کورونا وائرس سے خواتین کے مقابلے میں زیادہ مرد کیوں ہلاک ہو رہے ہیں؟


کورونا وائرس
زیادہ تر ممالک میں خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ جیتی ہیں اور کووڈ 19 سے بھی مردوں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ رہتی ہیں
20 جنوری 2020 کو جب چین کے علاقے ووہان سے سامنے آنے والی سانس کی پراسرار بیماری کے بارے میں زیادہ معلومات بھی نہیں تھیں، تب ماہرِ جینیات شیرون ماؤلم نے ٹوئٹر پر ایک بے باک پیش گوئی کی۔

امریکہ میں مقیم 43 سالہ کینیڈین ڈاکٹر نے پوچھا تھا ’ووہان میں دریافت ہونے والی سانس کی بیماری سے زیادہ مرد کیوں مر رہے ہیں؟‘

ان کا قیاس درست تھا۔

گلوبل ہیلتھ 50/50 ڈیٹا بیس کے مطابق جن ممالک سے اعداد و شمار میسر ہیں ان کے مطابق کووڈ 19 سے خواتین کی بہ نسبت مرد زیادہ ہلاک ہو رہے ہیں۔

https://twitter.com/sharonmoalem/status/1219263217999974404

30 نومبر کے بعد یمن میں ہونے والی ہلاکتوں میں تین چوتھائی تعداد مردوں کی تھی، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، ملاوی اور نائجیریا میں بھی یہی تناسب تھا جبکہ افغانستان اور پاکستان میں بھی لگ بھگ یہی صورتحال تھی۔

ترکی، سربیا، کرغستان اور ہانگ کانگ میں یہ تعداد اندازاً 62 فیصد تھی۔

ایسے ممالک جہاں اموات کی تعداد سب سے زیادہ رہی ان میں سے انڈیا اور میکسیکو میں 64 فیصد، برازیل میں 58 فیصد اور امریکہ میں 54 فیصد مرنے والے مرد تھے۔

اسی ڈیٹا سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ انفیکشن سے دونوں اصناف یکساں متاثر ہوئی ہیں۔ تو پھر مرد کیوں کووڈ 19 سے غیر متناسب انداز میں ہلاک ہو رہے ہیں؟ اور کیا چیز ہے جو عورتوں کو بہتر انداز میں بچنے میں مدد دے رہی ہے؟

مضبوط مزاحمت

کشمیر، زعفران

دنیا بھر میں لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ لڑکے پیدا ہوتے ہیں مگر نوجوانی کی عمر تک ہی لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد 50 فیصد سے زیادہ ہوجاتی ہے

بقا کے معاملے میں صنفی تفریق کم عمری میں ہی سامنے آجاتی ہے۔

دنیا بھر میں ہر 100 خواتین کے مقابلے میں 105 مرد پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر لڑکیاں ہی اپنی پہلی سالگرہ تک زندہ رہ پاتی ہیں۔

اور نوجوان ہونے تک ہی خواتین کی اپنے ہم عمر مردوں کے مقابلے میں تعداد نصف سے زیادہ ہو چکی ہوتی ہے۔

درحقیقت ہر ملک میں عورتیں مردوں کی نسبت چھ سے آٹھ سال اوسطاً زیادہ زندہ رہتی ہیں۔ اگر ایک مرد 10 برس تک پہنچتا ہے تو چار عورتیں بھی اس عمر کو پہنچ جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا وائرس اس قدر مہلک کیوں ہے؟

کووڈ 19 کے مردوں اور عورتوں پر اثرات مختلف کیوں؟

لاک ڈاؤن نے میرے اسقاط حمل کو مزید درد ناک تجربہ بنا دیا

کورونا وائرس: کیا مجھے حمل کے دوران خطرہ ہے؟

علم شماریاتِ آبادی کے ماہر ہوزے یوسٹاچیو ڈینیز آلویز نے کووڈ 19 کے برازیل کی آبادی اور معیشت پر مہلک اثرات کا جائزہ لیا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’ایک طویل عرصے سے خواتین میں زندہ رہنے کی شرح زیادہ ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ یہ ایک قدیم معمول ہے۔‘

مگر صرف یہی نہیں، بلکہ جب بات بیماریوں سے لڑنے کی آتی ہے تب بھی سائنسدانوں نے پایا ہے کہ خواتین کا مدافعتی نظام زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور ان میں مردوں کے مقابلے میں کچھ اقسام کے کینسر پیدا ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ مزید ثبوت یہ واضح کرتے ہیں کہ خواتین دل کی بیماریوں، معذوریوں اور کئی وائرل انفیکشنز کے خلاف زیادہ مزاحمت رکھتی ہیں۔

ایک تحقیقی مطالعے میں یہ پایا گیا کہ ہانگ کانگ میں 2003 کی سارس وبا (کورونا کی ہی ایک قسم) کے دوران ہلاک ہونے والے 299 افراد میں سے 57 فیصد مرد تھے۔ اسی طرح 1918 کے ہسپانوی فلو میں متاثر افراد میں سے زیادہ تر مرد تھے۔

اس فرق کی وجہ کیا ہے؟

’بہتر نصف‘

کورونا وائرس

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ خواتین عمومی طور پر ذاتی صفائی مثلاً ہاتھ دھونے میں مردوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوتی ہیں

ڈاکٹر ماؤلم اس نظریے کے صفِ اول کے حامیوں میں سے ہیں جن کے مطابق زندہ بچے رہنے کی صلاحیت کی بات آئے، تو خواتین بہتر جنس ہیں۔

اپنی بیسٹ سیلر کتاب ’دی بیٹر ہاف: آن جینیٹک سپیریئرٹی آف وومین‘ میں وہ ثبوت پیش کرتے ہیں کہ خواتین حیاتیاتی طور پر مردوں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہیں تاہم رویے اور لائف سٹائل کا بھی اس میں اہم کردار ہے۔

مثال کے طور پر خواتین مردوں کے مقابلے میں ڈاکٹر کے پاس زیادہ جاتی ہیں، سگریٹ کم پیتی ہیں اور اپنے ہاتھ زیادہ دھوتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں مردوں کا خطرناک رویے اختیار کرنے اور ایک ہی وقت میں لاحق متعدد بیماریوں کو چیک کروائے بغیر چھوڑ دینے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔

یوسٹاچیو آلویز اُن میں سے ہیں جن کا خیال ہے کہ جب کووڈ 19 سے خواتین کے صحتیاب ہونے کی اہم وجہ کئی عوامل کا مجموعہ ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’جب ہم موت کی بات کرتے ہیں تو حیاتیاتی عوامل سماجی عوامل سے کم ہی وجہ بنتے ہیں۔‘

لیکن ڈاکٹر ماؤلم جہاں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس وبا میں زندہ رہنے کی خواتین کی صلاحیت کو سمجھنے کی کوششیں ’تقریباً جائز ہیں‘ لیکن اس کے باوجود ان کا خیال ہے کہ ہمیں اس بات پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے اپریل میں نیویارک ٹائمز میں لکھا تھا کہ ’جس چیز پر غور نہیں کیا جا رہا، وہ یہ کہ کورونا وائرس مردوں کو جس غیر متناسب شرح سے نشانہ بنا رہا ہے وہ ایسی بات نھیں جس کی وضاحت نہ پیش کی جا سکے۔ ‘

’اس کے بجائے شاید یہ ایک ایسی سائنسی حقیقت کا بروقت اور انتہائی اہم مظاہرہ ہو جسے اب تک زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ہے، اور وہ یہ کہ جب زندہ رہنے کی صلاحیت کی بات کی جائے، تو مرد کمزور جنس ہیں۔‘

اور ان کا خیال ہے کہ اس کی وجہ ہماری جینز کی پروگرامنگ میں موجود ہے۔

ایکس کروموسوم کی طاقت

خلیے، کروموسوم، کورونا وائرس

انسانوں کے ہر خلیے میں کروموسومز کی 23 جوڑیاں ہوتی ہیں یعنی 46 کروموسومز ہوتے ہیں۔

ان میں سے 22 جوڑیاں مردوں اور عورتوں میں ایک ہی جیسی ہوتی ہیں۔ فرق صرف 23 ویں جوڑی میں ہوتا ہے جسے ایکس کروموسوم بھی کہا جاتا ہے۔ خواتین میں دو ایکس کروموسوم ہوتے ہیں جبکہ مردوں میں ایک ایکس اور ایک وائے کروموسوم ہوتا ہے۔

ایکس کروموسوم وائے کروموسوم کے مقابلے میں ساخت کے اعتبار سے بڑا اور زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے۔ اس میں تقریباً 1150 جین ہوتے ہیں۔ جین جینیاتی مواد کے طویل سلسلے ہوتے ہیں جو خلیے کا کام جاری رکھنے کے لیے درکار خصوصی پروٹین بناتے ہیں۔

دوسری جانب وائے کروموسوم میں 60 سے 70 جین ہوتے ہیں۔

مگر دو ایکس کروموسوم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خواتین ایکس سے منسلک پروٹینز کی دوگنی تعداد بناتی ہیں۔

اپنی پوری زندگی میں خواتین کے خلیے صرف ایک ایکس کروموسوم ہی منتخب کرتے ہیں۔ دوسری نقل کو ’ایکس اِن ایکٹیویشن‘ نامی ایک مرحلے کے ذریعے ’خاموش‘ یا غیر فعال کروا دیا جاتا ہے۔ ہر خلیہ اسی ایکس کروموسوم کو بند نہیں کرتا، اور اسی وجہ سے خواتین فائدے میں رہتی ہیں۔

اگر کسی مرد کے ایکس کروموسوم میں بیماری پیدا کرنے والا جین موجود ہے تو زیادہ امکان ہے کہ یہ بیماری ظاہر ہوگی۔

اگر کسی خاتون میں وہی بیماری موجود ہے، تو ایکس کروموسوم کی صحتمند نقل رکھنے والے خلیے ان جینز کو درست طور پر ظاہر کریں گے۔ خواتین تب بھی بیمار ہوں گی مگر زیادہ امکان یہ ہوگا کہ ان میں وہ بیماری معتدل انداز میں ظاہر ہوگی۔

کروموسوم کی ’غیر فعالی‘ سے بچنا

کورونا وائرس، جینیات

حالیہ تحقیق نے ایکس کروموسوم میں ایسے جینز کا بھی پتا چلایا ہے جو مکمل طور پر غیر فعال نہیں تھے

گذشتہ 15 سالوں میں سائنسدانوں نے ایک اور مرحلے کے بارے میں بہتر فہم حاصل کیا ہے جسے ایکس کروموسوم کی نامکمل غیر فعالی کہا جاتا ہے۔

یہ تب ہوتا ہے جب دونوں فعال اور غیر فعال ایکس کروموسومز کے جین اپنا اظہار کرتے ہیں۔

سنہ 2017 میں ہیلسنکیز انسٹیٹیوٹ فار مالیکیولر میڈیسن کے محققین کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ایکس کروموسوم کے نامکمل غیر فعال ہونے سے ایکس کروموسوم کے کم از کم 23 فیصد جینز متاثر ہوتے ہیں۔

اور فعال ایکس کروموسومز کے جین کے برعکس یہ جین پوری طرح اپنا اظہار نہیں کرتے مگر یہ ’بچ نکلنا‘ ہی اس فرق کی بنیاد ہے جس کی وجہ سے خواتین جینیاتی بیماریوں کی ایک معتدل صورت سے گزرتی ہیں۔

ڈاکٹر ماؤلم کہتے ہیں کہ یہ فرق نہ صرف خواتین کی طویل العمری کی وجہ بیان کر سکتا ہے بلکہ اس سے یہ بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ کیوں قبل از وقت پیدا ہونے والی لڑکیوں کا انتہائی نگہداشت کے دوران بچنے کا امکان ایسے لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

