پی ڈی ایم کا آر پار


یوں تو پی ڈی ایم کا مفہوم پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ہے، مگر بہت سے لوگ اسے پاکستان ڈکیت موومنٹ کہتے ہیں، جب میں نے ان سے پوچھا کہ ایسا کیوں تو انہوں نے اس گیارہ رکنی اتحاد کی قلعی کھول کر میرے سامنے کچھ اس طرح رکھی،

امریکی مصنف رے مونڈ ڈبلیو بیکر نے اپنی کتاب کیپیٹلزم اچیلیس ہیل میں انکشاف کیا کہ نواز شریف نے ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے دو بار اقتدار کے دوران $ 418 ملین کا مالی فائدہ اٹھایا۔

یہ کتاب نواز شریف سمیت تاریخ کے سب سے زیادہ تسلط رکھنے والے سیاسی خاندانوں کی بدعنوانی اور ان کی جائیدادیں، اور بے تحاشا دولت جمع کرنے کے بارے میں ہے۔

اس کتاب کے مطابق، 1990 میں وزیر اعظم کی حیثیت سے وزیر اعظم کے پہلے دور میں کم از کم 160 ملین ڈالر کا غبن کیا، یہ کرپشن اپنے آبائی شہر لاہور سے اسلام آباد تک شاہراہ تعمیر کرنے کے معاہدے کے دوران کی گئی۔

کم از کم 140 ملین ڈالر کا پاکستان اسٹیٹ بینکس سے غیر محفوظ قرضوں سے فائدہ اٹھایا۔ نواز شریف اور ان کے کاروباری ساتھیوں کے زیر انتظام ملوں کے ذریعہ برآمد کی جانے والی چینی پر سرکاری چھوٹ سے 60 ملین ڈالر سے زیادہ کا مال کمایا۔

کم از کم 58 ملین ڈالر امریکا اور کینیڈا سے درآمدی گندم کی ادائیگی کی قیمتوں سے اسکیم ہوئی۔ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ گندم کے معاہدے میں، شریف حکومت نے واشنگٹن میں اپنے ایک قریبی ساتھی کی نجی کمپنی کو قیمت سے کہیں زیادہ ادائیگی کردی۔ گندم کی غلط انوائسز نے لاکھوں ڈالر نقد رقم بٹوری۔

کتاب کے جائزے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”اس بدعنوانی کی حد اور وسعت اتنی حیرت انگیز ہے کہ اس نے ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگا دیا ہے۔“ نواز شریف کے دور میں، بغیر معاوضہ بینک قرض اور بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری دولت مند ہونے کے لئے پسندیدہ راستہ بنی رہی۔

اقتدار سے محروم ہونے پر، غاصب حکومت نے سب سے بڑے قرض نادہندگان میں سے 322 کی ایک فہرست شائع کی، جس میں بینکوں کو واجب الادا 4 بلین ڈالر میں سے تقریبا$ 3 بلین ڈالر کی نمائندگی کی گئی تھی۔ شریف اور ان کے اہل خانہ کو 60 ملین ڈالر میں ٹیگ کیا گیا۔

1999 میں پرویز مشرف نے تحقیقات کی، نواز شریف پر مقدمہ چلا، عمر قید کی سزا سنائی گئی، لیکن پھر 2000 میں انہیں جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ امریکی مصنف نے اپنی اس کتاب میں نواز شریف کی کرپشن کے بارے دستاویزاتی ثبوت بھی فراہم کیے ہیں۔ اس کتاب میں حدیبیہ پیپرز مل اسکینڈل کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہے جبکہ منی لانڈرنگ کے ذریعے 643 ملین روپے کا فراڈ بھی شامل ہے۔ رائیونڈ اسٹیٹ کی ڈویلپمنٹ کے نام پر قومی خزانہ سے 620 ملین لوٹے گئے تھے۔ ریمنڈ بیکر لکھتا ہے کہ نواز شریف نے بی ایم ڈبلیو گاڑیوں کی خریداری میں کرپشن کی تھی کرپشن کے ذریعے مری میں جائیداد خریدی گئی۔ منی لانڈرنگ کے لئے پاسپورٹ جعلی بنائے گئے۔

کوہ نور انرجی مل کے نام پر 450 ملین لوٹے گئے اور قانون سازی کر کے بلیک منی کو وائٹ کیا گیا جبکہ بنکوں کے 35 ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے۔ نواز شریف پر بطور وزیر خزانہ پنجاب اور بعد میں بطور وزیراعلی پنجاب اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات لگے۔ خاص کر 1988 / 89 کی آڈیٹر جنرل کی رپورٹ جس میں نواز شریف پر قومی خزانے کو کم از کم 35 ارب روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام لگا۔

وزارت عظمی کے پہلے دور میں نواز شریف پر بینکوں کے کئی سو ارب روپے کی غیر قانونی قرضے جاری کرنے ( کم از کم 675 ارب روپے ) ، کواپریٹیو سوسائٹیز اسکینڈل، گندم فراڈ، موٹر وے فراڈ اور پیلی ٹیکسی اسکیم میں فراڈ کرنے کے الزامات لگے۔ ان تمام معاملات میں نواز شریف پر کل ملا کر کم از کم 1000 ارب روپے سے زائد کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہی وجوہات کی بنا پر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت برطرف کی تھی۔

28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ پاکستان سے سزا یافتہ، سیاست ؤ حکمرانی کے لئے تاحیات نا اہل مجرم نواز شریف پر نجکاری کے عمل میں سب سے زیادہ کرپشن کرنے کے الزامات ہیں۔ سپریم کورٹ سے سزایافتہ اور نا اہل نواز شریف نے کئی اہم ادارے کوڑیوں کے مول بیچ کرخرید اس سلسلے میں متعدد لوگوں کو بطور فرنٹ مین استعمال کیا۔ ان لوگوں میں میاں محمد منشاء کا نام سر فہرست ہے۔

نواز شریف پر یہ بھی الزام ہے، انہوں نے رمضان شوگر مل اور اپنی راؤنڈ کی رہائش گاہ کے لیے اربوں روپوں سے سڑکوں کی تعمیروغیرہ جسے ذاتی امور پر سرکاری رقم خرچ کی۔

1997 میں نواز شریف نے غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس فریز کر کے لوگوں کو کم از کم 11 ارب ڈالر کا نقصان دیا۔ یہ اتنا بڑا نقصان تھا جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

سستی روٹی اسکیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس اسکیم میں قومی خزانے کو کم از کم 40 ارب روپے کا نقصان دیا گیا۔

اسی طرح لیپ ٹاپ اسکیم اور میٹرو بس پراجیکٹ میں بھی نواز شریف پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں۔ صرف میٹرو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس پراجیکٹ میں نواز اینڈ کمپنی نے کم از کم 30 ارب روپے کی کرپشن کی اور منصوبہ پر لگائی گئی اصل رقم کے اعداد و شمار چھپانے کے لیے ریکارڈ تک جلا دیا گیا۔

پاکستان میں کام کرنے والی آئی پی پیز کو نواز شریف نے اقتدار میں آتے ہی 400 ارب روپے منتقل کیے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا اصل مالک میاں محمد منشاء نہیں بلکہ نواز شریف خود ہے۔

اس کے علاوہ نواز شریف پر پاکستان سے باہر غیر قانونی جائیداد رکھنے اوراربوں روپے کے منی لانڈرنگ کے الزامات بھی ہیں۔

نواز شریف پر مختلف قومی اداروں میں غیر قانونی بھرتیا ں کرنے کا الزام ہے جن میں ایف آئی اے اور پی آئی اے شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب بھر میں اہم پوسٹوں پر اپنے پسندیدہ بندے تعئنات کروائے۔

نواز شریف نے مہنگی گاڑیوں پر درآمدی ڈیوٹی کم کروائی تاکہ وہ اور اس کے ساتھی مہنگی ترین گاڑیاں آسانی سے درآمد کر سکیں۔

انہیں غیر قانونی ہیلی کاپٹر رکھنے کے الزام میں سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ بڑے میاں صاحب کے خلاف مختلف عدالتوں اور نیب میں کئی طرح کے کیسز زیر سماعت ہیں۔

نواز شریف جب بھی اقتدار میں آتے ہیں تو اپنے رشتے اور قربی ساتھیوں میں اچھے اچھے عہدے بانٹ دیتے ہیں اور اس سلسلے میں کوئی میرٹ نہیں دیکھا جاتا۔ مثلاً اس وقت نواز شریف کے خاندان کا کوئی فرد ایسا نہیں جس کے پاس کوئی بہت بڑا عہدہ نہ ہو اور وہ سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے کی تنخواہ اور مراعات نہ لے رہا ہو۔

نواز شریف جمہوریت کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن وہ خود آمریت کی پیدوار ہیں۔ ان کو جنرل ضیاء کی فوجی حکومت سیاست میں لائی اور اس کو یہاں تک پہنچانے میں مدد دی۔ اس سلسلے میں آئی جے آئی والا معاملہ کافی مشہور ہے، جب سے ان کی حقیقت کھول کر سامنے آئی ہے لندن میں بیٹھ کرپاکستان افواج پر چڑھائی کر رہے ہیں۔

نواز شریف بارہا قوم سے کیے گئے اپنے وعدوں سے پھر گئے مثلاً آصف زرداری کی لوٹی گئی رقم واپس لانے کا معاملہ جب سوئس حکومت رقم دینے پر تیار تھی اور ان کو صرف خط لکھنا تھا تب نواز شریف نے زرداری سے اپنے حق میں تیسری بار وزیراعظم بننے کے لیے آئنی ترمیم کروا لی اور بدلے میں افتخار چودھری کے ذریعے خط والا معاملہ لٹکا دیا اور دو سال نکلوا دیے۔

اور اسی طرح کئی معاملات پر وہ دوغلا رویہ رکھتے ہیں۔ مثلاً جب غلام اسحاق خان نے بے نظیر کی حکومت کرپشن کے الزامات کے تحت گرائی تو اس نے اس اقدام کی پرزور تائید کی لیکن جب کچھ عرصے بعد اسی صدر نے اس کی اپنی حکومت انہی الزامات کے تحت گرانی چاہی تو اس نے صدر کا یہ آئینی حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

نواز شریف کے پاکستان دشمنوں سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ ان میں انڈیا اور جیو اور جنگ گروپ جیسے متنازعہ ادارے اور لشکر جھنگوی کے دہشت گرد شامل ہیں۔ ان کے علاوہ پاکستان کی چند متنازعہ ترین شخصیات جیسے عاصمہ جہانگیر، نجم سیٹھی سے بھی قریبی تعلقات ہیں اور ان کو اہم ترین عہدوں پر فائز کرتے رہے ہیں۔

نواز شریف نے اپنے دور میں پاکستان کی افغان مجاہدین کی امداد روکنے کی کوشش کی تھی ان کے علاوہ ان پر کشمیری مجاہدین سے غداری کرنے کا الزام بھی ہے۔

نواز شریف کے ہر دور حکومت میں مہنگائی، بیرونی قرضے اور ڈالر کی قیمت بے اندازہ بڑھ جاتی ہے۔ جبکہ ادارے یا تباہ ہو جاتے ہیں یا بیچ دیے جاتے ہیں۔ مثلاً آخری بار جب پرویز مشرف نے مارشل لاء لگایا تو زرمبادلہ کے ذخائر صرف 400 ملین ڈالر رہ گئے تھے اور پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ لوگ اتنے تنگ تھے کہ مارشل لاء لگنے پر لاہور میں لوگوں نے مٹھائیاں بانٹیں۔

نواز شریف پر صحافی خریدنے اور ان کو ہراساں کرنے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔

نواز شریف اکثر اہم ترین قومی اداروں کے ساتھ حالت جنگ میں ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم ادارہ افواج پاکستان کا ہے۔ جس کی وجہ سے ایک بار فوج نے ان کا تختہ بھی الٹ دیا تھا۔ ان کے علاوہ وہ سپریم کورٹ پر بھی حملہ کر چکے ہیں جبکہ کم از کم دو بار ان کی ایوان صدر کے ساتھ بھی جنگ رہی۔ جس کے نتائج بعد میں اس کو خود بھی بھگتنا پڑے۔

نواز شریف کے ہر دور میں پنجاب پولیس اسٹیٹ بن جاتی ہے اور پولیس کی جانب سے لوگوں کو ہراساں کرنے اور قتل کر دینے کے واقعات بھی عام ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ماڈل ٹاؤن کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

نواز شریف نے کئی بار کشمیر کاز کو بے پناہ نقصان پہنچایا خاص کر کارگل کی جنگ میں انہوں نے پاکستان کو شرمندہ کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

ڈاکٹر عبدالقدیر سمیت کئی لوگوں نے کہا ہے کہ نواز شریف ایٹمی دھماکے کرنے کے خلاف تھے اور کئی اہم ترین لوگوں کے پریشر پر مجبوراً دھماکے کیے۔

نواز شریف نے پاکستان کے حاضر سروس چیف آف آرمی سٹآف پرویز مشرف کا طیارہ اترنے نہیں دیا اور ان کو انڈیا بھجوانے کی کوشش کی، بعد ازاں ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

پاک ایران گیس پائپ لائن جیسا اہم نوعیت کا قومی منصوبہ نواز شریف کی ہٹ دھرمی کی نطر ہو گیا۔ جبکہ ڈیموں کے لیے نواز شریف کے پاس ہمیشہ بجٹ میں رقم نہیں ہوتی۔

نواز شریف پر ٹیکس چوری کا الزام بھی ہے۔ وہ پاکستان کی امیر ترین شخصیت ہونے کے باوجود بہت معمولی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کسی دور میں پاکستان کی مقبول سیاسی جماعت سمجھی جاتی تھی اب صرف سندھ کی ہو کر رہی گئی ہے، یہاں کا بھی اللہ ہی حافظ ہے، کراچی کے شہریؤں سمیت اندروں سندھ کے عوام پینے کے صاف پانی، پکی سڑکوں اور دیگر بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گل کے مطابق، نون لیگ اور پیپلز پارٹی بظاہر دو مخالف مگر اندر سے ایک ہیں، دونوں کے درمیان نظریات کا ڈھونگ، نوراکشتی اور سیاسی مخالفت صرف عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہے، اوپر سے جتنی مخالفت کریں کرپشن کے محاذ پر نون لیگ اورپیپلز پارٹی کا نظریہ بالکل ایک ہے، کرپشن کے لیے ایسے طریقے اختیار کیے گئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

شریف خاندان کی ٹیلی گرافک ٹرانزیکشنز (ٹی ٹیز) اور زرداری خاندان کے جعلی اکاؤنٹس کرپشن کی داستان میں قدرمشترک ہیں، نواز شریف نے لوٹ مار کی دولت کے تحفظ کے لیے 1992 ء میں قانون بنا دیا تھا، قانون یہ بنایا گیا کہ باہر سے جو بھی پیسہ لائے گا اس سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی، دونوں کی کرپشن کے طریقہ کار کو اگر عکس بند کیا جائے تو سپرئیٹ سیزن بن سکتا ہے، جب ان عناصر سے ناجائز دولت کا پوچھا جاتا ہے تو سادہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے کہتے ہیں کرپشن ثابت کرو، قانون نے ان کا پیسے سے تعلق ثابت کرنا ہوتا ہے، ذرائع بتانا ان کا کام ہے۔

ٹی ٹیز اور جعلی اکاؤنٹس سے باہر بھیجے گئے پیسے اور ان سے خریدی گئی جائیدادوں سے یہ انکار نہیں کر سکتے۔ زرداری صاحب پر جعلی اکاؤنٹس کی بدولت فرد جرم بھی عائد ہو چکی ہے، سندھ میں وازات بانٹنے کا حال تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں، سہیل انور سیال جو سندھ کے وزیر داخلہ رہ چکے ہیں ان کی زرداری صاحب کے پاؤں چھؤتی اور ادی فریال کے ہینڈبیگ لٹکائے تصاؤیر سوشل میڈیا کی زینت رہی ہیں، سندھ کی بیؤرو کریسی میں بھی زرداری صاحب کی بہت چلتی ہے خیر سے بد نامے زمانہ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کو اپنا بچہ بھی کہے چکے ہیں، ان کی بہن دھمکیاں دے کر ووٹ لیتی نظر آئیں ہیں بدنامے زمانہ gangster عذر بلوچ کے تانے بانے بھی زرداری صاحب سے ملتے ہیں جعلی اکاؤنٹس اور شؤگر ملز مالکان سندھ کے بے تاج بادشاہ ہیں جبکہ ؤفاق پر بھی براجمان رہے ہیں مگر آج تک اپنے سالے مرتضی بھٹو اور بی بی شہید کے قاتلوں کا سراغ نہیں لگاپائیں ہیں، عؤام کو سوچنا ہوگا کیا یہ لوگ پی ڈی ایم کا ڈھول بجا کر عوام کی فلاح کر سکتے ہیں جبکہ معتدد بار ؤفاق اور تاحال صوبہ سندھ کے حکمران ہیں، ان آزمائے ہوئے لوگوں نے ایسا کیا عوام کے لئے اچھا کیا ہے جو اب کر دیں گے، یقیناً پاور میں آنے کا مقصد اپنی دونمبریوں کی پردہ پوشئی اور مزید لوٹ مار کی چاہ ہے، کیونکہ ان لوگؤں کو یہ ہی آتا ہے، دنیا کارونا کی وجہ سے خؤف کا شکار ہے، یہ لوگ اپنے مفادات کے تحت جلسے کر رہے ہیں تا کہ اللہ نہ کرے پاکستان کا حال سرحد پار جیسا ہو، دوسری جانب رواں ماہ زداری صاحب کی دختر بختاور صاحبہ کی منگی کی تقریب منگنی معنقد کی گئی جس کے دعوت نامہ میں مہمانوں سے گزارش کی گئی کہ پہلے اپنے کورونا ٹیسٹ کی منفی رپورٹ اسکین کر کے بلاول ہاؤس بھیجیں، جس کے بعد انہیں تقریب میں شرکت کی اجازت ملے گی۔

جبکہ ذاتی مفاد پر کیے جانے والے جلسے، جلوس، ریلیوں میں کسی قسم کے ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا گیا، یعنی ان کی نظر میں عوام کی حیثیت ٹشوپیپر یا کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ ووٹ کو نہیں بلکہ اپنے مفادات اور جعلی بینک اکاؤنٹس کو عزت دینے کے حامی ہیں، ازلی دشمن بھارت سے دوستی، تحائف، بزنس ڈیل اور ساتھ بیٹھ کر آلو گؤشت کھانے کے شؤقین ہیں، ان کی نظر میں ملک کی نہیں بلکہ اپنی دونمبری کی عزت ہے، ان لوگوں کو ریلیف نہیں بلکہ سیٹھ ؤقار کے فیصلے کے مطابق سلوک کرنا چاہیں۔

اب بات کرتے ہیں جے یو آئی ف کی سب سے پہلے بات کرتی چلوں کہ مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کیوں کہا جاتا ہے اس کے معتلق معروف صحافی و تجزیہ کار ہارون الرشید نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مجلس عاملہ کے اجلاس میں پیش آنے والا حیران کن واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ یہ سب کچھ انہیں مجلس عاملہ کے ایک ممبر نے بتایا ہے، مجلس عاملہ کے اجلاس میں جے یو آئی کے امیر سے پوچھا گیا کہ ڈیزل کا پرمٹ آپ نے لیا ہے؟

جس پر مولانا فضل الرحمان نے اعتراف کیا اور کہا کہ مجاہدین کو پیسے چاہیے تھے، میں نے وہ پرمٹ فروخت کر کے انہیں پیسے دے دیے۔ ”مولانا فضل الرحمن کو جب سے 2018 الیکشن میں شکست حاصل ہوئی ہے وہ تب سے شدید کوفت اور غصے کا شکار ہیں آج تک ان کی کسی سیاسی حکمت عملی کا کیا لائحہ عمل رہا ہے وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جے یو آئی ف کے آزادی مارچ کی ہی مثال لے لیں، وزیر اعظم عمران خان سے استعفی کا مطالبہ تو کیا لیکن کن بنیادوں پر یہ آج تک مولانا صاحب بھی واضح نہیں کر پائے، پھر پی ڈی ایم کے سربراہ بنکر بھی کوئی کامیابی حاصل نہ کر پائے، ہر حکومت کا حصہ مولانا فضل الرحمن آج کل سیاسی طور پر مکمل بے روزگار ہیں اسی وجہ سے اشتعال کا شکار ہیں، حکومت میں رہنے کا لالچ ہی انہیں عورت کی حکومت کے مخالف ہونے کے باوجود محترمہ بے نظیر کی کابینہ کا ممبر بنے، 2018 کی تاریخی شکست کے بعد مولانا کی تو دنیا ہی اجڑ گئی اور انہوں نے 14 اگست تک نہ بنانے کا اعلان کر کے بھارت سے آنے والے اس ٹولے کی یاد تازہ کردی جو ابتدا میں پاکستان کے مخالف تھے اور قائداعظم کو قاتل اعظم کہتے تھے مگر پاکستان بنتے ہی یہاں براجماں ہو گئے، اپنی آرمی رکھنے والے مولانا کی بھارت کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کے ساتھ تصویر بھی سوشل میڈیا کا حصہ رہی ہے، آج کل جے یو آئی ایف کے امیر، نجی آرمی انصار اسلام کے چیف آف آرمی اسٹاف اور سربراہ پی ڈی ایم نیب کے رایڈر کی زد میں ہیں۔

رواں سال اکتوبر کو حزب اختلاف نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے استعفی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی سیاست کا آغاز کیا، مزے کی بات استعفے کا مطالبہ ہرگز بھی بڑھتی مہنگائی یا بے روزگاری نہیں ہے بلکہ ”مجھے کیوں نکالا“ کا دکھ ہے، جس کا اظہار میاں صاحب کی جانب سے بارہا ہوتا ہے، اپنی غلطیوں اور وزیراعظم ہو کر بیٹے سے معمولی تنخواہ لینے کی چھوٹی حرکت کا غصہ اداروں پر نکالنے والے نواز شریف صاحب اپنے گیٹ نمبر چار کے روحانی اجداد کی کرم فروانیوں کو بھول کر ناخلف بیٹے بنکر ملک کے راز اگل رہے ہیں جس پر بھارت شادیانے بجا رہا ہے بلکہ وہ تو میاں صاحب کو ”اپنا آدمی“ بھی کہہ چکا ہے، پھر میاں صاحب کا مودی کو بنا ویزے بلانا، قمیتی تحائف کا تبا دلہ کر نا کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، خواجہ آصف کے بعد ایاز صادق کے توہین قومی سلامتی بیانات سب کو یاد ہیں، اس پر نادان سمجھ رہے ہیں عوام ان کو سنجیدہ لیں گے، یعنی حد ہے نا سمجھی کی، دخترنواز اور بیگم صفدر اعوان تیرہ دسمبر کو یوم آر پار کہہ رہی تھیں، یعنی حکومت پر آری کا دن جو پاکستان کی خوش قسمتی سے پی ڈی ایم پر کاری ضرب ثابت ہوا، اہالیان لاہور نے ثابت کر دیا مینار پاکستان، مادر وطن کی بقا کا ضامن ہے، چوروں کی داد رسی کے لئے لاہور والوں کے پاس وقت نہیں ہے، پھر جس تحریک کا سربراہ ہی 14، اگست نہیں مناتا ہو اور نہ ہی افواج پاکستان کو مانتا ہو وہ کیسے ملک کے خیر خواہ ہوسکتے ہیں۔ عوام کو سمجھ آ گئی ہے، جس تحریک میں اچکزئی جیسا منتشر ذہین کا مالک ہو وہ کیسے قومی امور پریگانیت سے کام کر سکتے ہیں، اب صورتحال یہ ہے،

13 دسمبر کو آرپار کرنے والے لانگ مارچ تک آ گئے ہیں، استعفی جمع کرانے والے اسپیکر کے بجائے اپنے قائدین کو پیش کر رہے ہیں۔ یعنی تیرہ دسمبر 2020 پی ڈی ایم کا یوم آر پارتھا قوم کو پاکستان ڈکیٹ موومنٹ کی شکست مبارک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).