گوگل اور فیس بک: کیا دنیا کی بڑی انٹرنیٹ کمپنیاں مل کر آن لائن اشتہارات پر اثر انداز ہوتی ہیں؟


سوشل میڈیا
اکثر لوگ یہ شکایت کرتے پائے جاتے ہیں کہ جو بھی اشتہار فیس بک یا انسٹاگرام پر دیکھے جاتے ہیں وہی اشیا ہمیں گوگل پر کیوں نظر آنے لگتی ہیں۔

اسی طرح جب آپ کسی اور ویب سائٹ پر جاتے ہیں تو آپ کو آپ کی سرچ ہسٹری کے اعتبار سے اشتہارات دکھائے جاتے ہیں اور یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟

اسی قسم کے سوال کا جواب جاننے کے لیے ریاست ٹیکساس کی سربراہی میں امریکہ کی 10 ریاستوں نے گوگل کے خلاف مقدمے کرنے کا ارادہ کیا ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ کمپنی غیرقانونی اقدامات اٹھاتے ہوئے آن لائن اشتہارات کی مارکیٹ میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھ رہی ہے۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

سات نکات جن کا گوگل کے سربراہ کو جواب دینا ہے

مونوپلی مین: ٹرول کرنے والا یہ سماجی کارکن کون ہے؟

کورونا بحران: گوگل، فیس بک، ایپل اور ایمزون کا کاروبار کس طرح چمکا

ٹیکنالوجی کمپنیوں پر ‘طاقت کے بے جا استعمال‘ کے الزامات

ریاستوں کا مؤقف ہے کہ ان مبینہ اقدامات میں فیس بک کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ بھی شامل ہے جس کے ذریعے آن لائن اشتہارات کی نیلامی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

گوگل کے خلاف یہ شکایت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسے عالمی سطح پر نگراں اداروں سے پہلے ہی دباؤ کا سامنا ہے۔

گوگل نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ عدالت میں ان الزامات کا ‘مؤثر’ دفاع کرے گا۔

گوگل

کمپنی کے ترجمان نے ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ 'ہم نے ایسی نئی ایڈ ٹیک سروسز متعارف کروائی ہیں جن سے کاروبار اور صارفین دونوں ہی فائدہ اٹھا سکیں گے۔‘

ڈیجیٹل اشتہارات کی قیمتیں گذشتہ دہائی میں کم ہوئی ہیں اور ایڈ ٹیک کی قیمتوں میں بھی کمی آ رہی ہے۔ گوگل کی ایڈ ٹیک کی فیس مارکیٹ کی اوسط سے کم ہے۔ یہ ایک انتہائی مسابقتی صنعت کی پہچان ہے۔

ادھر فیس بک نے اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کیا ہے۔

اس مقدمے کے ذریعے گوگل کی آن لائن اشتہارات کی مارکیٹ پر گرفت کو نشانہ بنایا گیا ہے جو اسے 2008 میں ڈبل کلک نامی سافٹ ویئر کی خریداری کے بعد ملی تھی۔ ڈبل کلک وہ سافٹ ویئر ہے جس کے ذریعے اشتہارات کی فروخت کی کی جاتی ہے۔

گوگل کی آمدنی کا 80 فیصد اشتہارات کی فروخت مد میں ملتا ہے۔

جن 10 ریاستوں نے گوگل پر مقدمہ دائر کیا ہے ان میں ٹیکساس، آرکنساس، انڈیانا، کینٹکی، مزوری، مسیسیپی، جنوبی ڈکوٹا، شمالی ڈکوٹا، یوٹا، اور اڈاہو شامل ہیں اور ان سب کے وکلا رپبلکن ہیں۔

ان ریاستوں کا دعویٰ ہے کہ گوگل نے اپنی حیثیت کا استعمال کرتے ہوئے اپنے کاروبار کے دوسرے حصوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی۔

مثال کے طور پر اس نے اشتہار شائع کرنے والوں کو اپنے سرورز کو لائسنس کرنے پر مجبور کیا۔ اس مقدمے میں یہ مؤقف بھی اختیار کیا گیا ہے کہ کمپنی کی جانب سے ایسی کمپنیوں کے ساتھ کم پیسوں میں سودے بھی کیے گئے جنھوں نے جدت کےذریعے اس کی فیس نہ دینے کا اہتمام کر لیا تھا۔

اس مقدمے میں گوگل پر یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ اس نے فیس بک کو آن لائن اشتہارات کی مارکیٹ میں فائدہ پہنچانے کے عوض فیس بک سے اشتہارات کی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کے منصوبے ختم کرنے کا خفیہ معاہدہ کیا ہے۔

ریاست ٹیکساس کے اٹارنی جنرل کین پیکسٹن نے ٹوئٹر پر جاری کردہ ویڈیو میں یہ مقدمہ کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ‘گوگل نے بارہا اپنی اجارہ داری قائم کرتے ہوئے قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے اور ماکیٹ میں جوڑ توڑ کے ذریعے اشتہارات کی نیلامی کے دوران بدعنوانی کی ہے جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔’

اس وقت جب آپ کسی ایسے اخبار کی ویب سائٹ پر جائیں جس پر آپ کو اعتبار ہو جیسے وال سٹریٹ جنرل یا آپ کا پسندیدہ مقامی اخبار تو وہاں بھی آپ کو اشتہارات ملیں گے جو گوگل نے ہی لگائے ہوں گے۔

’تاہم گوگل عوام کو یہ نہیں بتاتا کہ وہ ان اشتہارات کی نیلامی میں کیسے چالاکی سے اپنا فائدہ حاصل کرتا ہے اور وہ ان ویب پیجز سے رقم اپنی جیبوں میں ڈالتے ہیں اور غیرقانونی فائدہ اٹھاتے ہیں۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی کمپنی ‘انتہائی طاقتور’ ہے اور وہ اس طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مارکیٹ پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے باعث ہر امریکی شہری کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

پیکسٹن کا کہنا تھا کہ ‘یہ کہیں کا انصاف نہیں ہے کہ گوگل ان ویب پیجز کو نقصان پہنچائے جو آپ استعمال کرتے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ اگر ایک ایسی مارکیٹ جہاں قیمتوں کا تعین آزادانہ طور پر ہوتا ہے اور یہ ایک بیس بال گیم کی طرح ہے تو گوگل گیند پھینک بھی رہا ہے، کھیل بھی رہا ہے اور امپائر بھی وہی ہے۔’

گوگل

ٹیکساس کے اٹارنی جنرل کین پیکسٹن

نگراں اداروں کا دباؤ

اس مقدمے کے باعث گوگل کے آپریشنز پر بیرونی دباؤ اور تنقید میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ ایک طرف یہ ایک سرچ انجن کے طور پر نتائج فراہم کر رہا ہے اور دوسری جانب آن لائن اشتہارات کی فروخت میں بروکر کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔

اکتوبر میں امریکہ کے محکمہ انصاف نے کمپنی کی اجارہ داری کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا تھا جس کا مرکزی پہلو یہ تھا کہ گوگل ہر سال اربوں ڈالر دے کر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ان کا سرچ انجن مختلف انٹرنیٹ براؤزرز اور موبائل فونز میں انسٹال رہے۔

تاہم گوگل ہمیشہ سے یہ کہتا رہا ہے کہ اسے بھی مارکیٹ میں ایمازون جیسی کمپنیوں سے مقابلے کا سامنا ہے۔

تاہم یہ وہ اکیلی ٹیکنالوجی کمپنی نہیں ہے جس پر نگراں ادارے نظر رکھے ہوئے ہیں بلکہ برطانیہ اور یورپ میں بھی حالیہ ہفتوں کے دوران حکام نے نئے قوائد متعارف کروانے کا اعلان کیا جسے کے ذریعے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر نظر رکھی جا سکے گی۔

فیس بک کو گذشتہ ماہ فیڈرل ٹریڈ کمیشن اور تقریباً تمام 50 امریکی ریاستوں کی جانب سے اجارہ داری کا غلط استعمال کرنے پر مقدمات کا سامنا ہے۔

وقت کے ساتھ انٹرنیٹ پر کام کرنے والی بڑی کمپنیوں کو عالمی میڈیا اور مواد شائع کرنے والے اداروں پر اثرانداز ہونے پر تنقید کا سامنا ہے۔

اکثر خبررساں اداروں کا کہنا ہے کہ وہ بمشکل کام کر پا رہے ہیں کیونکہ سوشل نیٹ ورکس خبروں سے متعلق مواد کو شائع کر کے زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

گذشتہ ماہ فیس بک نے اعلان کیا تھا کہ وہ برطانیہ میں کچھ خبر رساں اداروں کو تحریروں کے عوض پیسے دے جبکہ امریکہ میں اسی قسم کا اہتمام کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp