سوشل میڈیا اور ہمارے اخلاقیات


ایک وقت تھا جب انسان کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا اور انسان اس وقت بھی زندگی گزار رہا تھا اور ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہوتا تھا۔ اس وقت مختلف طریقے ہوتے تھے جس سے انسان ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہوتے کبھی آگ لگا کر تو کبھی ڈھول بجا کر اشارہ دیتے تھے کے فلاں کام ہو رہا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ انسان نے ترقی کی اور لکھنا پڑھنا سیکھ لیا پھر جب ایک انسان دنیا کے ایک کونے میں اور دوسرا دوسرے کونے میں ہوتا تھا تو حال احوال بہ ذریعہ خط کرتے تھے اور حالات سے با خبر رہنے کے لیے بھی لکھنے کا طریقہ اختیار کرتے تھے پھر انسان نے اور ترقی کی اور پھر ایسے آلات ایجاد ہوئے جس سے انسان دنیا کے ایک کونے میں ہو کر دوسرے کونے میں اپنی آواز پہنچاتا تھا۔

پھر جب اور ترقی انسان نے حاصل کی تو انٹرنیٹ ایجاد کیا اور اب انسان دنیا میں کئی پر بھی ہو تو پوری دنیا کے حالات سے باخبر رہتا ہے اور ہر سیکنڈ کے حساب سے پتہ چلتا ہے کہ کیا چل رہا ہے۔ اگر ایک ملک کے کسی حصے میں خدانخواستہ کوئی آفت آئے یا کچھ بھی ہو جائے تو پورے ملک میں چند منٹوں میں پتہ لگ جاتا ہے۔ حالیہ وقتوں میں دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے انسان دنیا میں جہاں کہیں بھی ہو اگر کوئی اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے۔

اس انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا کے کہیں زیادہ فوائد ہیں جب سے یہ انسانوں کی زندگی میں آیا ہے کہیں زیادہ آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ جبکہ لوگ آج کل کاروبار، نوکریاں بھی اس پہ کر رہے ہوتے ہیں اور انٹرٹینمنٹ کا بھی ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں 3.6 بلین لوگ سوشل میڈیا کے صارفین ہیں۔ اس کے بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی ہیں۔ جہاں پر لوگ اس سے فائدہ حاصل کر رہے ہیں تو اس کی وجہ سے دوریاں بھی پیدا ہو چکی ہیں ایک ہی گھر میں لوگ ایک دوسرے کا حال تک نہیں پوچھتے ہیں، لوگ تنہائی کا شکار ہیں، زیادہ تر لوگ ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔

ہراسمنٹ کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں، غلط خبروں کا جو ایک رواج بنا ہیں وہ کبھی کبھار بہت ہی زیادہ نقصان کا سبب بنتی ہیں اور بعض اوقات جان جانے کا بھی سبب بن جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا کا سیاست میں بھی ایک اہم کردار ہیں اور اکثر الیکشن کمپین میں استعمال ہوتا ہے اور کامیابی کا سبب بھی بنتی ہے۔ اگر ہم بات کریں وطن عزیز کی تو پاکستان میں اندازے کے مطابق 37 ملین لوگ سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں۔ ان میں تعلیم یافتہ اور ناخواندہ لوگ دونوں شامل ہیں۔

جس طرح پوری دنیا کے لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں اس طرح پاکستانی بھی فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ لیکن جس وقت ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں اسی وقت ہم بڑھ کر نقصانات بھی بھگت رہے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل تباہی کی طرف گامزن ہے لوگ ایک دوسرے کو سوشل میڈیا پر وہ گالیاں دے رہے ہوتے ہیں جو کبھی ایک زمانے میں دشمنی کا سبب ہوا کرتی تھی۔ ٹویٹر پر جو ٹاپ ٹرینڈ چل رہے ہوتے ہیں اس سے نہیں لگتا کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لوگ ہیں اور نہ مسلمان ہیں کیونکہ مسلمان کی شان یہ نہیں کے وہ کسی کی ماں بہن کو گالی دے چاہے وہ جس طرح بھی ہوں۔

سیاسی لیڈروں کے خلاف ایسی گندی زبان استعمال ہوتی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ اور یہ کوئی غیر ارادی طور پر نہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک منصوبے کے تحت ان لوگوں کو تیار کیا جاتا ہے ان کو فنڈنگ ہوتی ہیں جس سے دوسرے سیاسی حریف کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کام میں کوئی ایک پارٹی نہیں بلکہ ہر سیاسی لیڈر برابر کا ذمہ دار ہیں۔ ان سارے کاموں میں جہاں ہم خود ملوث ہیں وہاں پاکستان کا امیج تو تباہ ہی ہو جاتا ہیں لیکن ساتھ ساتھ ہماری نئی نسل کا بھی بیڑا غرق ہوتا جا رہا ہے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کے اس کی روک تھام کیسے کی جائے۔ ایک تو سیمینارز کے ذریعے اور دوسرے مختلف پروگراموں کے ذریعے سے لوگوں میں شعور لایا جائے جس سے وہ خود اس کام سے گریز کرے۔ حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے قوانین نافذ کرے کہ جو بھی ملوث ہوگا اس کو سزا دی جائے اور سخت جرمانے عائد کیے جائے۔ ساتھ ہی ہر شہری خود بھی ذمہ داری کا عملی ثبوت دے کر اس کو روک نے کی کوشش کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).