انھوں نے دس سال قبل زچہ و بچہ آئی سی یو میں کام کرنے کا اپنا تجربہ بی بی سی کو بتاتے ہوئے کہا کہ ’اتنی کم عمری میں ہی خواتین کے مردوں کے مقابلے میں بچنے کی زیادہ صلاحیت کے حامل ہونے سے کافی فرق پڑتا ہے۔‘

دیگر عوامل

آئی سی یو،

نوزائیدہ لڑکیوں کا آئی سی یو میں لڑکوں کے مقابلے میں بچنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے

دیگر مطالعوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ لڑکیاں پیدائش کے فوراً بعد آئی سی یو میں اس لیے زیادہ بچ جاتی ہیں کیونکہ ان کے پھیپھڑے لڑکوں کے مقابلے میں جلدی پورے تیار ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ سانس کی بیماریوں سے محفوظ رہتی ہیں جو کہ پیدائش کے فوراً بعد موت کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔

مگر اس کے علاوہ مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق کی وجہ بننے والے دیگر عوامل بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں جن میں ہارمونز شامل ہیں۔

مردانہ جنسی ہارمون ٹیسٹوسٹیرون کی بلند سطح کو خطرہ مول لینے والے رویوں اور فلو کی ویکسین کے بعد بھی مدافعتی نظام کے کمزور ردِعمل سے منسلک پایا گیا ہے۔

اس کے مقابلے میں نسوانی ہارمون ایسٹروجن میں سوجن سے لڑنے والی خصوصیات ہوتی ہیں اور یہ جسم کے مدافعتی نظام کو بہتر بناتا ہے۔

سائنسدان ایک اور پروٹین اینجیوٹینسن کنورٹنگ اینزائم 2 یا ACE2 کے کردار پر بھی تحقیق کر رہے ہیں جو کووڈ 19 کے وائرس کو جسم میں داخلی راستہ فراہم کرتا ہے اور ایکس کروموسوم میں موجود ہوتا ہے۔

چونکہ خواتین میں ایکس کروموسوم کی دو نقول موجود ہوتی ہیں اس لیے وہ ایکس کروموسوم سے منسلک بیماریوں سے کم متاثر ہوتی ہیں، چنانچہ سائنسدانوں کا نظریہ ہے کہ یہ خواتین کے کووڈ 19 سے کم متاثر ہونے کی وجوہات میں سے ایک ہو سکتی ہے۔

کیا جنس خطرے کی وجہ بن سکتی ہے؟

کورونا وائرس

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ جاننے کے لیے کہ آیا جنس کورونا وائرس سے متاثر ہونے میں کردار ادا کرتی ہیں یا نہیں، وسیع تر تحقیق کی ضرورت ہے

پہلی بار منظرِ عام پر آنے کے بعد سے کووڈ 19 سانس کی ایک بیماری سے کچھ زیادہ ثابت ہوا ہے۔

یہ دل، گردوں اور یہاں تک کہ سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ اور یہ تمام چیزیں کیوں متاثر ہوتی ہیں، اب تک سائنس اس حوالے سے خاموش ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 سے متاثر ہونے میں جنس کا کردار ہے یا نہیں، اسے جاننے کے لیے ایک وسیع تر تحقیق کی ضرورت ہے۔

اس کے لیے ممکنہ طور پر اس مرض سے سخت اور معمولی طور پر متاثر ہونے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے جینومز کی سیکوئنسنگ کرنے کی ضرورت ہوگی جس سے یہ معلوم ہو سکے گا کہ ان لوگوں میں کیا جینیاتی فرق موجود ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر غیر جینیاتی عوامل مثلاً عمر، ایک ہی وقت میں کئی بیماریوں کا موجود ہونا، رویے اور سماجی و اقتصادی حالات بالخصوص غربت کو بھی مدِنظر رکھنا ہوگا۔ کیونکہ ظاہر ہے کووڈ 19 نے لوگوں کو ان کے پیشوں اور ان کے رہن سہن کے حالات کے اعتبار سے بھی متاثر کیا ہے۔

یوسٹاچیو آلویز کہتے ہیں کہ ’وائرس کی ہلاکت خیزی کی حیاتیاتی توجیہ دلچسپ تو ہوگی، لیکن یہ محدود بھی ہوگی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp