ناجانے لڑکیاں بڑی کیسے ہو جاتی ہیں


وہ کوئی تیس سال بعد مجھے بازار میں نظر آآئی، اس کے ساتھ اس کی امی تھیں۔ میں تو خوشی سے پاگل ہو گئی، وہ میری واحد بہترین دوست سارہ کی چھوٹی بہن ثنا تھی۔ میں اور سارہ تھرڈ ائر اور فورتھ ائر میں دوست بنے، ہم ہو سٹل۔ میں بھی اکٹھے رہتے تھے، اور روم میٹ بھی تھے۔ ہوسٹل میں پہلے دن ملاقات ہوئی، کیونکہ کمرہ مشترکہ تھا، ۔ ہم چار لوگ تھے۔ لیکن ذہنی ہم آہنگی کی وجہ سے جلد ہی ہم اچھے دوست بن گئے۔ بے شک ہمارے سبجیکٹ مختلف تھے، لیکن اس کے باوجود ہماری کوشش ہوتی، کہ فری پیریڈ ایک ساتھ گزاریں۔ کئی دفعہ ہم لوگ خاموش بیٹھے رہتے، اور بوریت کا احساس تک نہ ہوتا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ذہنی ہم آہنگی میں خاموشی بھی بھلی محسوس ہوتی ہے۔

خیر ثنا نے بتایا، کہ سارہ کئی سال پہلے امریکہ سیٹل ہو چکی ہے۔ اس کا امریکہ کا فون نمبر لے لیا، اور پھر تقریباً ہفتے میں ایک بار بات ہو جاتی۔ پھر اس نے بتایا، میں پاکستان آ رہی ہوں، ایک انجانی سی خوشی کا احساس ہوا، خدا خدا کر کے وہ دن آ ہی گیا۔ وہ میرے گھر آئی، خوب باتیں کیں، ہوسٹل کے دنوں کو جی بھر کے یاد کیا۔ اس کا چھوٹا بیٹا بھی ساتھ تھا، اس نے بتایا کہ وہ اپنے بڑے بیٹے کی شادی کرنا چاہتی ہے اور اسی سلسلے میں آئی ہے۔

کافی دنوں بعد میں نے فون کیا، اور پوچھا کوئی رشتہ دیکھا، کہنے لگی رشتے تو بہت دیکھے ہیں، ڈاکٹر اور کافی ایجوکیٹڈ لڑکیاں دیکھی ہیں۔ مجھے بہت عجیب لگا، اتنی لڑکیاں دیکھنے کے بعد بھی کوئی پسند نہیں آئی۔ میں نے پو چھا پھر کیا بنا؟ تو اس نے اپنے لہجے میں دنیابھر کی معصومیت سمیٹتے ہوئے کہا، یا ر پتہ نہیں یہ لڑکیاں بڑی کیسے ہو جاتی ہیں؟ میں حیران پریشان سوچ رہی تھی کیا یہ میری وہی دوست ہے، جو بڑی مثبت سوچ کی مالک تھی، جو فراز اور پروین شاکر کی شاعری کی دیوانی تھی۔

ہم نے کبھی فیشن، برانڈڈ کپڑوں یا جیولری کی باتیں نہیں کیں، جو کبھی کسی کی برائی نہیں کرتی تھی۔ اب اس کی سوچ کیسے بدل گئی۔ کیا کوئی لڑکی ڈاکٹر ماں کے پیٹ سے بن کے نکلے گی، ماسٹر کرے گی یا انجینئر بنے گی تو کوئی جادو کی چھڑی ماں باپ گھما دیں گے کہ لو جی ہماری بیٹی اٹھارہ سال کی عمر میں ڈاکٹر بن گئی ہے۔ آپ اپنے چالیس سالہ بیٹے کے لئے پسند کر لیں۔ اب کہیں جا کے کچھ والدین کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے، کہ لڑکیوں کو اچھی تربیت کے ساتھ بہترین تعلیم کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ کسی کی محتاج نہ ہوں، اور کسی بھی مشکل وقت کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔

لیکن یہ بات رشتہ کرتے ہوئے بیٹوں کی مائیں کیوں نہیں سوچتیں؟ اب بھی نوے فیصد ماؤں کی سوچ ادھر ہی ا اٹکی ہوئی ہے۔ لڑکی چھوٹی عمر کی ہونی چاہیے۔ خود لڑکیوں کی ماؤں کو کہتے سنا ہے کہ ابھی ایک سال کی ہے تو اور سولہ سترہ سال بعد اس کی شادی ہو جائے گی۔ اور عورت کو تیس سال سے پہلے پہلے جتنے بچے پیدا کرنے ہوں، کر لینے چاہیے یعنی عورت نہ ہوئی کوئی مشین ہو گئی۔ اورساس صاحبہ کو چھوٹی عمر کی پڑھی لکھی لڑکی چاہیے، اس کے جو فائدے گنوائے جاتے ہیں، وہ یہ ہوتے ہیں۔

چھوٹی عمر کی لڑکی جلدی ایڈجسٹ کر لیتی ہے۔

اس کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے، یعنی لڑکی نہ ہوئی موم کی گڑیا ہوئی۔ مطلب یہ کہ وہ نئے ماحول میں خود کو اسی کے مطابق بدل لیتی ہے۔ حالانکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ زیادہ پڑھی لکھی تو ویسے ہی بہت اکڑفوں ہوتیں ہیں۔ ان کا تو نخرہ ہی ختم نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ اور کچھ کو یہ مصیبت بھی ہوتی ہے لڑکی پڑھی لکھی بھی ہو، خوبصورت بھی ہو اور عمر بھی بیس سے زیادہ نہ ہو۔

ادھر ہیومن رائٹس والے چیخ چیخ کے کہہ رہے ہیں کہ چھوٹی عمر کی لڑکیوں کی شادی ظلم ہے۔ لکھاری ہر روز اپنے آرٹیکلز میں بہترین تعلیم و تربیت پر زور دے رہے ہیں۔ لیکن دوسری طرف عورت ہی عورت کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ جو کہہ رہی ہے، پتہ نہیں لڑکیاں بڑی کیسے ہو جا تیں ہیں۔ غرض کہ جو مرضی کر لو ہماری سوچ بدلنے کی نہیں۔ گھر گھر جا کر چائے پینا، لڑکی کا اچھی طرح جائزہ لینا، اور پھر ہزار نقص نکال کر اگلے گھر کی راہ لیتے ہوئے کاش وہ سوچیں، کہ یہ سب کچھ کر کے انہوں نے کتنے دلوں کو دکھی کیا ہے۔ کتنے والدین کو ذہنی اور جسمانی طور پر رنج پہنچا یا ہے۔ کس قدر تکلیف میں مبتلا کیا ہے۔ شاید ہماری نوجوان نسل اپنے والدین کی منفی سوچ کو بدلنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے توآنے والے دنوں یا سالوں میں کسی لڑکی اور والدین کو ان تلخ رویوں سے نجات مل جائے۔

ہمیں خود اپنے مسائل پہ غور کرناہے
کہ روز روز صحیفے نہیں اترتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).