بنگلہ دیش کا قیام: جب جنگ میں مداخلت کے لیے انڈیا بہتر وقت کے انتظار میں تھا


ভারতীয় সৈন্য
16 دسمبر کو انڈین فوج کے ڈھاکہ میں داخل ہونے پر خوشی منائی جا رہی ہے
تین دسمبر 1971 کی شام ہے۔

انڈیا کے اس وقت کے آرمی چیف جنرل سیم مانیکشا کی ٹیلی فون کال انڈین فوج کی مشرقی کمان کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل جیک جیکب کو موصول ہوتی ہے۔

آرمی چیف نے جنرل جیکب کو پیغام دیا کہ پاکستانی طیاروں نے مغربی انڈیا میں واقع فوجی اڈوں پر بمباری کی ہے۔

جنرل جیکب سے کہا گیا کہ وہ اس واقعے کی اطلاع انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی کو دیں۔

وزیر اعظم اندرا گاندھی اس وقت کلکتہ کے دورے پر تھیں اور ’راج بھون‘ میں ٹھہری ہوئی تھیں۔ انڈین فوج کو اس خبر پر بالکل بھی تشویش نہیں ہوئی کہ پاکستان نے انڈیا پر فضائی حملے کیے ہیں درحقیقت وہ اسی نوعیت کی کسی خبر کا بےصبری سے انتظار کر رہی تھی۔

جنرل جیکب نے اپنی کتاب ’سرنڈر ایٹ ڈھاکہ‘ میں لکھا ہے کہ ’اروڑا (جگجیت سنگھ اروڑا) بہت خوش تھے۔ انھوں نے اپنے اے ڈی سی سے کہا کہ میس سے وہسکی کی ایک بوتل لے آؤ۔ ہم سمجھ گئے کہ آئندہ دنوں میں کوئی آرام نہیں ہو گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

را کے بانی کاو: ’آپ نہ ہوتے تو 1971 بھی نہ ہوتا‘

بنگلہ دیش کا قیام: جنرل نیازی نے ہتھیار کیوں ڈالے؟

قیامِ بنگلہ دیش اور آپریشن ’جیک پاٹ‘: جب پاکستانی بحری جہاز پانیوں میں ڈبو دیے گئے

اس کے بعد سے انڈیا اور پاکستان میں جنگ چھڑ گئی۔ جنگ شروع ہونے کے محض 13 روز بعد ہی پاکستان کو سرنڈر کرنا پڑا۔ اس سے قبل انڈیا اور پاکستان دونوں نے مغربی سرحد پر اپنے فوجی دستے متحرک کر رکھے تھے۔

کئی ماہ قبل ایسی صورتحال تھی کہ یہ متوقع تھا کہ دونوں ملکوں میں جنگ چھڑ سکتی ہے۔

জেনারেল জ্যাক জেকব

انڈین فوج کی مشرقی کمان کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل جیک جیکب

جنگ میں مداخلت کے لیے انڈیا بہتر وقت کے انتظار میں تھا

مشرقی پاکستان میں حالات بہت زیادہ خراب ہونے کے چند ماہ بعد قریب ایک کروڑ پناہ گزین بنگلہ دیش کی سرحد پار کر کے انڈیا میں داخل ہو گئے تھے۔

درحقیقت بنگلہ دیش کے قیام میں انڈیا بلاواسطہ ملوث رہا تھا۔

16 اپریل 1971 میں بنگلہ دیش میں عارضی حکومت کے قیام کے ایک ہفتے کے اندر اندر بنگلہ دیشی حکومت کے قائم مقام صدر سید نذر الاسلام نے انڈیا کی آشیرباد حاصل کرنے کے لیے ایک خط بھی تحریر کیا تھا۔

علاقائی وجوہات کی بنا پر اس وقت انڈیا نے احتیاط برتی لیکن درحقیقت بنگلہ دیش کی عارضی حکومت کو انڈیا کی مکمل حمایت حاصل تھی۔

مکتی باہنی کے اراکین کو انڈیا میں ٹریننگ دی گئی اور انڈیا نے ہی انھیں ہتھیار فراہم کیے تھے۔

دوسری جانب انڈیا نے ایک کروڑ بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو جگہ دی تھی۔

انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جون میں دنیا بھر کے مختلف ممالک کا دورہ شروع کیا تاکہ پاکستانی فورسز کی جانب سے مشرقی پاکستان میں کیے گئے مبینہ قتل عام کے بارے میں سب کو بتا سکیں۔

انھوں نے متعدد حکومتوں کے سربراہان کو بتایا کہ مشرقی پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور اس سے انڈیا کو کس طرح نقصان پہنچ رہا ہے۔

انھی دوروں کی مدد سے اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کی بنیاد رکھی۔

اندرا گاندھی

اندرا گاندھی

جب اندرا گاندھی نے جنگ کا اشارہ دیا

24 مارچ 1971 میں لوک سبھا سے مخاطب ہو کر اندرا گاندھی نے بتایا کہ جس بات کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ قرار دیا جا رہا ہے وہ انڈیا کا بھی اندرونی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس تقریر کو ڈھاکہ میں انڈین سفارتخانے کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا ہے۔

مشرقی پاکستان سے آئے پناہ گزینوں کا حوالہ دیتے ہوئے اندرا گاندھی نے کہا کہ پاکستان اپنے مسائل کا حل انڈین سرزمین کے ذریعے یا انڈیا کو نقصان پہنچا کر حاصل نہیں کر سکتا۔ ’اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

سنہ 1971 کے وسط میں بی بی سی کو دیے انٹرویو میں وزیر اعظم اندرا گاندھی نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ سرحد پر مسئلہ واضح ہو چکا ہے۔

جب اندرا گاندھی سے پوچھا گیا کہ آیا وہ پاکستان پر حملہ کر سکتی ہیں تو ان کا جواب تھا کہ ’مجھے امید ہے انڈیا ایسا نہیں کرے گا۔ ہم ہمیشہ امن کے حق میں رہے ہیں۔ ہم بات چیت پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن اسی دوران ہم اپنے ملک کی سکیورٹی پر سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔‘

اندرا گاندھی نے بارہا کہا کہ پاکستان پہلے جیسا نہیں رہے گا۔ انھوں نے کہا کہ جو کچھ ہمسایہ ملک میں ہو رہا ہے اس پر انڈیا اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔

اندرا گاندھی

اندرا گاندھی کی واشنگٹن میں امریکی صدر ہینری کسنجر سے ملاقات اور مشرقی پاکستان کے بارے میں بات چیت

ہنری کسنجر کا دورہ چین: ایک گیم چینجر

اب بنگلہ دیش کے قیام سے متعلق انڈیا کے خدشات اور غیر مستحکم صورتحال میں اضافہ ہو چکا تھا۔

بنگلہ دیش سے آئے ایک کروڑ پناہ گزینوں کے دباؤ سے صورتحال پیچیدہ ہو چکی تھی اور بین الاقوامی سیاست اس کی ایک دوسری وجہ تھی۔

پاکستانی حکومت کو ہمیشہ یہ خدشہ رہا تھا کہ انڈیا مشرقی پاکستان میں کسی بھی وقت فوجی مداخلت کر سکتا ہے۔

صدر یحییٰ خان کے ایک مشیر جی ڈبلیو چوہدری کے مطابق جولائی میں پاکستانی حکومت کو خبر ملی کہ انڈیا فوجی تیاریاں کر رہا ہے۔

اس کی سب سے بڑی وجہ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا خفیہ دورۂ چین تھا۔

چوہدری اپنی کتاب ’متحدہ پاکستان کے آخری ایام‘ میں لکھتے ہیں کہ ہنری کسنجر چین کے دورہ سے قبل خفیہ طور پر راولپنڈی پہنچے تھے۔

چین سے واپسی پر واشنگٹن پہنچ کر ہنری کسنجر نے امریکہ میں انڈین سفیر کو بتایا کہ اگر انڈیا نے مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو چین مداخلت کرے گا۔

کسنجر کے دورۂ چین کے بعد اندرا گاندھی کافی مایوس ہوئیں اور اس کے ایک ماہ بعد انڈیا اور روس میں اتحاد قائم ہوا۔

جی ڈبلیو چوہدری کے مطابق انڈیا اور روس میں اتحاد کے معاہدے کے بعد صورتحال نے ایک مختلف موڑ اختیار کر لیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’روس اور انڈیا کے معاہدے کے بعد پاکستان کی فوجی حکومت کو احساس ہوا کہ انڈیا کے ساتھ جنگ ہونے والی ہے اور پاکستان کو اس جنگ میں شکست ہو گی۔‘

انڈیا اور روس کے مابین اتحاد کا معاہدہ

انڈیا نے اگست 1971 میں روس کے ساتھ اتحاد کے معاہدے پر دستخط کیے جس سے امریکہ ناخوش ہوا۔

امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اس اتحاد کو ’بڑی مایوسی‘ قرار دیا تھا۔

انھوں نے پاکستان کے ساتھ انڈیا کی جنگ کا الزام انڈیا، سوویت معاہدے پر ڈالا۔ وہ اپنی کتاب ’وائٹ ہاؤس ایئرز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سوویت یونین انڈیا کو روک سکتا تھا۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ درحقیقت سوویت یونین نے اتحاد کے معاہدے کے ذریعے جنگ کے لیے اشتعال انگیزی کی۔‘

کسنجر لکھتے ہیں کہ 24 نومبر 1971 میں اندرا گاندھی نے یہ مانا کہ انڈین فوجی دستے سرحد پار کر کے پاکستان داخل ہو چکے ہیں۔ اندرا گاندھی نے کہا کہ انھوں نے ایسا صرف ایک مرتبہ کیا ہے۔

سوویت یونین کی حمایت کے بعد ہی انڈیا نے بھرپور جنگ کی جرات کی۔

تین دسمبر 1971 کو پاکستان میں مداخلت کے بعد انڈیا براہ راست اس جنگ میں فریق بن چکا تھا اور اندرا گاندھی نے چھ دسمبر 1971 کو بنگلہ دیش کو بطور ریاست تسلیم کر لیا۔

سات دسمبر کو وزیر اعظم تاج الدین نے ایک ریڈیو خطاب میں کہا کہ ’ہمارے جنگجو اب انڈین فوج کے شانہ بشانہ لڑ رہے ہیں اور ان کا خون اس مٹی میں بہہ رہا ہے۔‘

اس خطاب میں تاج الدین نے اندرا گاندھی کا شکریہ ادا کیا تھا۔

انڈیا کی جنگ میں مداخلت کے بعد اتحادی فوج قائم ہوئی۔ کچھ ہی دنوں میں جیسور، کھلنا اور نوخالی انڈیا اور مکتی باہنی کے قبضے میں آ گئے۔ اب جنگ میں پاکستانی فورسز کی شکست کسی بھی وقت ہو سکتی تھی۔

اتحادی فوج 14 دسمبر تک ڈھاکہ پہنچ گیا۔

پاکستانی فوج کے افسران کی پریشانی

اس جنگ میں جیسے جیسے پیشرفت ہوتی رہی ویسے ویسے پاکستانی فوج کے افسران کے بیچ رابطہ ختم ہوتا گیا۔ ہر شخص کے لیے حکمت عملی مختلف تھی۔

سنہ 1971 کی جنگ پر پاکستانی فوج کے سینیئر افسران کی لکھی گئی کتابوں میں ہر کوئی دوسرے پر الزام لگاتا نظر آتا ہے۔

سنہ 1971 میں لیفٹیننٹ جنرل گل حسن خان پاکستانی فوج کے چیف آف جنرل سٹاف تھے۔

ان کے مطابق انڈیا سے جنگ کے کچھ ماہ قبل فوج کا ہیڈ کوارٹر بظاہر غیر موثر ہو چکا تھا۔

وہ اپنی کتاب میں سنہ 1971 کی جنگ سے جڑے واقعات ’میموریز آف گل حسن خان‘ میں لکھتے ہیں کہ جنرل نیازی کے فہم میں نہیں تھا کہ انڈیا براہ راست پاکستان پر حملہ کر دے گا۔

’مجھے لگا کہ ہم میں سے کوئی شاید کسی کو سمجھ نہیں سکا۔ انڈیا پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا، مجھے نہیں معلوم انھیں اس بات کی تسلی کس نے دی تھی۔‘

میجر جنرل راؤ فرمان علی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستانی فوج کے افسران جنگ کی حکمت عملی کے بارے میں کتنے لاعلم تھے۔ سنہ 1971 میں وہ ڈھاکہ میں تعینات تھے اور فوج کی طرف سے انھوں نے سول انتظامی امور سنبھالے ہوئے تھے۔

جنرل فرمان علی لکھتے ہیں کہ انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ نے انڈین حملے کو ایک ’مذاق‘ سمجھا تھا۔

جی ڈبلیو چوہدری لکھتے ہیں کہ انڈیا کی مدد کو سوویت یونین کی سپر پاور آ گئی تھی۔ دوسری طرف انڈیا اور چین نے پاکستان کو صرف ’مورل سپورٹ‘ دی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کو ان دونوں ملکوں سے کوئی فوجی مدد نہیں ملی تھی۔

ان کے مطابق سنہ 1971 کی جنگ میں پاکستان کو ہرانے کے بعد انڈیا نے برصغیر میں غالب شخصیت کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔

تاہم کئی بنگلہ دیشی آج بھی اپنی ’جنگِ آزادی‘ میں انڈیا کے کردار کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔

سنہ 2012 میں بنگلہ دیش نے ’جنگ آزادی‘ میں خدمات پر 63 غیر ملکیوں کو اعزاز سے نوازا تھا۔ ان میں سے 31 انڈین شہری تھے۔

یہ تقریب مرحوم اندرا گاندھی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے شروع ہوئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp