محمود خان اچکزئی کی تقریر: کیا لاہور نے 'پشتون وطن' پر قبضے میں انگریز کا ساتھ دیا تھا؟


لاہور
'میں کسی کو کچھ کہنے نہیں آیا۔۔۔ ہم نے اپنی بساط کے مطابق سامراج کا مقابلہ کیا۔۔۔لیکن ہمیں گلہ ہے۔ ہندو، سکھ اور دوسرے رہنے والوں کے ساتھ لاہوریوں نے بھی ساتھ دیا انگریزوں کا۔ آپ سب نے مل کر افغان وطن پر قبضہ کرنے کے لیے انگریزوں کا ساتھ دیا، بس اتنا کافی ہے۔۔۔'

پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے یہ الفاظ اتوار کے روز لاہور میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے سے اپنی تقریر کے دوران کہے۔

اسی طرح کی مثالوں سے وہ تقریر میں آگے چل کر ‘ووٹ کو عزت دو’ کے تصور کی وضاحت کر رہے تھے۔

اپنی بات کا منظر پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘جہاں جہاں کلمہ حق کہا جاتا تھا وہ سارے علاقے یا اٹلی یا انگریز یا فرانسیسیوں کے قبضے میں چلے گئے۔۔۔ واحد وطن جس نے ان سمراجیوں کے خلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا وہ دریائے آمو سے لے کر اباسین تک افغان پشتون وطن تھا۔’

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

کیا اپوزیشن جماعتیں لانگ مارچ کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر پائیں گی؟

استعفوں کی سیاست کس کے لیے فائدہ مند اور کسے نقصان پہنچائے گی؟

لاہور جلسہ کامیاب یا ناکام: ’انحصار اس پر ہے کہ آپ نے کوریج کہاں دیکھی‘

31 دسمبر تک تمام پارٹیوں کے اراکین اپنے استعفے قیادت کو جمع کروا دیں گے: اپوزیشن کا فیصلہ

پی ڈی ایم کے جلسے کے بعد جہاں پاکستان میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر دیگر پہلوؤں پر بحث ہوتی رہی وہیں محمود خان اچکزئی کی یہ بات بھی کہیں تنقید کا نشانہ بنی تو کچھ لوگ ان کا دفاع کرتے ہوئے دکھائی دیے۔

تاہم محمود اچکزئی کی اس بات کی تاریخی حقیقت کیا ہے؟ کیا برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ایسا کوئی واقعی حوالہ ملتا ہے جو ان کی بات کی تصدیق یا نفی کرے؟

بی بی سی نے اس حوالے سے تاریخ دانوں سے جاننے کی کوشش کی۔

لاہور کی جامعہ پنجاب کے شعبہ تاریخ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا کوئی مخصوص واقع تاریخ میں موجود نہیں جس کی بنا پر یہ کہا جائے کہ پنجاب یا لاہور نے افغان وطن پر قبضے کے لیے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔

جامعہ گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ تاریخ کے سابق سربراہ اور تاریخ دان ڈاکٹر طاہر کامران نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘تاریخ میں ایسی کسی بات کی قطعی تصدیق نہیں ہوتی۔ اس قسم کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔’

لاہور

'حملہ آوروں کے خلاف زیادہ مزاحمت پنجاب نے کی'

ڈاکٹر محبوب کا کہنا تھا کہ عمومی تاثر کے برعکس تاریخ بتاتی ہے کہ ‘برصغیر پر باہر سے حملہ آور ہونے والوں کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت پنجاب نے کی۔’

ان کا کہنا تھا کہ مزاحمت کے حوالے سے پنجاب کے بارے میں ایک غلط تاثر قائم کر دیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں اگر دیکھا جائے تو پنجاب کی مزاحمت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

‘سکندرِ اعظم پوری دنیا فتح کرتا ہوا آیا مگر جب وہ پنجاب کی سرزمین پر پہنچا تو اسے اتنی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔’

ڈاکٹر محبوب حسین نے تاریخ سے مزید حوالے دیتے ہوئے بتایا کہ ‘شہاب الدین غوری افغانستان کے علاقے سے حملہ آور ہوا تھا، اس کو کس نے مارا۔ اس کو پنجاب میں راجپوتوں نے مارا تھا۔’

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کے لوگوں نے ہمیشہ باہر سے آنے والوں کے خلاف مزاحمت کی مگر تاریخ کی اس حقیقت کو پنجاب کے لوگ اپناتے نہیں ہیں۔

‘ہم نے غوری کے نام پر تو میزائل کا نام رکھ دیا مگر اس کو جس نے مارا اس کو کوئی نہیں جانتا۔’

‘پہلی افغان جنگ میں پنجاب انگریز کو راستہ نہیں دینا چاہتا تھا’

تاریخ دان ڈاکٹر طاہر کامران پنجاب کی تاریخ پر نہ صرف مقالے اور کتابیں لکھ چکے ہیں بلکہ وہ باقاعدگی سے اس موضوع پر اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی زمانے میں پنجاب پر تنقید کا ایک بیانیہ موجود تھا۔

‘ابتدا میں میں بھی پنجاب کے حوالے سے سخت تنقیدی نظریات رکھتا تھا لیکن جب میں نے غیر جانبداری کے نظریے سے اس کا مطالعہ کیا تو مجھے اپنا نظریہ بدلنا پڑا۔’

ان کا کہنا تھا کہ عمومی تاثر کے برعکس برصغیر پر بیرونی حملوں کی پہلی لہر کا سامنا کیا ہی پنجاب نے تھا جبکہ حملہ آور اس خطے سے آئے تھے جو اب افغانستان ہے۔

ڈاکٹر طاہر کامران کا مزید کہنا تھا کہ ‘جو پہلی افغان جنگ تھی اس میں پنجاب انگریز کو راستہ فراہم نہیں کر رہا تھا یا کرنا چاہتا تھا۔’

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے راج موہن گاندھی کی ایک کتاب ‘اورنگزیب سے ماؤنٹبیٹن تک’ میں تفصیلی حوالے مل جاتے ہیں۔

بھگت سنگھ کون تھا۔۔۔ادھم سنگھ بھی پنجابی تھا

سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر دیگر صارفین کے علاوہ پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی اس حوالے سے ٹویٹ کی اور لکھا کہ ‘تو آج اچکزئی نے یہ واضح کر دیا کہ وہ افغانوں کے لیے بولتے ہیں، جب پنجاب کے دارالحکومت میں کھڑے ہو کر انہوں نے پنجابیوں کو بے عزت کرنے اور ان پر الزام لگانے کا انتخاب کیا۔۔۔’

دوسری جانب وینگس نامی ایک صارف نے لکھا کہ ‘امید ہے کہ لاہوری (پنجابی) حکمراں جماعت کے نمائندوں کی ان باتوں پر دھیان نہیں دیں گے جو اچکزئی کے تاریخی حقائق کے بارے غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔ اس کے بجائے ان کو تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ اس وقت کے پنجاب نے راجِ برطانیہ میں کیا کیا۔’

اس حوالے سے ڈاکٹر محبوب حسین کا کہنا تھا کہ انگریز کے دور میں بھی مزاحمت کی علامت جتنی بڑی شخصیات تاریخ میں ملتی ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب سے تھا۔ ‘بھگت سنگھ کون تھا، پنجابی تھا۔ ادھم سنگھ بھی پنجابی تھا۔’

ادھم سنگھ کون تھا؟

ادھم سنگھ کو ہندوستان کی تحریکِ آزادی کی ایک نمایاں شخصیت تصور کیا جاتا ہے۔ ادھم سنگھ نے سنہ 1940 میں اُس وقت کے پنجاب کے سابق انگریز لیفٹینینٹ گورنر مائیکل ڈائیر کو لندن میں گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔

یہ وہی جنرل ڈائیر تھے جنہیں سنہ 1919 میں جلیانوالہ باغ میں مقامی افراد کے قتلِ عام کا حکم دینے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔

بعد ازاں حراست کے دوراں ادھم سنگھ نے اپنا نام رام محمد سنگھ آزاد رکھ لیا تھا جس کا مقصد پنجاب اور ہندوستان کے تمام مذہبی طبقوں کی نمائندگی کرنا بتایا جاتا ہے.

لاہور

انڈیا میں ادھم سنگھ کا مجسمہ

‘ پچاس کی دہائی میں پنجاب مخالف تاثر پیدا ہوا’

ڈاکٹر طاہر کامران کے مطابق سنہ 1954 میں جب ون یونٹ بنا تو اس وقت کے حالات کے تناظر میں اُس وقت کے چھوٹے صوبوں میں ایک پنجاب مخالف تاثر بنا۔

‘اس دہائی میں جو پنجاب مخالف تاثر بنا وہ ایک خاص تناظر میں تھا لیکن پھر اسی کا تسلسل رہا اور وہ بعد میں ہمیں نظر آتا رہا ہے۔’

تاہم ان کا کہنا تھا کہ تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو حقیقت اس عمومی تاثر کے برعکس ہے کہ پنجاب نے انگریز کا ساتھ دیا۔

‘پہلی مرتبہ انگریز نے پنجابیوں کو اس وقت مارشل ریس تصور کرنا شروع کیا جب 1857 کی جنگ میں بنگالی فوجی دستوں نے اس کے خلاف تحریک کی قیادت کی۔’

ڈاکٹر محبوب حسین اور ڈاکٹر طاہر کامران دونوں اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی اور تقاریر کا حصہ بننے والی زیادہ تر ایسی باتیں عمومی نوعیت کی ہوتی ہیں جن کا تاریخ میں حوالہ نہیں ملتا۔

ڈاکٹر محبوب حسین کے مطابق ‘اگر کوئی حوالہ موجود بھی ہو تو زیادہ تر اس کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے ان کی تشریح کر لی جاتی ہے۔ یہاں بھی اگر دیکھا جائے تو برصغیر پر زیادہ تر افغانستان سے آنے والوں نے حملے کیے اور ان کے خلاف مزاحمت زیادہ تر پنجاب ہی نے کی۔’

‘افغانستان ہمیشہ بفر زون رہا’

ڈاکٹر محبوب حسین کا کہنا تھا کہ تاریخ میں بار بار پانی پت کے میدان کا ذکر ملتا ہے جہاں باہر سے حملہ آور ہونے والوں کے ساتھ بے شمار جنگیں لڑی گئیں۔

‘پانی پت بھی تو پنجاب ہی میں تھا جو یہ واضح کرتا ہے کہ پنجاب کے لوگوں نے ہمیشہ مزاحمت کی۔’

ان کا کہنا تھا کہ انگریز نے لاہور پر سنہ 1849 میں قبضہ کیا۔ اس سے قبل وہ بنگال اور اس کے آگے کے کئی علاقوں پر قبضہ کرتے ہوئے آ رہے تھے۔

‘اگر دیکھا جائے تو افغانستان ابتدا ہی سے پہاڑوں اور سخت قطعہ ہونے کے وجہ سے انگریز کے ایجنڈے پر نہیں تھا۔ اس وقت کی دو سلطنتوں یعنی راج برطانیہ اور سلطنتِ روس کے درمیان افغانستان ہمشہ ایک بفر زون کی حیثیت اختیار کیے رہا، اس لیے اس کی طرف سے مزاحمت کا سوال ہی نہیں ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp