ذکر کچھ کرکٹ کا….


\"kazmi\"نوے کی دہائی میں آنکھ کھولنے والی ”اداس نسل“ کا المیہ بھی اس دہائی کی طرح عجیب ہے۔ تصویری تاریخ مرتب کی جائے تو اس دہائی کے سرورق پر عمران خان مرمریں ٹرافی ہاتھوں میں تھمائے فاتحانہ پراعتماد مسکراہٹ کے ساتھ نظر آئیں گے۔ آخری دو صفحات پر بالترتیب لارڈز گراونڈ میں شکست کے بعد وسیم اکرم کے جھکے چہرے اور پی ٹی وی کا آہنی دروازہ پھلانگتے فوجی جوانوں کی تصاویر جگہ پائیں گی۔ البم میں کہیں حسن جہانگیر، عالمگیر اور جنید جمشید کے کھکھلاتے چہرے ہوں گے تو کہیں کافر کافر شیعہ کافر کے نعرے لگاتے پرجوش مظاہرین۔ ایک ورق منصور احمد کا ڈائیو لگا کر گول روکتے منظر کے لیے وقف ہو گا تو بنتی بگڑتی پارلیمان کے لیے کئی اوراق مختص کرنے پڑیں گے۔ لمبے بالوں اور جہادی جیکٹس والے نوجوان اسلام آباد کی اداس گلیوں میں استحقاق سے گھومتے دکھائی دیں گے اور درمیانی دونوں صفحات پر نصرت فتح علی خان کسی دیوتا کی مانند براجمان ہوں گے۔ ہاں پی ٹی وی کے لیے ایک پورا باب رکھنا ہوگا جہاں دھواں، سنہرے دن، ایلفا براووچارلی اور عینک والا جن آمنے سامنے ہونگے۔ برابر کے وطن میں ”مجاہدین“ اور اپنے ہاں جان شیر خاں اور محمد یوسف کی فتوحات کے مناظر بھی مرکزی مقام حاصل کریں گے۔ حیرت کی بات ہے کہ نظریاتی اور سیاسی طور پر بلاشبہ پاکستان کی تاریک ترین دہائی میں آنکھ کھولنے والی اس اداس نسل کو فنون لطیفہ اور کھیل کے میدان میں پاکستان کی کامیاب ترین نسل دیکھنا نصیب ہوئی۔ یہی اس نسل کا المیہ ہے اور یہی وہ بنیادی سبب ہے کہ اس نسل کا اولین ہیرو بھی وہ شخص ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا کھلاڑی مگر انتہائی کنفیوزڈ سیاستدان ہے۔

یہ اداس نسل رومان پرور بھی ہے اور اس کا سب سے بڑا رومان کرکٹ ہے۔ قدرت نے اس رومان کی تسکین کے لیے کیا تحفے دیے۔ شارجہ کی بےزار مگر آباد شاموں میں وسیم اکرم کی مختصر رن اپ سے بے جان وکٹ پر جاندار باﺅلنگ، آسٹریلیا میں ہونے والی 1997 ءکی ورلڈ سیریز، اعجاز احمد کا ماتھے پر پٹی باندھ کر بیٹنگ اور وقار یونس کی ناک پر پلاسٹر لگا کر باولنگ، ثقلین کا ٹنڈولکر کو الو بنانا، شعیب اختر کا پورا اوور آنکھ جھپکے بغیر دیکھنا، انضمام اور سعید انور کی بغیر مشقت خوبصورت بلے بازی ، معین خان کا آخری اوورز میں میگراتھ اور ایلن ڈونلڈ کو سویپ شاٹس کھیلنا۔ اظہر محمود کی مونچھیں اور سلیم ملک کا ’بے ایمان‘ چہرہ، رمیز راجہ کی، موجودہ دور میں اپنی کمنٹری کی طرح، بے مقصد بیٹنگ، شاہد ’افریقی‘ کا آنا اور چھا جانا اور فاسٹ باولرز کی ایسی کھیپ کہ ہم بچوں کی لڑائی اس بات پر ہوتی کہ تیسرا باولر محمد زاہد، محمد اکرم، عطا الرحمان، عامر نذیر یا عاقب جاوید میں سے کسے ہونا چاہیے۔

\"Upcoming-Pakistan-Cricket-Table\"2007 ءکے بعد دنیا آگے نکل گئی اور ہم نوے کے رومان میں قید رہے۔ محدود اوورز کی کرکٹ کو آئی پی ایل جیسا طوفان نصیب ہوا۔ پاکستان اس سے محروم رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے کرکٹ کے مزاج میں ایسی تبدیلیاں آئیں جن سے اب تک، ہمارے کھلاڑی تو کجا، ماہرین بھی آگاہ نہ ہو پائے۔ نوے میں جو ”بیانیہ“ طے پایا وہ یہ تھا کہ ”وکٹیں بچاﺅ، آخری اوورز میں رنز بناو“۔ آئی پی ایل نے ’کریز پر موجود بلے باز کا بنیادی مقصد رنز بنانا ہے‘ دور حاضر کا بیانیہ قرار دیا۔ جیسے ہم بدقسمت ہیں کہ مشرف جیسا ’لبرل‘ عنایت ہوا ویسے ہی یہ بھی بدنصیبی ٹھہری کہ عمر اکمل اور احمد شہزاد جیسے جدید بلے باز پاکستان کے حصے میں آئے جنہوں نے رنز بنانے کا مطلب چار چوکے اور ایک چھکا لگا کر کیچ تھمانا سمجھا۔ نوے کی دہائی میں تیزرفتار باولنگ سے پاکستانیوں کا عشق ایسا مستحکم ہوا کہ اکیسویں صدی میں، محض دھیمی رفتار کے سبب، محمد آصف کو خود بھی احساس نہ ہوسکا کہ اس جیسا باولر دنیا میں کوئی اور نہیں۔ رہی سہی کسر شاہد آفریدی کے طویل کیریر نے نکال دی۔ ایک نیازی کا آسرا نہ ہوتا تو پاکستان کرکٹ کی ناﺅ سپاٹ فکسنگ بھنور میں ڈوب چلی تھی۔ تاہم ون ڈے کرکٹ ایسی ظالم شے ہے کہ مصباح جیسے عظیم جادوگر کا ”علم“ بھی ناکافی ثابت ہوا۔

4 فروری سے پاکستان سپرلیگ کا آغاز ہے۔ رومانیت زدہ طبائع بے قرار ہیں۔ آس لگائے بیٹھی ہیں کہ اس لیگ کی بدولت پاکستان بھی کرکٹ کے جدید بیانیے سے واقف ہوگا۔ کچھ رنگین شامیں میسر ہوں گی۔ آفس سے تھکے ہارے واپسی پر نیند کو ٹالنے کے کچھ بہانے ہاتھ آئیں گے۔ کرکٹ سے وابستہ افسانے نئے رنگ اختیار کریں گے اور ایک بار پھر سے ہم اپنے اس ہرجائی محبوب کی زلفوں کے گن گائیں گے۔ جدھر مصباح، ادھر فقیر کا من۔ اسلام آباد یونائٹڈ سے عہد وفا باندھ لیا جب تک یہ بیالیس سالہ نوجوان ہمارے شہر کی وردی پہنے گا، کسی صورت اس مصنوعی شہر پر پشاور، کراچی، لاہور یا کوئٹہ کی تہذیب کو ترجیح نہیں دی جائے گی۔ اپنی ٹیم کا انتخاب کر لیں ۔پھر نہ کہنا خبر نہیں ہوئی۔

احمد علی کاظمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد علی کاظمی

احمد علی کاظمی پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ جامعہ امدادیہ کے طالب علم رہے ہیں۔ پاکستانی سیاسی و آئینی تاریخ اور سیاسی اسلام و جمھوریت کے مباحث میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ فلم بین اور کرکٹ کے تماشبین اس کے علاوہ ہیں۔ سہل اور منقح لکھنے کے قائل ہیں۔

ahmedalikazmi has 13 posts and counting.See all posts by ahmedalikazmi

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments