16 دسمبر: ہماری تاریخ کا ایک ناقابل فراموش دن


آج سے چھے سال قبل 16 دسمبر 2014 کو ریاست پاکستان کے اثاثوں (بقول جنرل پرویز مشرف اور حمید گل کے ان کے ہیروز) طالبان کی جانب سے پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا گیا جس سے 132 طالبعلموں سمیت 154 لوگ قتل کر دیے گئے اور متعدد زخمی ہوئے۔

حملے کے چار سال بعد سپریم کورٹ نے ایک عدالتی کمیشن بنایا جس میں پشاور ہائیکورٹ کے تین ججز شامل تھے جنہوں نے ڈیڑھ ماہ میں رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرانی تھی لیکن دفاعی محکموں کی عدم تعاون اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر دو سال لگ گئے، چھے سال گزرنے کے باوجود مقتولین کے لواحقین انصاف مانگتے پھر رہے ہیں، ان چھے سالوں کے دوران بہت سے واقعات رونما ہوئے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا فوجی عدالتیں قائم کی گئیں اور فوجی آپریشن کیے گئے جن کی شفافیت اور ان سے ہونے والے تباہی کی ایک علیحدہ داستان ہے۔

تحریک طالبان کے ترجمان اور آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے احسان اللہ احسان کو فوج نے گرفتار کرنے کا دعوی کیا لیکن اس پر مقدمہ چلانے کی بجائے حیران کن طور پر اس کے انٹرویوز نشر کیے گئے اور طویل عرصے تک اسے ریاستی مہمان کی حیثیت سے رکھا گیا اور پھر اس سال کے اوائل میں وہ فوج کی کسٹڈی سے ڈرامائی طور پر بھاگ گیا حالانکہ آج تک یہ نہیں سنا کہ کوئی مسنگ پرسن بھاگ سکا ہو۔

مقتولین کے لواحقین کی جانب سے اے پی ایس شہدا فورم کا قیام عمل میں لایا گیا اور جب اصل ذمہ داروں کے تعین اور ان کو سزا دینے کی بات کی گئی تو میڈیا نے کوریج دینا بند کر دی لواحقین کو ڈرایا دھمکایا گیا کیونکہ وہ شہید شہید کی گردان کرنے کی بجائے اور آئی ایس پی آر کے گانوں پر رقص کرنے کی بجائے انصاف مانگ رہے تھے۔

اس فورم کے صدر فضل خان ایڈوکیٹ پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا، ایک مقتول اسفند کی والدہ نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ ”والدین کے بہت شور پیدا کرنے کے بعد، ہمیں ایک محفل میں مدعو کیا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ 16 دسمبر کے بعد پانچ یا چھ ماہ بعد کی بات ہو۔ ہال میں افسران نے ہمیں ہلاک دہشت گردوں کی فوٹیج دکھائی۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ وہ آدمی تھے جنہوں نے ہمارے بچوں کو مار ڈالا۔ لیکن کچھ والدین نے پریزنٹیشن کے دوران بات کی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ انہوں نے پہلے بھی یہ تصاویر دیکھی ہیں اور یہ تصاویر باچا خان ہوائی اڈے پر حملے کی ہیں۔ میں چونک گئی کیا ہمیں بے وقوف بنایا جا رہا ہے؟

کیا وہ لوگ جو اصلی مجرم تھے ان کو پھانسی دی ہے یا نہیں؟ مجھے کیسے یقین ہو سکتا ہے؟ کوئی ہمیں نہیں بتا رہا ہے کہ ماسٹر مائنڈ کون تھا اور سہولت کار۔ آج میں آپ کو بتاؤں کہ ابھی تک ہمارے بچوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے۔

میں ایک ماں ہوں ؛ مجھے سوالات کرنے کا حق ہے ”۔

16 دسمبر 2020 کو اے پی ایس کے مقتولین کی برسی کے موقع پر لواحقین کو شہدا اے پی ایس میموریل لائبریری ہال میں پروگرام منعقد کرنے سے روکنے کی کوششیں کی گئیں، اسلام آباد سے پشاور شرکت کرنے کے لیے جانے والے پشتون تحفظ موومنٹ کے مرکزی رہنما اور رکن پارلیمنٹ علی وزیر کو پہلے تو موٹروے پولیس نے روکا پھر بعد میں اے پی ایس حملے کے مقتولین کی برسی کے موقع پر ان کی یاد میں منعقد تقریب میں شرکت کے بعد واپسی پر پشاور پولیس نے گرفتار کر لیا، یاد رہے کہ علی وزیر کے خاندان کے 18 افراد قتل کیے جا چکے ہیں انہیں اس سے پہلے بھی متعدد مرتبہ گرفتار کیا جا چکا ہے اور ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے، یہ ریاست نہ تو ان کے خاندان کے 18 افراد کے قاتلوں کو گرفتار کر سکتی ہے نہ ہی اے پی ایس کے بچوں کے قاتلوں کو مگر ان کے لواحقین سے یکجہتی کا اظہار کرنے والے دہشتگردی کے خاتمے اور امن کے قیام آئین کی بالادستی اور پشتونوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے پشتونوں کے نمائندے علی وزیر کو دوسرے صوبوں میں درج ایک من گھڑت ایف آئی آر کے بہانے گرفتار کر لیا ہے، یہی نہیں آج طالبان کا ایک وفد سرکاری پروٹوکول میں پاکستان آیا جس کا استقبال آئی ایس آئی کے چیف اور وزیر داخلہ نے کیا جو کہ وزیراعظم سے بھی ملاقات کرے گا، یہ سب اقدامات اے پی ایس کے مقتولین کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی میں کوئی کثر نہیں چھوڑیں گے، آج ریاست نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اسے شہریوں کی کوئی پرواہ نہیں وہ تو قربانی کے لیے بنے ہیں جب چاہا انہیں اپنے پالتو دہشتگردوں سے مروا کر من چاہے مقاصد حاصل کیے اور پھر شہید کا منجن ہاتھ میں پکڑا دیا گانے بنا دیے وہ ان گانوں سے دل بہلاتے رہیں پڑوسی ملک پر انگلیاں اٹھاتے رہیں اور مقتدر حلقے ان کے قاتلوں کی مہمان نوازی کرتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).