پی آئی اے کی رضا کارانہ ریٹائرمنٹ سکیم (وی ایس ایس): کیا اس سے مالی بحران پر قابو پایا جا سکے گا؟


پی آئی اے
'اگر میں پی آئی اے سے علیحدگی اختیار کرتا ہوں تو مجھے اس کا اچھا معاوضہ ملے گا۔ میرے لیے تو یہ ایک اچھا آپشن ہے۔ میں نے اس ادارے کو اپنی زندگی کے 26 سال دیے ہیں۔ اور میرے پاس تقریباً پانچ دن ہیں فیصلہ کرنے کے لیے، جو شاید میں کرلوں۔‘

یہ کہنا ہے پی آئی سے منسلک ایک ملازم کا جو حالیہ دنوں میں پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز کی رضا کارانہ ریٹائرمنٹ سکیم (وی ایس ایس) متعارف کروائے جانے کے بعد سے اس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن کئی لوگ شاید ایسا نہ کرنا چاہیں۔۔۔ اس صورت میں ان کے پاس ادارے سے نکلنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوگا۔ میری ریٹائرمنٹ میں اب بھی دس سال باقی ہیں۔ یک مشت پیسے ملنے سے میرے حالات بہتر ہو جائیں گے اور شاید میں کہیں اور چلا جاؤں گا۔ اس وقت اچانک سے بہت سے راستے نظر آرہے ہیں۔’

اگر تھوڑا پیچھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پی آئی اے کی انتظامیہ نے کئی بار واضح کیا ہے کہ وہ شدید مالی بحران سے دو چار ہیں۔ اس حوالے سے ادارے کی طرف سے پہلے بھی کئی مرتبہ ایسی سکیمیں متعارف کروائی گئی ہیں جن سے توقع کی گئی کہ یہ ادارے کو اس بحران سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔

تاہم اس بارے میں چند سوالات ہیں جن کا جواب جاننا بھی ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آیا رضا کارانہ ریٹائرمنٹ سکیم پی آئی اے کے مسائل کا حل ہوسکتی ہے؟

یہ بھی پڑھیے

پی آئی اے نے ایمریٹس کو سروس شروع کرنے میں کیسے مدد دی؟

یورپی یونین ائیر سیفٹی ایجنسی کے پی آئی اے پر کیا اعتراضات ہیں؟

پی آئی اے کے پانچ بڑے مسائل

وی ایس ایس سکیم کیا ہے اور پی آئی اے اس کا استعمال کیوں کر رہی ہے؟

پی آئی اے کے سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک کا کہنا ہے کہ وی ایس ایس سکیم ان کی جامع اصطلاحات کا حصہ ہے جو پی آئی اے کو معاشی طور پر مستحکم بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سکیم کا آئیڈیا پہلی بار 2018 میں حکومت کو پیش کیا گیا تھا جس کے بعد تمام متعلقہ اداروں سے منظوری کے بعد اب اسے ملازمین کو پیش کیا گیا ہے۔

سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک کا کہنا ہے کہ اس سکیم سے ملازمین کا فائدہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سکیم کے ذریعے پہلے سال میں 4.5 ارب کی بچت ممکن ہوسکے گی۔ جبکہ ضروری اور غیر ضروری ملازمین کی تقسیم سے پچیس فیصد فائدہ ہوسکے گا۔

14 دسمبر کو پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کو اپنے بزنس پلان کے بارے میں ایک رپورٹ جمع کروائی۔

یہ رپورٹ پاکستان کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ادارے سے طلب کی تھی تاکہ ادارے کے معاشی پلان اور اس کے مستقبل کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکیں۔ پی آئی اے نے 14 دسمبر کو جمع کی گئی رپورٹ میں بتایا ہے کہ خسارے کے باعث ادارہ اپنے ملازمین کی تعداد کو 13000 سے کم کر کے 7500 تک لانا چاہتا ہے۔

ملازمین

اس رپورٹ کے مطابق ایسا دو طریقوں سے ممکن بنایا جا رہا ہے: ایک طرف ملازمین کے لیے ادارے سے رضاکارانہ طور پر علیحدہ ہونے کی سکیم متعارف کروائی جائے گئی جسے ’والنٹری سیپریشن سکیم‘ (وی ایس ایس) کہا جاتا ہے۔ اس سکیم کو 58 سال سے کم عمر کے افراد اپنے لیے منتخب کرسکتے ہیں۔ اس سکیم کے ذریعے 2500 ملازمین کو پی آئی اے آپشن دے گا کہ انھیں 'عزت و احترام کے ساتھ' ادارے سے علیحدہ کر دیا جائے۔

دوسری جانب، بہت ضروری اور غیر ضروری سروسز کے تحت ملازمین کو علیحدہ کرنے کی سکیم متعارف کرائی گئی ہے۔ اس میں ائیرپورٹ سروسز سٹاف شامل ہیں جن میں بالخصوص کچن، مینٹیننس اور انجنئیرنگ کے کچھ سٹاف کو بھی علیحدہ کیا جائے گا۔

اس سکیم کے تحت معاوضے کی ادائیگی، جمع شدہ چھٹیاں، گریجوٹی، پراوڈنٹ فنڈ، میڈیکل اور 65 سال تک کی پینشن کی یک مشت ادائیگیوں پر مشتمل ہوگی۔

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس طرح ایئرپورٹ سروسز کے 700 ملازمین ہیں جبکہ انجینئیرنگ کے 2500 سے زیادہ ملازمین ہیں۔ ‘تو ایک ساتھ یہ تعداد بہت حد تک کم ہو جائے گی اور ہمارے آپریشن پر جو بوجھ ہے وہ کم ہو جائے گا۔’

ترجمان کے مطابق ملازمین 22 دسمبر تک خصوصی طور پر قائم ڈیسک پر وی ایس ایس درخواستیں کوآرڈینیٹرز کو جمع کرواسکیں گے جس کے بعد یہ ملازمین 31 دسمبر 2020 تک پی آئی اے سے علیحدگی حاصل کرلیں گے۔

پی آئی اے کے ملازمین کے پاس کیا کوئی قانونی آپشنز موجود ہیں؟

اب پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ میں ملازمین کو نکالے جانے کے حوالے سے قیاس آرائیاں اور بحث جاری ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ایسا کرنے سے تقریباً 5500 ملازمین فارغ ہو جائیں گے۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے دو روز قبل ہونے والی سماعت کے دوران جمع کروائی گئی رپورٹ اور پی آئی اے کی اب تک کی کارکردگی کو غیر مطمئن قرار دیا ہے۔ تاہم پی آئی اے کے ترجمان کا مہنا ہے کہ اس اقدام سے ایئر لائن کو معاشی ریلیف ملے گا۔

پی آئی اے

کراچی سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر صلاح الدین احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ کئی اداروں نے ماضی میں بھی وی ایس ایس سکیم کا استعمال کیا ہے مثلاً یونائیٹڈ بینک اور حبیب بینک تاہم پی آئی اے میں اس سکیم کا اطلاق کس طریقے سے کیا جائے گا، اس کے بارے میں ہر ادارے کے مختلف قوانین موجود ہیں جن کا ذکر ملازمین کے کانٹریکٹ میں بھی کیا جاتا ہے۔

‘دیگر سرکاری ملازمین کے برعکس، پی آئی اے کے ملازمین کے تحفظ کے لیے قوانین موجود نہیں ہیں۔ یعنی کہ اگر کسی سرکاری ملازم کو پیکج دیا جائے اور وہ اس کو قبول نہ کرے لیکن ادارہ پھر بھی اسے نکالنے پر اڑ جائے تو عدالت تک بات جاسکتی ہے۔ لیکن پی آئی اے کے ملازمین کے پاس پیکج قبول کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ یعنی اگر انھیں نکال دیا جائے تو ان کے لیے مشکل پیدا ہو جائے گی۔’

انھوں نے کہا کہ وی ایس ایس سکیم زیادہ تر تب متعارف کروائی جاتی ہے جب کوئی ادارہ بڑی تعداد میں لوگوں کو نکالنا چاہتا ہو۔ ’اب اگر آپ بغیر کوئی مقدمہ کیے چھوڑ کر چلے جائیں تب تو ٹھیک ہے، آپ کو ایک پرکشش سا پیکج دے دیا جائے گا۔ لیکن جو رہ جاتے ہیں، انھیں آج نہیں تو کل فارغ کر دیا جاتا ہے۔’

بیرسٹر صلاح الدین احمد کے مطابق ایسے مقدمات اکثر عدالتوں تک بھی پہنچتے ہیں لیکن اس بات کا انحصار وی ایس ایس کی شرائط و ضوابط اور ادارے کے انفرادی قوانین پر بھی ہوتا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسے مقدمات کے نتائج بھی ہر کیس میں مختلف ہوتے ہیں۔ ‘پی آئی اے کے ملازمین کے پاس بنیادی قوانین کا تحفظ نہیں ہے۔ جس کے نتیجے میں ان کے پاس تاحال کوئی اور آپشن موجود نہیں ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp