ترکی، اسرائیل تعلقات: کیا ترک سفیر کی نامزدگی سے دونوں ممالک دوبارہ ایک دوسرے کے قریب آ جائیں گے؟


رجب طیب اردوگان
بین الاقوامی سطح پر اسرائیل پر کڑی تنقید کرنے اور فلسطینیوں کے حقوق کی بات کرنے والے دائیں بازو کے مسلمان رہنما اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی حکومت نے اسرائیل سے گذشتہ دو سال سے منقطع سفارتی تعلقات یکطرفہ طور پر بحال کرنے کا اچاناک اعلان کیا ہے۔

ترکی نے چند روز قبل اسرائیل کے لیے اپنا سفیر نامزد کیا ہے۔ 2018 میں غزہ میں فلسطینی مظاہرین کے خلاف پرتشدد اسرائیلی کارروائیوں کے ردعمل میں ترکی نے اپنے سفیر کو تل ابیب سے واپس بلا لیا تھا۔ یہ مظاہرے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے کے خلاف کیے جا رہے تھے۔

ترک رہنما جو اسرائیل کو ’دہشت گرد اور فلسطینی بچوں کا قاتل‘ قرار دے چکے ہیں ان کی طرف سے اپنا سفیر اسرائیل بھیجنے کے فیصلے کی حکمت اور محرکات کو سمجھنے کے لیے حالیہ واقعات اور اسرائیل اور ترکی کے تعلقات کی طویل تاریخ کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

ترکی کی جانب سے اپنے سفیر کی نامزدگی کا فیصلہ امریکہ کی جانب سے اس پر تجارتی پابندیاں عائد کیے جانے کے ایک دن بعد سامنے آیا۔

روسی ساخت کے جدید ترین میزائل دفاعی نظام ایس 400 کی خریداری پر امریکہ نے اس سال کے شروع میں ترکی کو جدید ترین ایف 35 امریکی لڑاکا طیاروں کی فروخت اور ترکی کی فضائیہ کے ہوا بازوں کا تربیتی پروگرام سیمت کئی اور معاہدوں کو منسوخ کر دیا تھا۔

صدر اردوغان کی حکومت نے امریکی دباؤ کے باوجود روسی میزائل شکن نظام کی خریداری سے باز رہنے سے انکار کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

میزائل سسٹم خریداری پر امریکی پابندیاں، ترکی کی جوابی اقدام کی تنبیہ

اسرائیلی وزیر اعظم اور سعودی ولی عہد کی ملاقات کی خبریں، سعودی عرب کی جانب سے تردید

مراکش کا اسرائیل کو تسلیم کرنا خطے پر کیسے اثر انداز ہو گا؟

اس پاداش میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے جاتے جاتے یورپ اور امریکہ کے دفاعی اتحاد نیٹو کے اہم رکن ترکی پر پابندیاں عائد کر دیں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ اقدام جو بائیڈن کی آنے والی حکومت کے لیے خارجہ پالیسی میں نئی الجھنوں کا باعث بن سکتا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں نئی صف بندیاں اور ‘جیو سٹریٹیجک’ تبدیلیاں ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہیں جب دنیا کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے انسانی تاریخ کے ایک پر آشوب دور سے گزر رہی ہے۔

دنیا بھر کے ملکوں کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور عرب ممالک کے لیے تیل پر دنیا کے کم ہوتے ہوئے انحصار کی وجہ سے اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔ عرب ممالک معاشی استحکام کی سعی میں اپنی روایتی پالیسیوں پر نظرثانی کرتے اور اپنے لیے نئے معاشی امکانات اور مواقع پیدا کرنے کی فکر میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔

مزید براں امریکہ میں سیاسی تبدیلی آ رہی ہے اور نو منتخب صدر جو بائیڈن کی حکومت جنوری کی 20 تاریخ کو اقتدار سنبھالنے والی ہے۔

جو بائیڈن

امریکہ میں ڈیموکریٹ لیڈر جو بائیڈن 20 جنوری کو اپنا صدارتی عہدہ سنبھال لیں گے

نئی امریکی انتظامیہ سے تعلق ٹھیک کرنے کے لیے پیش بندی؟

اسرائیل کے اخبار ‘ٹائمز آف اسرائیل’ نے ترکی کے اس فیصلے کی خبر ہی میں اسے ترکی کی طرف سے آنے والے دنوں میں امریکہ سے اپنے تعلقات ٹھیک کرنے کی پیش بندی قرار دیا ہے۔

اسرائیل کے ایک اور اخبار ’یروشلم پوسٹ‘ نے 13 دسمبر کو ترکی کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی خبروں کے حوالے سے لکھا کہ ترکی اسرائیل سے تعلقات بحال کر کے نئی امریکی انتظامیہ کے سامنے اپنے آپ کو ‘گُڈ کاپ’ کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے تو دوسری طرف ’اسرائیل کو اپنے اتحادیوں متحدہ عرب امارات اور یونان سے دور کرنا چاہتا ہے۔‘

مشرق وسطیٰ کے امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار بھی اس بات پر متفق ہیں کہ ترکی نے یہ فیصلہ نئی امریکہ انتظامیہ سے مذاکرات اور بات چیت کے لیے گنجائش پیدا کرنے اور ترکی پر چاروں طرف سے بڑھتے ہوئے دباؤ سے نکلنے کے لیے کیا ہے۔

یروشلم میں مقیم تجزیہ کار اور مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر صحافی ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ خطے کے مجموعی حالات میں ‘ترکی میں الگ تھلگ رہ جانے کا احساس شدت سے محسوس کیا جا رہا تھا۔‘

اس ضمن میں انھوں نے بحیرہ احمر میں تیل اور گیس کی تلاش کے معاملے پر قبرص اور یونان سے ترکی کے جھگڑا کی طرف اشارہ کیا۔ اس جھگڑے میں فرانس اور متحدہ عرب امارات عملی طور پر قبرص اور یونان کا ساتھ دے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ انھوں نے لیبیا اور شام کے معاملات کی طرف بھی اشارہ کیا جہاں ترکی کو مصر، سعودی عرب متحدہ عرب امارات، فرانس کے علاوہ روس سے بھی مخالفت درپیش ہے۔

مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر اور تجزیہ کار برطانیہ کی باتھ یونیورسٹی میں پروفیسر ڈاکٹر افتخار ملک کا کہنا ہے کہ امریکہ میں جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ترکی امریکہ سے اپنے تعلقات ٹھیک کرنا چاہتا ہے اور اسی لیے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کر کے اس نے راہ ہموار کی ہے۔

ڈاکٹر افتخار ملک کا خیال ہے کہ رجب طیب اردوغان نے امریکہ کی نئی انتظامیہ کو خصوصی طور پر اور دنیا کے دیگر ممالک کو عمومی طور پر یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ترکی خطے کا ‘بیڈ گائے’ یا برا آدمی نہیں ہے۔

اسرائیل میں ترکی کے نئے سفیر کون ہیں؟

چالیس سالہ افق التاس جو ترکی کی وزارت خارجہ کے تحت قائم سینٹر آف سٹریٹجک ریسرچ کے چیئرمین ہیں ان کو رجب طیب اردوغان نے اسرائیل میں ترکی کی سفارت کے لیے چنا ہے۔

ہریندرا مشرا کے مطابق افق التاش کا شمار رجب طیب اردوغان کے قریبی رفقا اور معتمدین میں ہوتا ہے۔

افق التاش یروشلم کی ہیبرو یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں اور عبرانی زبان اور مسئلہ فلسطین پر عبور رکھتے ہیں۔ اسرائیل میں شائع ہونے والے اخبار دی ٹائمز آف اسرائیل نے افق التاش کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ‘نہایت مہذب، سمجھدار اور فلسطینیوں کے ہمدرد’ ہیں۔

ہریندر مشرا نے بتایا کہ فلسطینی عوام کی طرف سے افق التاش کی تعیناتی کو، جو سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہے اور وہ کوئی ‘کیریئر ڈپلومیٹ’ نہیں ہیں، مثبت انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔ انھوں نے یہاں اس بات کی بھی یاد دہانی کرائی کے ترکی اس سال دو مرتبہ حماس کی قیادت کی میزبانی اور ان کے موقف کی تائید کر چکا ہے۔

ترک سفیر کی تعیناتی کے اعلان کے بعد جو سوال سیاسی اور سفارتی لحاظ سے بہت اہم اور حساس نوعیت کا ہے اس کا براہ راست تعلق یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے سے ہے۔

ہریندر مشرا کے مطابق نئے ترک سفیر تل ابیب میں ہی تعینات ہوں گے گو کہ مشرقی یروشلم میں ترکی کا ایک قونصل خانہ موجود ہے جو 1948 سے پہلے سے وہاں موجود ہے۔

استنبول

ڈاکٹر افتخار ملک کے مطابق ترک سفیر کو یروشلم میں تعینات نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ قدم یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا۔

ترکی نے اسرائیل کو کب اور کیسے تسلیم کیا تھا؟

ترکی اور اسرائیل کے تعلقات کی ابتدا اسرائیل کے وجود میں آنے کے فوراً بعد ہی ہو گئی تھی جب مسلمانوں کی اکثریت والے تمام ممالک میں ترکی نے 1949 میں سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ترکی نے اقوام متحدہ میں فلسطینی علاقوں کی تقسیم کی مخالفت کرنے کے باوجود اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کوئی تعمل محسوس نہیں کیا تھا اور اس کی بڑی وجہ مورخین کی نظر میں ترکی کا سیکولر تشخص تھا۔

دونوں ملکوں کے تعلقات جغرافیائی قربت اور مشترکہ مفادات کے باعث معاشی، سیاحتی، تجارتی اور دفاعی شعبوں تک پھیلتے گئے۔

لیکن اسرائیل کے وجود میں آنے سے قبل سلطنت عثمانیہ اور یہودیوں کے باہمی روابط کی داستان بہت طویل ہے۔

ڈاکٹر افتخار ملک جو خطے کی تاریخ کے مطالعے کے علاوہ خطے کی سیاحت کا بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں انھوں نے مشہور برطانوی مورخ فلپ مانسیل کی کتاب ‘کونسٹیٹائن دی سٹی آف ورلڈ ڈیزائر’ کے حوالے دیتے ہوئے ایک بہت دلچسپ تاریخی واقع بیان کیا۔

فلپ مانسیل نے تحریر کیا ہے کہ یہودیوں کی علیحدہ ریاست کا نظریہ دینے والے مفکر تھیوڈور ہرزل عثمانی خلیفہ عبدالمجید سے اس وقت ملے جب سطلنت عثمانیہ یورپی طاقتوں کے قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی اور ترکی کو یورپ کا ’مردِ بیمار‘ کہا جاتا تھا۔

مفکر تھیوڈور ہرزل نے 17 مئی 1901 کو عثمانی خلفیہ سلطان عبدالمجید کے دربار تک رسائی حاصل کی اور سلطنت عثمانیہ کے تمام قرضے ادا کرنے کی پیشکش کی بشرطیکہ سلطنت عثمانیہ فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری کے بارے میں شاہی فرمان جاری کر دیں۔

لیکن عثمانی خلیفہ نے یہ پیشکش رد کرتے ہوئے کہا کہ اگر انھوں نے یہ کر دیا تو فلسطینیوں کی نسلیں ترک قوم کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔

اس کے علاوہ تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ اندلس میں جب مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوا اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودیوں کا بھی قتل عام کیا جا رہا تھا تو اس وقت عثمانی خلیفہ سلطان بایزد نے ترک بحریہ کے جہاز بھیج کر ہزاروں کی تعداد میں یہودیوں کو نکالا تھا جو بعد میں سلطانت عثمانیہ کے تحت آنے والے یورپ اور شمالی افریقہ کے علاقوں میں نہ صرف آباد ہوئے بلکہ پھلے پھولے اور خلافت عثمانیہ کے اعلیٰ عہدوں تک پہنچنے میں بھی کامیاب ہوئے۔

ڈاکٹر افتخار ملک کے مطابق ان تاریخی حقائق کی وجہ سے ’یہودی آج بھی اپنے دلوں میں ترکوں کے بارے میں کہیں نہ کہیں خیر سگالی کے جذبات رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر افتخار ملک نے بتایا کہ یورپ میں یہودیوں کا سب سے بڑا قبرستان سرائو میں ہے جہاں قبروں کے کتبوں پر لکھے نام ہسپانوی ہیں۔

ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ

مسئلہ فلسطین شروع دن ہی سے اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات میں مرکزی نکتہ رہا ہے۔ ماضی میں تین مرتبہ ترکی اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات کو نچلی سطح پر لانے یا منقطع کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ تینوں مرتبہ اس کی وجہ اسرائیل فلسطین تنازع ہی رہا۔

سب سے پہلے سنہ 1956 میں نہر سوئز کے معاملے پر اسرائیل جب برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی سے صحرائے سینا پر جارحیت کا مرتکب ہوا تو ترکی نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے سفارتی تعلقات کی سطح کو گھٹا دیا۔

اس کے بعد 1958 میں اس وقت کے اسرائیل وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان اور ترکی کے صدر عدنان میندریس کے درمیان ایک خفیہ ملاقات ہوئی اور دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی اور انٹیلی جنس تعاون قائم کرنے پر اتفاق ہوا۔

سنہ 1980 میں اسرائیل کی طرف سے مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا گیا تو ترکی نے دوبارہ اپنے سفارتی تعلقات کو گھٹا لیا۔ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات سرد مہری کا شکار رہے لیکن 90 کی دہائی کے اوائل میں اوسلو امن معاہدے کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ تعلقات بحال ہو گئے۔

اس دوران ان دونوں ملکوں کے تعلقات جنھیں ’زبردستی کی شادی‘ قرار دیا جاتا تھا بغیر کسی بڑی الجھن کے چلتے رہے اور باہمی تجارت اور دفاعی شعبے میں تعاون کے کئی معاہدے بھی ہوئے۔

جنوری 2000 میں اسرائیل نے ترکی سے پانی خریدنے کا ایک معاہدہ کیا لیکن یہ معاہدہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ اس کے بعد اسرائیل اور ترکی کے درمیان کئی دفاعی معاہدے بھی ہوئے جن میں ترکی کو ڈرون اور نگرانی کے آلات فراہم کرنے کا ایک معاہدہ بھی شامل تھا۔ دفاعی شعبے میں تعلق کی بڑی وجہ ترکی کی دفاعی ضروریات اور اسرائیل کو اپنے دفاعی ساز و سامان بیچنے کے لیے خریدار کی تلاش تھی۔

ترکی میں نومبر سن 2002 میں رجب طیب اردوغان کی دائیں بازو کی جماعت جسٹس اور ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) اقتدار میں آئی تو ان تعلقات میں نیا موڑ آنا شروع ہوا۔ سنہ 2005 میں طیب اردوغان نے اسرائیل کا دورہ بھی کیا اور اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرت کو ترکی کے دورے کی دعوت بھی دی۔

دسمبر سنہ 2008 میں حالات نے ایک اور کروٹ بدلی اور اسرائیل وزیر اعظم شمعوں پیریز کے انقراہ کے دورے کے تین دن بعد ہی اسرائیل نے غزہ میں ‘آپریشن کاسٹ لیڈ’ کے نام سے چڑھائی کر دی۔ حماس سے ہمدری رکھنے والے رجب طیب اردوغان کو اسرائیل کی اس کارروائی سے شدید دھچکا لگا اور انھوں نے اس کو ’صرییحاً دھوکا‘ قرار دیا۔

سنہ 2010 میں غزہ کے اسرائیلی فوج کے محاصرے کے دوران ماروی مرمرا کا واقع پیش آیا۔ ترکی کی ایک انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے سمندری راستے کے ذریعے امداد لے جانے والے ماروی مرمرا نامی بحری جہاز پر اسرائیلی فوج نے دھاوا بول دیا۔ اس یلغار میں دس ترک شہری ہلاک ہوئے۔

اس واقع کے بعد پانی سر سے گزر گیا اور ترکی اور اسرائیل کے تعلقات ختم ہو گئے۔

امریکی کوششیں

امریکہ نے اس خطے میں اپنے دو اتحادی ملکوں میں کشیدگی کو کم کرنے اور سفارتی تعلقات بحال کرانے کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ رجب طیب اردوغان نے تین شرائط سامنے رکھیں جن میں ماروی مرمرا پر حملے پر اسرائیل سے معافی مانگنے، حملے میں ہلاک ہونے والوں کو معاوضہ ادا کرنے اور غزہ کا محصارہ ختم کرنا شامل تھا۔

اسرائیل کے لیے سب سے کڑی شرط معافی مانگنا تھا۔ اسرائیل بھی ترکی سے حماس کے چند سرکردہ رہنماؤں کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کر رہا تھا۔

ماری مرمرا

ترکی کا جہاز جس پر اسرائیلی فوج نے دھاوا بول دیا تھا

امریکہ کی طرف سے کی جانے والے کوششوں سے مئی 2013 میں براک اوباما نے رجب طیب اردوغان اور بنیامین نیتن یاہو کے درمیان فون پر بات چیت کرائی۔ ٹیلی فون پر ہونے والی اس بات چیت میں بنیامین نیتن یاہو ترکی سے معافی مانگنے اور حملے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو معاوضہ ادا کرنے پر تیار ہو گئے۔

اس کے باوجود خطے میں رونما ہونے والے دیگر واقعات کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوتی رہی اور آخر کار سنہ 2016 میں دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات بحال ہوگئے۔

یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا امریکی اعلان

تاریخ کا پہیہ آگے بڑھا اور دسمبر سنہ 2017 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قوانین سے متصادم ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کے خلاف فلسطینی میں ہونے والے احتجاج میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں درجنوں فلسطینیوں کی ہلاکت اور دو ہزار کے قریب شہریوں کے زخمی ہونے کے واقع کے بعد ترکی نے اسرائیل سے اپنے سفارتی روابط توڑ دیے۔

رجب طیب اردوغان نے نہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے پر احتجاجاً تل ابیب سے ترکی کے سفیر کو تو واپس بلایا بلکہ اسرائیل کے سفیر کے ساتھ ساتھ امریکی سفیر کو بھی ملک سے نکل جانے کا حکم دیا تھا۔

رجب طیب اردوغان نے استنبول میں مسلمان رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا جس میں انھوں نے اسرائیل کو ‘دہشت گرد’ اور ‘فلسطینی بچوں کا قاتل’ قرار دیا تھا۔

اسرائیل کے سفیر کو نہ صرف ترکی سے نکال دیا گیا بلکہ اسرائیلی سفیر کی واپسی کے دوران ہوائی اڈے پر ان کی جامہ تلاشی بھی لی گئی اور ان کے جوتے تک اتروائے گئے۔

دوسری طرف اسرائیل نے جواباً مشرقی یروشلم میں ترکی کے قونصل جنرل کو طلب کر کے ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سفارتی اداب کے منافی سلوک کیا اور انھیں اسرائیل سے نکل جانے کا کہا گیا۔

SUEZ CANAL

معیشت، تجارت، دفاع، سیاحت اور توانائی کے شعبے میں تعاون

ابتدا ہی سے خطے میں قدرتی اتحادی تصور کیے جانے والے ان ملکوں کے درمیان سفارتی گرم سرد کے باوجود معیشت، تجارت، سیاحت، دفاع اور توانائی کے شعبوں میں تعاون جاری رہا۔ دنوں ملکوں کے درمیان سنہ 2019 میں تجارت کا ہجم 5 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا۔

گیس پائپ لائنوں پر ہونے والی کھینچا تانی کا بھی ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں بڑا عمل دخل رہا ہے۔ ترکی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پوری طرح بیرونی ممالک پر انحصار کرتا ہے۔ اس کی گیس کی مجموعی طلب کا ساٹھ فیصد حصہ روس فراہم کرتا ہے جبکہ 20 فیصد حصہ ایران اور باقی دیگر ذرائع سے پورا کیا جاتا ہے۔

اسرائیل میں تیل اور گیس کے ذخائر کی دریافت کے بعد ترکی کو اس کی فروخت کے لیے مالی اور تیکنکی لحاظ سے نہایت ہی موزوں مارکیٹ تصور کیا جا رہا تھا۔

سنہ 2015 میں ترکی کی طرف سے روسی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد ترکی نے روس پر اپنا انحصار کم کرنے کے لیے سوچنا شروع کیا۔

اسرائیل سے گیس حاصل کرنا ایک متبادل کے طور پر موجود تھا اور ابتدائی طور پر یہ توقعات ظاہر کی جا رہی تھیں کہ یہ منصوبہ 2020 تک مکمل کر لیا جائے گا اور 2021 میں ترکی کو گیس کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔

لیکن اسی دوران ترکی اور روس کے تعلقات بھی معمول پر آگئے اور شام میں دونوں ملکوں کے مشترکہ مفادات کا اثر دیگر شعبوں میں تعاون پر پڑنے لگا۔ روس اور ترکی کے درمیان ترک سٹریم گیس پائپ لائن کے منصوبے پر اتفاق ہو گیا اور اس کے علاوہ روس نے جوہری توانائی سے چلنے والے بجلی گھر ترکی میں لگانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔

تاہم ترکی اور اسرائیل کے درمیان باوجود سفارتی تلخیوں اور بحرانوں کے سیاحت جاری رہی ہے جس میں کمی بیشی آتی رہی لیکن آج بھی لاکھوں کی تعداد میں اسرائیلی سیاح ترکی آتے ہیں اور ترکی کا شہر انطالیہ ان کی ایک پسندیدہ تفریح گاہ ہے۔ ہر سال روس اور یورپ سے آنے والے سیاحوں کے مقابلے میں اسرائیل سے ترکی آنے والے سیاحوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن پھر بھی یہ تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہے۔

استنبول

ترکی کے سیاحتی مقامات دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں

اسی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان فضائی پروازوں کی تعداد بھی قابل ذکر ہے۔ آج بھی روزانہ ترکی کی سرکاری فضائی کمپنی کی سات پروازیں اسرائیل کے لیے چلتی ہیں۔ اسرائیل کی فضائی کمپنی ترکی کے لیے اپنی پروازیں شروع کر کے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

خطے میں دونوں ملکوں کے مشترکہ مفادات کا ایک پرتو آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ میں نظر آیا جہاں اسرائیل اور ترکی دونوں ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئے۔

مشترکہ مفادات کے باوجود فلسطین میں جاری تشدد اور خون ریزی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تلخیاں جس سطح پر پہنچ چکی ہیں ان کو آسانی سے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ دونوں ملکوں میں یہ تلخیاں عوامی سطح پر بھی اتنی ہی شدت سے پائی جاتی ہیں۔

ترکی کے اسرائیل سے سفارتی سطح پر تعلقات بحال کرنے کے فیصلے پر تا دم تحریر اسرائیل کی حکومت کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا تھا۔ فلسطینی اتھارٹی اور حماس کی طرف سے بھی اس سلسلے میں خاموشی تھی۔

اسرائیلی وزیر اعظم

ترکی کے سفیر نامزد کرنے کے اقدام پر اسرائیل کی طرف سے بھی کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا

باقی تمام دنیا سے بھی اس بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رجب طیب اردوغان نے خطے کے ملکوں کے علاوہ پاکستان جیسے اپنے اتحادی اور اسرائیل کی حکومت کو بھی مخمصے میں ڈال دیا ہے۔

اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے والے عرب ملکوں کو ’فلسطین سے غداری‘ کرنے اور ’فلسطینیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے‘ کا الزام لگانے والے رجب طیب اردوغان نے خود اسرائیل سے تعلقات بحال کر کے مشرق وسطیٰ کے انتہائی گنجلک اور پیچیدہ ‘جیو سٹریٹیجک’ منظر نامے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32557 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp