کیا یہ ملک دشمن ہیں؟ جیلوں میں بند غیر ملکی ایرانیوں کی کہانیاں


ایران میں جاسوسی کے الزام میں سزا پانے والی برطانوی نژاد ایرانی خاتون نازنین زاغری کی کہانی نے اس اسلامی جمہوریہ میں دوہری شہریت کے حامل افراد یا بیرونِ ملک مستقل رہائش رکھنے والے قیدیوں کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔

ایران دوہری شہریت کو تسلیم نہیں کرتا اور ان معلومات کی حساسیت کے باعث ایران میں قید افراد کے بارے میں مستند اعداد و شمار بھی موجود نہیں ہیں۔ آئیے آپ کو نازنین زاغری ریٹکلف کے علاوہ دیگر نمایاں قیدیوں کے متعلق بتاتے ہیں۔

Iranian-American businessman Siamak Namazi (right) and his father Baquer

سیامک اور باقر نمازی (ایرانی نژاد امریکی)

سیامک نمازی دبئی کی کریسنٹ پٹرولیم نامی کمپنی کے سٹریٹیجک منصوبہ بندی کے شعبے میں بطور سربراہ کام کر رہے تھے۔

پاسدارانِ انقلاب نے انھیں اکتوبر 2015 میں گرفتار کر لیا تھا جبکہ ان کے 80 سال کے پیٹے میں والد باقر کو فروری 2016 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب ایرانی حکام کی جانب سے انھیں اپنے بیٹے سے جیل میں ملاقات کی اجازت دی گئی تھی۔

اسی سال اکتوبر میں دونوں باپ بیٹے کو ایران کی دادگاهِ انقلاب اسلامی کی جانب سے ’غیر ملکی دشمن ریاست کے ساتھ تعاون‘ کرنے کے الزام میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

سیامک نمازی کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ وکیل کی جانب سے یہ شکایت بھی کی گئی ہے کہ انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور قانونی نمائندگی کی اجازت نہیں دی گئی اور انھیں صحت کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سیامک کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے صوابدیدی نظربندی کا کہنا ہے کہ سیامک اور باقر نمازی کو قید میں رکھنے سے بین الاقوامی سول و سیاسی حقوق اور عالمی طور تسلیم شدہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور ان کی جانب سے دونوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

مارچ 2018 میں باقر نمازی کو جیل سے طبی بنیادوں پر گھر بھیج دیا گیا جہاں انھیں نظر بند رکھا گیا ہے۔ ان کے گھر والوں نے خبردار کیا ہے کہ ان کی صحت وقت کے ساتھ خراب ہوتی جا رہی ہے۔

 


Ahmadreza Djalali

احمد رضا جلالی ( ایرانی نژاد سویڈش)

شعبہ حادثات کے ماہر ڈاکٹر احمد رضا جلالی کو اپریل 2016 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ سویڈن سے ایران ایک کاروباری دورے پر آئے ہوئے تھے۔

انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ جلالی کو وزارتِ انٹیلیجنس کے حکام کی جانب سے سات ماہ تک جیل میں رکھا گیا تھا جن میں سے تین ماہ انھیں قیدِ تنہائی کاٹنی پڑی۔ اس کے بعد ہی انھیں وکیل تک رسائی حاصل ہوئی۔

انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ انھیں اس دوران تشدد اور برے رویے کا سامنا بھی کرنا پڑا، انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور ان کے بچے جو سویڈن میں مقیم ہیں اور ان کی والدہ جو ایران میں رہتی ہیں، انھیں بھی نقصان پہنچانے کی دھمکی دی گئی۔

اکتوبر 2017 میں تہران کی دادگاهِ انقلاب اسلامی نے جلالی کو ’دنیا میں بدعنوانی پھیلانے‘ کے الزام میں سزائے موت کی سزا سنائی۔

ان کے وکلا نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت نے صرف تشدد کے نتیجے میں حاصل کیے گئے ثبوتوں کا سہارا لیا ہے۔ وکیل کا الزام ہے کہ انھیں صرف اس بنا پر سزا سنائی گئی تھی کیونکہ انھوں نے یورپی اداروں میں اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے ایران کے لیے جاسوسی کرنے سے انکار کیا تھا۔

دو ماہ بعد ایران کے ریاستی ٹیلی ویژن نے ایسی فوٹیج بھی نشر کی جس میں ان کے مطابق جلالی اس بات کا اعتراف کر رہے تھے کہ انھوں نے اسرائیل کے لیے ایران کے جوہری پروگرام کی جاسوسی کی ہے۔ اس میں یہ اشارہ بھی دینے کی کوشش کی گئی کہ انھوں نے ہی ان دو ایرانی جوہری سائنسدانوں کی شناخت کی تھی جنھیں سنہ 2010 کے بم دھماکے میں ہلاک کیا گیا تھا۔

رواں برس نومبر میں ایران نے سویڈن کے وزیرِ خارجہ کی جانب سے سزائے موت رکوانے کی اپیل مسترد کر دی۔ اس سے قبل ان کی اہلیہ کو جیل حکام کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ انھیں بہت جلد سزا دے دی جائے گی۔ سویڈن نے احمد رضا جلالی کو 2018 میں شہریت دی تھی۔


Abdolrasoul Dorri Esfahani

عبدالرسول دری اسفھانی (ایرانی نژاد کینیڈین)

عبدالرسول دراصل ایک اکاؤنٹنٹ ہیں جو ایران کے مرکزی بینک کے گورنر کے مشیر بھی رہے اور وہ ایران کی اس مذاکراتی ٹیم کا بھی حصہ تھے جس نے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کا جوہری معاہدہ کیا تھا اور اس دوران وہ مالیاتی مسائل پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

انھیں ایران کے پاسدارنِ انقلاب نے کینیڈا جانے والی پرواز میں سوار ہونے سے قبل اگست 2016 میں گرفتار کیا تھا اور ان پر ’ملک کی معاشی معلومات غیرملکیوں کو بیچنے کا الزام‘ عائد کیا گیا تھا۔

مئی 2017 میں دادگاهِ انقلاب اسلامی نے دری اسفھانی کو جاسوسی کے الزامات اور ’برطانوی خفیہ ادارے کی معاونت کرنے‘ پر پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی۔

اسی برس اکتوبر میں اپیل کی سماعت کرنے والی عدالت نے دری اسفھانی کی سزا کو برقرار رکھا حالانکہ ملک کے وزیر انٹیلیجنس محمود علوی نے بارہا یہ کہا تھا کہ وہ بے قصور ہیں۔

نیویارک میں قائم انسانی حقوق کے ایک گروپ کے مطابق دری اسفھانی کو کسی نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے۔


Morad Tahbaz

مراد طاھباز (ایران-برطانیہ-امریکہ)

کاروباری شخصیت اور جنگلی جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے مراد طاھباز کے پاس امریکہ اور برطانیہ دونوں ممالک کی شہریت موجود ہے۔ انھیں جنوری 2018 میں ملک میں موسمیاتی تحفظ پر کام کرنے والے کارکنان پر کیے جانے والے کریک ڈاؤن میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ان کے کینیڈین نژاد ایرانی ساتھی کاوؤس سید امامی گرفتار ہونے کے کچھ عرصے بعد دورانِ حراست نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہلاک ہو گئے تھے۔

حکام نے طاھباز اور موسمیاتی تحفظ پر کام کرنے والے سات دیگر افراد پر موسمیاتی اور سائنسی پراجیکٹس کی آڑ میں ایران کے سٹریٹیجک علاقوں کی خفیہ معلومات اکھٹی کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق موسمیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے یہ کارکن دراصل جنگلی جانوروں کے تحفظ کی فاؤنڈیشن کے اراکین ہیں اور کیمروں کی مدد سے خطے میں معدومیت کا شکار جانوروں کی نگرانی کرتے ہیں جن میں ایشیائی چیتا اور فارسی تیندوا شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایران کی جنگلی حیات کا تحفظ کرنے والوں پر کس طرح ایران کے خلاف جاسوسی کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے۔‘ اس ضمن میں ایک حکومتی کمیٹی کی جانب سے پہلے ہی کہا جا چکا ہے کہ اس بارے میں کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں کہ یہ افراد جاسوس ہیں۔

تاہم اکتوبر 2018 میں طاھباز اور ان کے تین ساتھیوں پر ’دنیا میں بدعنوانی پھیلانے‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا (جو بعد تبدیل کرکے دشمن ملک امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے کے الزام میں تبدیل کر دیا گیا تھا) جس پر سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ تین دیگر افراد کو جاسوسی کے الزام میں اور چوتھے پر قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

ان آٹھوں کارکنان نے ان الزامات کی تردید جاری کی اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بعد میں یہ بھی بتایا کہ اس حوالے سے شواہد موجود ہیں کہ انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا تاکہ ان سے جبری طور پر ’جرم کا اعتراف‘ کروایا جا سکے۔ ان افراد کو چار سے 10 سال تک قید کی سزا سنائی گئی تھی اور انھیں مبینہ’ناجائز آمدن‘ واپس کرنے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔

ہیومن رائٹس واچ نے ان سزاؤں کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’غیرمنصفانہ ٹرائل‘ قرار دیا جس کے دوران مدعیوں کو شواہد بھی نہیں دکھائی گئے تھے۔


Kamran Ghaderi

کامران غدیری (ایران- آسٹریا)

آسٹریا میں قائم ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کنسلٹنگ کمپنی ایوانوک کے سی ای او کو جنوری 2016 میں ایران کے کاروباری دورے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

اسی برس اکتوبر میں ایران کے سرکاری وکیل نے کہا تھا کہ کامران غدیری کو جاسوسی اور دشمن ملک کے ساتھ تعاون کے الزام میں 10 برس قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔

ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ وہ ایک ’عام کاروباری شخصیت‘ ہیں جنھیں غیر منصفانہ طور قید کیا گیا ہےجبکہ انسانی حقوق کے دیگر گروپس کا کہنا تھا کہ انھیں تشدد کے ذریعے جاسوسی کے الزام کا اعتراف کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔

جیل میں غدیری کی جسمانی اور ذہنی حالت مزید ابتر ہو رہی ہے۔ جولائی 2019 میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا تھا کہ انھیں ضروری طبی سہولیات نہیں دی جا رہیں حالانکہ ان کی ایک ٹانگ میں خاصی تکلیف ہے۔


Karan Vafadari and Afarin Neyssari

کارن وفاداری اور آفرین نیساری (ایرانی نژاد امریکی)

زرتشت مذہب کے احکام و عقائد کی پیروی کرنے والا یہ جوڑا ایک مقبول آرٹ گیلری کا مالک بھی ہے۔ انھیں ایران کے پاسدارانِ انقلاب نے تہران انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے جولائی 2016 میں گرفتار کیا تھا۔

دو ہفتے بعد تہران کے سرکاری وکیل نے اعلان کیا تھا کہ دوہری شہریت کے حامل اس جوڑے پر غیر ملکی سفیروں کی ایسی دعوتیں منعقد کروانے کا الزام ہے جن کے دوران شراب نوشی کے علاوہ خواتین اور مردوں کا میل جول ہوتا تھا۔

ایران کے آئین میں اسلام کے ظہور سے قبل موجود قدیم پارسی مذہب کے احکام و عقائد کو ماننے والوں پر اسلامی عقائد اپنانا لازم نہیں ہے جن میں شراب نوشی اور خواتین اور مردوں کے میل جول والی دعوتیں شامل ہیں۔

سنہ 2017 کے اوائل میں وفاداری اور ان کی اہلیہ پر مزید الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں ’ریاست کے دشمنوں کی معاونت‘، ’حکومت کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے اقدامات‘ اور ’غیرملکی سفارتخانوں کے ذریعے جاسوسوں کی بھرتیاں‘ شامل ہیں۔

ایران میں انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے ایک امریکی ادارے (سی ایچ آر آئی) کے مطابق جنوری 2018 میں وفاداری نے ایون کی جیل سے لکھے گئے ایک خط میں بتایا کہ دادگاهِ انقلاب اسلامی نے انھیں 27 سال جبکہ ان کی اہلیہ کو 16 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ انھوں نے الزامات کی سختی سے تردید کی تھی۔

وفاداری کے بیٹے نے بعد میں بتایا کہ ان کے والدین کی سزا کم کرکے 15 اور 10 سال کر دی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق جولائی 2018 میں حکام نے انھیں ضمانت پر رہا کر دیا تھا۔


ارس امیری ( ایران نژاد برطانوی شہری)

Family handout photo showing Aras Amiri

Family handout

برٹش کونسل میں کام کرنے والی ارس امیری لندن میں مقیم تھیں اور انھیں مارچ 2018 میں اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ اپنی عمر رسیدہ دادی سے ملنے تہران آئی تھیں اور ان پر دو ماہ بعد ’قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے کا الزام‘ عائد کیا تھا۔

اس کے ٹھیک ایک برس بعد ایران کی عدلیہ نے اعلان کیا تھا کہ ایک نامعلوم ایرانی خاتون جو ’برٹش کونسل میں ایران ڈیسک کی انچارج‘ ہیں، انھیں جاسوسی کے الزام میں سزا سنا دی گئی ہے۔ ایران کی عدلیہ کے ترجمان نے بعد میں تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ امیری کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

برٹش کونسل کے چیف ایگزیکٹو سر کائران ڈیوین نے کہا تھا کہ ان کا ادارہ ارس امیری پر ’لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ارس امیری کو برطانیہ میں ایرانی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے ادارے میں نوکری دی گئی تھی۔

امیری نے ایون جیل سے ایک خط میں لکھا کہ وہ عدلیہ کی جانب سے ان پر عائد کیے گئے تمام الزامات کی تردید کرتی ہیں اور یہ بھی کہ انھیں ایران کی وزارتِ انٹیلیجنس کی جانب سے ایران کے لیے جاسوسی کرنے کی پیشکش کی گئی تھی جو انھوں نے مسترد کر دی جس کے بعد انھیں سزا دی گئی۔

ارس امیری کے منگیتر جیمز ٹائیسن نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں ایران کی حکومت کی جانب سے ’سودے بازی کے لیے آلۂ کار‘ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔


فریبا عادالخواہ (ایرانی نژاد فرانسیسی شہری)

Fariba Adelkhah (file photo)

فریبا عادالخواہ، پیرس کی سائنسز پو یونیورسٹی کی محقق اور ایران میں انقلاب کے بعد سماجی اور سیاسی اینتھراپولوجی کی ماہر ہیں اور انھوں نے متعدد کتابیں لکھی ہیں۔

جون 2019 میں جب انھیں تہران سے گرفتار کیا گیا، اس وقت وہ شیعہ عالم دین حضرات کی افغانستان، ایران اور عراق کے درمیان آمدورفت کا جائزہ لے رہی تھیں اور انھوں نے مقدس شہر قم میں بھی وقت گزارا تھا۔

عادالخواہ پر سکیورٹی سے متعلق دیگر الزامات کے علاوہ جاسوسی کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ انھوں نے اپنے خلاف لگے الزامات کے خلف احتجاج کیا اور بھوک ہڑتال کے باعث ان کے گردوں پر اثر پڑنے کے باعث انھیں ہسپتال داخل کر لیا گیا۔

اپریل 2020 میں دادگاهِ انقلاب اسلامی میں شروع ہونے والے ٹرائل سے قبل حکومتی وکلا نے ان پر سے جاسوسی کا الزام ہٹا دیا۔ اس سے اگلے ماہ عدالت نے انھیں قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے پر پانچ برس اور اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں پراپیگینڈا کرنے پر اضافی ایک برس قید کی سزا سنائی۔

فرانس کے وزیرِ خارجہ جین یویس لی ڈرائن نے ان کو دی گئی سزا کی مذمت کی اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

اکتوبر 2020 میں سائنسز پو یونیورسٹی کے مطابق ان کے ’صحت کے مسائل‘ کے باعث انھیں ضمانت پر رہائی ملی اور عادالخواہ تہران میں اپنے گھر آ گئیں جہاں وہ آج بھی نظر بند ہیں۔


انوشے عاشوری (ایرانی نژاد برطانوی شہری)

Anoosheh Ashoori and Sherry Izadi

Sherry Izadi

ریٹائرڈ سول انجینیئر انوشے عاشوری کو اگست 2017 میں تہران سے گرفتار کیا گیا تھا۔

ان کے خاندان کے مطابق، انھیں پہلے چھ ہفتے قید تنہائی میں رکھا گیا اور ان سے بغیر وکیل تک رسائی دیے تفتیش کی جاتی رہی اور انھیں ان کی فیملی کے حوالے سے بھی دھمکیاں دی جاتی رہیں۔

عاشوری کا کہنا ہے کہ ’جرم قبول کرنے‘ کے لیے ان سے زبردستی دستخط کروائے گئے اور اس دوران تشدد اور برا رویہ بھی روا رکھا گیا۔ انھیں سونے نہیں دیا جاتا تھا اور لمبے عرصے تک قیدِ تنہائی میں رکھا جاتا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ٹرائل کے موقع پر انھوں نے اپنی وکالت خود کی کیونکہ ان سے وکیل کی نمائندگی کا حق بھی لے لیا گیا تھا۔ عاشوری نے اس دوران اپنا مبینہ ’اعتراف جرم‘ واپس لے لیا۔ تاہم عدالت اس معاملے میں تحقیقات کا حکم دینے میں ناکام رہی اور بیانات کی بنا پر ہی انھیں سزا سنا دی گئی۔

اگست 2019 میں ایرانی عدلیہ کے ترجمان نے اعلان کیا کہ عاشوری کو اسرائیل کے لیے ایران کی جاسوسی کرنے کے الزام میں 10 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے اور اس کے علاوہ مزید دو برس ’خفیہ طور پر رقم حاصل کرنے پر‘ جبکہ انھیں 36 ہزار 600 ڈالر جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔

عاشوری کی اہلیہ شیری عزادی نے کہا ہے کہ یہ دعوے ’بے بنیاد‘ ہیں اور برطانوی حکومت سے ان کی رہائی کی اپیل بھی کی ہے۔


Kameel Ahmady and his wife Shafaq Rahmani

کمیل احمدی ( ایران نژاد برطانوی شہری)

ایران کے شمال مغربی شہر میں پیدا ہونے والے کمیلی احمدی کا تعلق کرد نسل سے ہے اور وہ 20 کے پیٹے میں برطانیہ چلے گئے تھے جہاں انھوں نے لندن سکول آف اکنامکس سے تعلیم حاصل کی۔

سنہ 2015 میں انھوں نے ایک تحقیق چھپوائی جس میں بتایا گیا تھا کہ ایران میں ہزاروں خواتین کے جنسی اعضا کاٹے جا چکے ہیں۔ اس وقت تک ایران کا شمار ایف جی ایم یعنی خواتین کے اعضا کاٹنے کی روایت سے متاثرہ ممالک میں نہیں ہوتا تھا۔

کردستان ہیومن رائٹس نیٹ ورک کے مطابق کمیل احمدی اگست 2019 میں اپنی گرفتاری سے قبل گذشتہ کئی برسوں سے ایران میں ہی مقیم ہیں۔ ان کے مطابق انھیں حراست میں لیے جانے کہ 100 دن تک وکیل تک رسائی کا حق نہیں دیا گیا تھا اور بعد ازاں انھیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

دسمبر 2020 میں ان کے وکیل نے بتایا کہ انھیں تہران کی ایک عدالت نے ’دشمن حکومت کی معاونت‘ کرنے پر آٹھ سال قید کی سزا سنائی ہے۔

کمیل احمدی نے فیس بک پر اس فیصلے سے متعلق ایک پوسٹ میں لکھا کہ یہ فیصلہ ’نقائص سے بھرپور قانونی مراحل‘ کا نتیجہ ہے اور وہ اس کے خلاف اپیل کریں گے۔


مسعود مصاحب (ایرانی نژاد آسٹریلوی شہری)

سابق کاروباری شخصیت مسعود مصاحب کو تہران سے جنوری 2019 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مصاحب کو ایک ہوٹل کے کمرے میں تین روز تک رکھا گیا جہاں وزارتِ انٹیلیجنس کے اہلکاوں نے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا اور سونے نہیں دیا۔ اس دوران وکیل کی غیرموجودگی میں ان سے پوچھ گچھ کی گئی اور ان سے زبردستی دستاویزات پر دستخط کروائے گئے۔

اس کے بعد انھیں ایون کی جیل منتقل کر دیا گیا جہاں ذرائع کے مطابق ان پر تشدد کیا گیا۔ اپریل 2020 میں مصاحب کو ’جرمنی کے لیے جاسوسی‘ کرنے، ’دشمن ملک کی معاونت کرنے‘ اور اسرائیل اور جرمنی سے ’مشکوک ذرائع سے فنڈز حاصل کرنے‘ پر 22 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ یہ ٹرائل ’انتہائی غیرمنصفانہ‘ ہے اور اس میں عدالت نے اس مبینہ ’اعتراف جرم‘ پر انحصار کیا ہے جو مسعود نے عدالت سے واپس لے لیے تھے اور جج کو بتایا تھا کہ یہ ان سے تشدد کے نتیجے میں لیے گئے ہیں۔

نومبر میں انسانی حقوق کے ایک گروپ نے خبردار کیا تھا کہ مصاحب کی صحت تیزی سے خراب ہو رہی ہے اور ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

ناہید طغاوی ( ایرانی نژاد جرمن شہری)

ریٹائرڈ معمار اور جرمنی اور ایران کی شہریت رکھنے والی ناہید طغاوی کو تہران میں ان کے اپارٹمنٹ سے اکتوبر 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر ’سکیورٹی کے لیے خطرہ‘ بننے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

ان کی بیٹی مریم کلیرن کے مطابق انھیں ایون کی جیل میں قیدِ تنہائی میں رکھا جا رہا ہے اور ابھی تک وکلا تک رسائی نہیں دی گئی ہے اور نہ ان کے خاندان یا جرمن سفیروں کا اب تک ان سے رابطہ ہو پایا ہے۔ انھیں 12 روز کے بعد ٹیلی فون کال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

مریم کلیرن کا کہنا ہے کہ انھیں خدشہ ہے کہ ان کی والدہ کو طبی امداد بھی نہیں دی جا رہی ہے۔ انھیں ایک ڈینٹل سرجری کے دو روز بعد گرفتار کیا گیا تھا اور انھیں بلند فشار خون کی شکایت بھی رہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp