات سے گزرتے ہیں تو وہ ہمارے سپورٹ سسٹم کا بنیادی ستون بن جاتے ہیں۔

ان دونوں کو بچپن سے چھوٹا کا گلک دلوایا تھا تاکہ انہیں جب اپنی پسند کی کوئی چیز خریدنی ہو وہ اس میں پیسے جمع کریں ان کی بنیادی ضروریات ہمیشہ ہم ہی پوری کرتے ہیں مگر انہیں اب یہ احساس ہے کہ جیس ہمیشہ ہمارا گلک بھرا ہوا نہیں ہوتا اسی طرح امی ابو کا ”گلک“ بھی خالی ہوجاتا ہے کیوں کہ اس میں سے پیسے نکالنے کے لیے ڈالنے بھی ضروری ہوتے ہیں۔ اور وہ پورے مہینے مما بابا جاب کرتے ہیں اس سے بھرتا ہے۔ جادو کا گلک صرف کہانیوں میں ہوتا ہے۔

جب میں خود ماں بنی تو احساس ہوا کہ امی یا ابو جو ہمارے طعنے پہ شدید ناراض ہوتے تھے کہ آپ نے کیا کیا سب والدین کرتے ہیں اس کی وجہ اصل میں ہماری بدتمیزی یا نافرمانی کا احساس نہیں تھا بلکہ اس حقیقت کی شرمندگی تھی کہ ہم بطور والدین اپنی ذمہ داری نہیں نبھا سکے۔ ماں بننے کے شروع کے چند سال میں شدید ذہنی اذیت میں مبتلا رہی کہ میرا بیٹا اور جب بیٹی بھی آ گئی تو یہ لوگ کہیں کسی چیز کے لیے ترستے نہ رہ جائیں۔

ان کا بچپن میری طرح نہ گزرے۔ جب ریاض سے بات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ وہ بھی ملتے جلتے خوف کا شکار رہتے ہیں اور ان پہ یہ ذمہ داری بھی زیادہ ہے کہ میری تنخواہ ہونے کے باوجود طعنہ انہی کو ملتا ہے اور ملے گا کہ گھر کا خرچ نہیں چلا سکتا۔ وہ گھر کے مرد جو ہیں۔ کئی سال اس اذیت سے گزرنے کے بعد میں نے سیکھا کہ جب تک ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرلیتے کہ کچھ چیزوں تک ہماری رسائی نہیں ہے۔ اور یہ نہیں دیکھ لیتے کہ ہم کس طرح بہترین طریقے سے مناسب اور معیاری چیزوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ہم اس ذہنی اذیت میں مبتلا رہیں گے ایک ایسی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے دوڑتے رہیں گے جس میں جیتنا تو دور کی بات ہے اس میں شمولیت کی بھی ہماری حیثیت نہیں۔

ہمارے لیے یہ ماننا بہت ضروری ہے کہ ہم دنیا کے سب سے بڑے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ طبقہ ہے غریب طبقہ۔ یہ ماننا کہ ہمارا تعلق غریب طبقے سے ہے اور یہ احساس کمتری رکھنا کہ ہم غریب ہیں دو بہت مختلف باتیں ہیں۔ جب میں نے اپنی معاشی حیثیت کا ادراک کر لیا تو میرے لیے بچوں کو سمجھانا آسان ہو گیا۔ کیوں کہ اب مجھے پتا ہے کہ کچھ چیزوں تک اگر میری یا بطور والدین ہم دونوں میاں بیوی کی رسائی نہیں تو یہ ہماری غلطی نہیں۔

ہاں ہم اپنی کوششیں بڑھا سکتے ہیں لیکن ان کی بھی ایک حد ہے۔ بچوں کو یہ بات وقتاً فوقتاً سیکھانا ہمارے لیے مددگار ہوتا ہے کہ ہر چیز فوراً حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ہم بھی محنت کر رہے ہیں وہ بھی اپنی عمر اور تجربے کی بنیاد پہ تھوڑی تھوڑی محنت کریں تاکہ ہم سب ایک دوسرے کے لیے پیار بھرا گھر بناسکیں جس میں سب آسائشیں بھلے نہ ہوں مگر ایک دوسرے کا جذباتی سہارا ضرور ہو۔ میرے بچے جب میری پریشانی میں میرا سہارا بنتے ہیں تو مجھے نئے سرے سے اس پریشانی سے لڑنے کی ہمت مل جاتی ہے۔ آج شاید میں بہت ہی جذباتی ہو گئی اتنی لمبی باتیں کر ڈالیں تم سے۔ چلو دیکھتے ہیں اب دوبارہ کب تفصیل سے کچھ لکھنے کا موقع ملے۔

شب بخیر ڈائری

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima