بزرگ لاچار نہیں، یاد داشت کمزور ہے


عید، بقرعید کو اینکر حضرات ایسے اداروں کا رخ کرتے ہیں جہاں بزرگ رہتے ہیں۔ گو کہ وہ بزرگ ضعیف، بیمار، معذور اور لاچار نہیں ہوتے، بولے تو ہٹے کٹے۔ مصلحتاً منہ سے بھی کچھ نہیں بولتے، لیکن اینکر اپنے تبلیغی بیان میں ان کی جوان اولاد کو برا بھلا کہتا ہے کہ خود اللے تللے کر رہے ہیں اور انہیں لا وارث چھوڑ گئے۔

بیٹے بہو پوتے پوتیوں کی زندگی میں مداخلت اور ان کی سکھی زندگی کو عذاب کرنے والے ہم نے کئی بزرگ دیکھے لیکن اولاد انہیں برداشت کرتی ہے۔ جانے ایسی کون سے مجبوری ہوتی ہے یا یہ بزرگ اخلاق اور مزاج کی کون سی منازل طے کرتے ہیں، یا خود ان کے کرم ان کے سامنے آئے ہوتے ہیں کہ یہ اولڈ ہاؤس میں رہتے ہیں۔ ویسے اولڈ ہاؤس میں رہنا کچھ ایسا برا بھی نہیں۔ وہاں بزرگوں کی عمر اور مزاج کے لوگ ہوتے ہیں، بیماری میں دیکھ بھال بھی ہو جاتی ہے۔

آپ اپنی تعریف میں صفحے بھریے، لیکن بھئی ہم تو بڑی خراب اولاد تھے۔ جو چاہا کیا۔ والدین سے مشورہ ضرور مانگا۔ دل کو نہ لگا تو خود فیصلہ کیا۔ زبان بھی چلائی۔ جب سمجھا کہ کسی مرحلے پر وہ ہماری بات نہیں سمجھ رہے تو سب بہن بھائیوں کو اپنے ساتھ ملا کر بغاوت بھی کی۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جب کبھی امی ابا کی بات مانی ہمیشہ نقصان اٹھایا۔ جب اپنی مرضی کی اور نقصان اٹھایا تو دس لاجک پیش کیں۔ آج ہمارے بچے سیم ٹو سیم یہی کر رہے ہیں۔ اگر کبھی وہ ہمارے مشورے پر عمل کر لیں تو بے چارے ضرور کسی مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ اب تو ہم نے مشورہ دینا ہی چھوڑ دیا ہے۔ بہتر ہے کہ خود چوٹ کھائیں اور خود کو خود ہی سہلائیں۔

ہمارے بچوں کا اپنی زندگی اور اپنے کل کو بہتر کرنے کا پورا حق ہے۔ اگر ہماری ذات ان کی زندگی میں مشکلات پیدا کر رہی ہے، اور ہم دخل در معقولات کی عادت سے مجبور ہیں، اگر ہم ان کی لائف اسٹائل کو فضول خرچی سمجھتے ہیں تو یہ ہمارا مسئلہ ہے ان کا نہیں۔ کسی دور میں بھی ترقی کرنا آسان نہیں۔ وہ تھوڑی سی فرصت میں اپنی بیوی یا منگیتر کو ہی وقت دیں گے، وہ آپ کی مس بیل دیکھ کر بھی آپ کو فون نہیں کریں گے۔ ان کے پاس بہت حال آپ کے لیے وقت نہیں، وہ جانتے ہیں کہ در گزر کرنے کے علاوہ آپ کے پاس کوئی دوسرا را ستہ نہیں۔ ہماری جوانی نوجوانی میں خو کا جواب دینے میں ہمیں موت آتی تھی۔ ملنے پر کیسے آرام سے کہہ دیا کرتے ”بالکل بھی فرصت نہیں ملی“ تفریحات اور شاپنگ کے لیے ہمارے پاس بڑا وقت تھا۔

بچوں کی کمائی پر نظر مت رکھیں، وہ جتنا بھی کمائیں خود سمجھیں گے کہ اسے کیسے خرچ کرنا ہے۔ ہمیں ان کی کمائی اور ان کے اخراجات اور خانگی زندگی کو جج نہیں کرنا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ پاؤں اور دماغ چلتا رہے تو خود کو ریٹائر کر کے بچوں یا بہو کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑنا ہے۔ اپنے وقت ہم بھی اک زنجیر سے اک پھول تک دوڑتے تھے۔ ہمارا وقت گزر گیا۔ ہمیں زمانے سے شکایت کرنے کے بجائے زمانے کو بتانا چاہیے کہ ہمارے بچے کیسے قابل فخر ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments