ناگن، نیولہ اور قلم کا سانپ



سانپ کے پھن اور قلمکار کے قلم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ کچھ سانپ بہت زہریلے ہوتے ہیں جیسے کوبرا۔ اگر لڑ جائے تو زندگی بچانی مشکل ہو جاتی ہے۔ کچھ قلمکار بھی اتنے زہریلے ہوتے ہیں کہ ان کے قلم سے نکلا زہر بہت سوں کو گھائل کر جاتا ہے جیسے لاہور کے ایک صحافی۔ سانپ تو اسی کو کاٹتا ہے جو اس کے راستے میں آ جائے۔ یہ صحافی مگر کاٹنے کے لئے ہر کسی کے راستے میں آتا ہے، ڈر ہے کسی دن اپنے آپ کو ہی نہ کاٹ لے۔

لاہور کا جلسہ زبان خنجر پر ہے۔ یوں تو ہر کوئی اپنی اپنی پٹاریاں کھولے، اپنے اپنے سانپ نکالے، بین بجانے میں لگا ہوا ہے اور اپنا تماشا دکھا رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے، شو فلاپ تھا، کوئی اسے لاہور کا سب سے بڑا شو کہہ رہا ہے۔ اتنی سخت سردی اور ٹھنڈی ہوا میں جب محبوبہ سے ملنے سے زیادہ چولہے کی آگ تاپنے میں زیادہ مزہ آتا ہے، ہزاروں لوگ اور سینکڑوں رہنماؤں کا راوی کنارے احتجاج کرنے اکٹھے ہونا اگر معجزہ نہیں تو اور کیا ہے۔ ایسے میں موٹر سائکل چلاتے ہوئے لکشمی سے مینار پاکستان جانا جوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرتا ہے کوئی مانے یا نہ مانے۔

کوئی نصف صدی قبل یہی ٹھٹھرتے جاڑے کا دسمبر تھا جب سکہ بند اور تصدیق شدہ اکثریت کو طاقت کے زور پر زیر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تب بھی کچھ پہاڑی طوطے اسی طرح کی رٹ لگا رہے تھے۔ ان کی زبانوں اور قلم سے اسی طرح کا زہر اگلا گیا تھا۔ اکثریت کو بوجھ قرار دیتے ہوئے نہ تو ان کی زبان تھکتی تھی نہ ہی قلم۔ پٹ سن کی سونا زمین کو سیلابی آفت قرار دیا جاتا تھا۔ نتیجہ کیا نکلا۔ ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں میانوالی کا شیر جوان پوری قوم کی شرمندگی ماتھے پر سجائے، بے بسی کی تصویر بنا بیٹھا تھا۔ آج وہی بنگلہ دیش زندگی کے ہر میدان میں ہم سے آگے ہے۔ اس کی کرنسی ہم سے مضبوط، اس کی لیبر گلف میں ہم سے زیادہ پسندیدہ، اس کا سکہ بھلے ہمارے لئے ٹکہ ہی سہی لیکن روپے سے زیادہ طاقتور اور عوام ہم سے زیادہ خوشحال۔ سیلاب وہاں اب بھی آتے ہیں مگر وہ سیلابوں اور طوفانوں سے کھیل چکے۔

یہی دسمبر کا جاڑہ سر چڑھ کر بول رہا تھا جب پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم کو راولپنڈی کے اسی باغ میں قتل کر دیا گیا جہاں کئی دہائیاں قبل ملک کے پہلے وزیر اعظم کو قتل کیا گیا تھا۔ تب بھی اکثریتی لیڈر کو سیکیورٹی رسک قرار دے کر جلاوطن رہنے پر مجبور کیا گیا تھا، آج بھی اکثریتی لیڈر جلاوطن رہنے پر مجبور ہے۔ کچھ اور وزرائے اعظم ادھر ہی عدالتوں میں خوار ہوتے پھر رہے ہیں۔ فیصلے ہوتے نہیں، ہوتے ہیں تو بلیک لا ڈکشنری کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ آخر ایسے فیصلے کیوں کئے جاتے ہیں جنہیں بعد میں عدالتی قتل کہا جائے یا فیصلے کرنے والے سزا دینے کے بعد ملزم کے گھر جا کر اپنے غلط فیصلوں پر معافی کے طلبگار ہوں۔

گزشتہ دہائی کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ سیساسی محرکات جو بھی ہوں، دفاعی معاملات جتنے بھی دگرگوں ہوں، پڑوسی ممالک ہماری رگوں میں جتنا بھی زہر گھول رہے ہوں، ہماری خارجہ پالیسی بھلے ہمیں تنہائی میں دھکیل رہی ہو، عوام اپنے جمہوری چناؤ سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ حکومتوں کی قبولیت اور قابلیت ایک طرف، ان کی قانونی اور اخلاقی حیثئیت متنازع ہی رہی ہے۔ گزشتہ دور میں عمران خان عوام کو مشتعل کرتا نظر آتا ہے تو اس دور میں فضل الرحمٰن وہی کام کرتا نظر آتا ہے۔

لاہور کے مال روڈ پر نون لیگ کے خلاف جلسے میں عمران کے ساتھ پیپلزپارٹی اور پرویز الہٰی کے علاوہ طاہر القادری براجمان تھے تو مینار پاکستان پر عمران کے خلاف نون لیگ، پی پی کے علاوہ ٹوٹل گیارہ جماعتیں کھڑی ہیں۔ غلغلہ الیکشن دھاندلی کا ہے۔ پچھلے دور میں بھی یہی نعرہ سر چڑھ کر بول رہا تھا آج بھی اسی نعرے کی دھوم ہے۔ یہی ایک مسئلہ وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔ اس کو مل جل کر حل کیوں نہیں کیا جاتا۔ پارلیمنٹ کیسے قوانین بناتی رہتی ہے۔ اصل مسئلے پر تفصیلی بحث کیوں نہیں کرتی۔ کرپشن اگر خرابی کی جڑ ہے تو کرپشن ختم کرنے کے لئے غیر متنازع قوانین اور آزاد عدلیہ کی طرف ہم کیوں آگے نہیں بڑھ سکتے۔

سیاستدان اگر کرپٹ ہیں تو یہ صحافی بھی قوم کی خدمت نہیں کر رہے۔ یہ بھی پیسے کی دوڑ میں کسی نہ کسی سیاستدان کی جھولی میں بیٹھے انہی کی زبان بول رہے ہیں بلکہ ان کی زبان کو مزید زہر آلود کر کے ہمیں بیچ رہے ہیں۔ یہ ان کے مفادات کو اپنے زر کی خاطر آگے بڑھاتے ہیں۔ موٹر سائیکلوں پر پھرنے والوں کے اپنے طیارے ہیں۔ عام کالونیوں سے نکل کر فارم ہاؤس بنائے بیٹھے ہیں۔ ان سے سچ کی رپورٹنگ کرنا اپنا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ ایک مثال ملاحظہ کریں۔

”یہ تو پھر منجھے ہوئے مالدار سیاستدانوں کا شو تھا جس میں کریکٹر ایکٹر، چاکلیٹ ہیرو اور ملکہ جذبات پرفارمنس دے رہے تھے“۔ ان کے مطابق تماشے اور تماش بین کا چولی دامن کا ساتھ ہے ”آگے چل کر فرماتے ہیں۔ دنیا دیکھے گی“ نیولے اور ناگن کی جنگ پھر عروج پر ہو گی ”

وہ نواز شریف کے حامیوں کو گھٹیا آئی کیو والے سمجھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”گھٹیا ترین آئی کیو والوں کو بھی یہ بات سمجھ آنی چاہیے کہ یہ کیسے انقلابی ہیں کہ اپنے بچوں کو مفرور رکھا ہوا اور ہمیں اقتدار کی فرنس میں جھونکنا چاہتے ہیں۔“

لاہور کے جلسے میں تین ہزار لوگ تھے یا پچاس ہزار، اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ کہتے کیا ہیں اور کیا سننا چاہتے ہیں۔ سیاسی کارکن یا ووٹر کو گھٹیا آئی کیو کہہ کر توہین کرنا کون سی خدمت ہے۔ آپ اپنی روزی روٹی بلکہ پجیرو، طیارے اور فارم ہاؤس بچانے کے لیے زہر گھولتے ہیں تو آپ کو کیا نام دیا جائے۔ جلسے کے سامعین کے بارے اگر سچی خبر لینی ہے تو گوگل کے اعداد و شمار نکلوا لیں پتہ چل جائے گا دنیا میں کتنے لوگ رضائیاں اوڑھے فیس بک اور سوشل میڈیا پر مفرور اور لٹیرے نواز شریف کی تقریر سن رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).