صدیق سالک کی کتاب “ہمہ یاراں دوزخ”: جنگی قیدی کا روزنامچہ


دسمبر جاڑے کا شباب ہے۔ دنیا کے بیشتر حصوں میں اس ماہ کا بڑی بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے۔ مغرب کا سب سے بڑا تہوار اس انتظار کی ایک وجہ ہے جہاں سفید روئی کے گرتے گالوں کے درمیان زندگی ہنستی، کھیلتی یہ مہینہ بتاتی ہے۔ وطن عزیز کے درو دیوار میں بھی ایک چاشنی سی اتر آتی ہے۔ درخت اپنے زرد پتوں کو زمین کا ایندھن بنا ہی رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے پربت اور کہسار سفید اوڑھنیاں لینا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن اس دل کے موسم کا کیا کیجئیے، جو دسمبر آتے ہی اپنے دامن کے چھیدوں کو چھپانے کی ناکام سعی میں لگ جاتا ہے۔

کیسے کیسے گھاؤ ہیں جو اس بے مہرباں دسمبر کی عنایت ہیں۔ اگرچہ سانحات درجہ بندیوں سے ماورا ہوتے ہیں لیکن ایک ایسا سانحہ جو آپ کے جسم کا ایک حصہ ہی کاٹ کر الگ کر دے اور اس کے چھوڑے زخم کبھی مندمل نہ ہو سکیں تو وہ سانحات کی فہرست میں ہمیشہ اول ہی آتا ہے۔

بریگیڈئیر صدیق سالک مرحوم ایک ادبی ذوق رکھنے والی شخصیت تھی۔ ادب نہ صرف انسان کو ایک حساس دل عطا کرتا ہے بلکہ اپنی بات کی تبلیغ کے لیے ایک سلیقہ بھی مہیا کرتا ہے۔ سالک صاحب پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ میں تھے جب آپ کو جنوری 1970 میں سابقہ مشرقی پاکستان جانے کا ٹاسک سونپا گیا۔ سالک صاحب ہماری اس تاریخ کے ایک چشم دید گواہ ہیں۔ آپ جہاں دشمن کی مکاریوں اور چالبازیوں کا ذکر کرتے ہیں وہی ہمارے اپنوں کے ہاتھوں ڈھائے جانے والے مظالم پر بھی آپ کے قلم کی روانی متاثر نہیں ہوتی۔ اگر چہ کمپنی بہادر نے یقیناً آپ کے قلم کو ایک حد سے آگے نہیں جانے دیا ہو گا لیکن اس کے باوجود بھی جو آپ نے لکھا وہ قابل تعریف ہے اور ہمیں متحدہ پاکستان کے ان آخری پرآشوب شب وروز کے بارے میں قابل ذکر آگاہی فراہم کرتا ہے۔

سالک صاحب جنرل ہیڈکوارٹر ڈھاکہ میں پی آر او کے طور پر تعینات کیے گئے تھے۔ آپ کا کام، مشرقی کمانڈ کی زیر نگرانی، وہاں کے حالات و واقعات سے باقی دنیا کو آگاہ کرنا تھا۔ مشرقی کمانڈ اس وقت لیفٹننٹ جنرل ٹکا خان کے پاس تھی جو بعد میں امیر عبدل خان نیازی کو سونپ دی گئی۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد صدیق سالک بھی جنگی قیدی بن کر دو سال کلکتہ میں پس زنداں رہے۔ ان دو سالوں کی روداد کو آپ نے ”ہمہ یاراں دوزخ“ کے نام سے قلمبند کیا۔ پھر اس کے بعد آپ نے ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ میں متحدہ پاکستان کے آخری دو سالوں کے حالات و واقعات کو ایک عام قاری تک پہنچایا۔

”ہمہ یاراں دوزخ“ میں سالک صاحب بہت صاف الفاظ میں یہ بات واضح کرتے ہیں کہ چونکہ جنگ کے دوران ان کا براہ راست جنگی کارروائیوں سے تعلق نہیں تھا اس لیے انھیں فوج، خبروں کا وہی راشن فراہم کرتی تھی جو عام جنتا ہضم کر سکے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ مغربی پاکستان کے باسیوں کو صورتحال کی سنگینی کا کبھی صیح ادراک ہی نہ ہو سکا۔ ڈھاکہ میں جنرل نیازی چھاتی ٹھونک کر کہ رہے تھے کہ سقوط ڈھاکہ سے پہلے بھارتی ٹینکوں کو اس سینے پر سے گزرنا ہو گا اور ادھر اسلام آباد یہ دعوٰی کر رہا تھا کہ شمال کی جانب سے ہمارے زرد دوست اور جنوب کی سمت سے سفید دوست ہمارے لیے بڑے پیمانے پر مداخلت کرنے والے ہیں۔ فوجی جنتا کے ان نام نہاد دعووں کے بیچ ہی کہیں عوام نے سقوط ڈھاکہ کی قیامت خیز خبر سنی۔ آئیے اس ستم ڈھانے والے دن کی کچھ روداد صاحب کتاب کی زبانی سنتے ہیں۔

سولہ دسمبر کی صبح پاک فوج کے ایک کرنل، کچھ سینئر افسران کے ہمراہ ڈھاکہ ائرپورٹ پر بھارتی ایسٹرن کمانڈ کے چیف آف سٹاف کو لینے گئے۔ واپس آ کر انہوں نے سالک صاحب کو بتایا کہ ائر پورٹ پر بنگالیوں نے کیسے بھارتی افسران کو گلے سے لگایا، ہار پہنائے اور تشکر بھرے جملے کہے جن میں سے ایک تھا ”ان درندوں سے نجات دلانے کا احسان ہم عمر بھر نہیں بھولیں گے۔“ جنگ بندی کی تفصیلات اور شرائط طے ہونے کے بعد بھارتی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا سولہ دسمبر کی سہ پہر کو کلکتہ سے اگرتلہ کے راستے ڈھاکہ پہنچا۔ جنرل نیازی اسے لینے ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ جنرل نیازی نے آگے بڑھ کر سلیوٹ کیا جس کا جواب خالص فوجی انداز میں دیا گیا۔ ائرپورٹ پر تماشائیوں کا جم غفیر تھا۔ خاص خاص بنگالی عورتوں اور مردوں نے جنرل اروڑا اور اس کی بیوی کو پھولوں اور بوسوں کے ہار پہنائے۔

رمناریس کورس گراؤنڈ میں بھی لاکھوں لوگ جمع تھے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں 7 مارچ 1971 کو شیخ مجیب الرحمٰن نے سول نافرمانی کی مہم کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت عام تاثر یہ تھا کہ مجیب الرحمان آزادی کا اعلان کریں گے، لیکن وہ نہ کر سکے، کیونکہ پاکستانی فوج حائل تھی۔ آج مجیب الرحمان کی راہ سے یہ آخری روڑہ ہٹانے کے لیے اروڑہ آیا تھا اور اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کیے جنرل نیازی موجود تھا۔

رمنا ریس کورس میں اتنا بڑا انسانی سمندر شاید خود کبھی ”بنگا بندھو“ (مجیب الرحمان کا مقبول عام نام) کی تقریر سننے کے لیے بھی جمع نہ ہوا تھا۔ یہ سمندر جذباتی ہیجان سے ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ دوردور تک انسانی سر ہی سر نظر آتے تھے۔ وہ نعرے لگا رہے تھے، چیخ رہے تھے، چلا رہے تھے۔ آخر اس ذلت آمیز تقریب کا نقطۂ عروج آ پہنچا۔ پاکستان اور بھارت کے مختصر دستوں نے الگ الگ گارڈ آف دی آنر پیش کیا جن کا معائنہ جنرل نیازی اور جنرل اروڑہ نے مل کر کیا۔

اس کے بعد دونوں نے ایک مختصر سی میز پر بیٹھ کر ”جنگ بندی“ کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس وقت جنرل نیازی کی چھاتی کراس بیلٹ اور جنگی اعزازات کی علامتی پٹیوں سے سجی ہوئی تھی اور ان کے چہرے پر جذبات قابو پانے کی کوشش کے آثار نمایاں تھے۔ اس کے بعد وہ سپاہیانہ تحمل اور وقار کے ساتھ اٹھے اور اٹھ کر اپنا ریوالور میز کے اس پار جنرل اروڑہ کے حوالے کیا۔ ریوالور حوالے کیا کیا، مشرقی پاکستان حوالے کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).