کیا پاکستانی قوم کی کشتی نا اہلیت کے سمند رمیں غوطہ زن ہے؟


ہمارے سرکاری اداروں میں بالخصوص اور نجی اداروں میں بالعموم نا اہلیت بال کھولے سور ہی ہے۔ اس ادارہ جاتی نا اہلی نے حسن کارکردگی کو گھس کے فنا کے گھاٹ اتارا ہے۔ جیسے خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے بالکل ویسے ہی نا اہل مینیجر اپنی ٹیم میں نا اہلوں کو خوشی سے بھرتی کرتے ہیں تاکہ اپنے آپ کو احساس عدم تحفظ سے محفوظ رکھ سکیں۔ اندھوں میں کا نا راجہ بن کر زندگی کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ لائق فائق ٹیم ممبرز اور اپنے کام کو بخوبی سمجھنے والے نالائق و نا اہل مینیجرز کو اپنی حسن کارکردگی سے متواتر دھمکیاں دیتے ہیں، اسی لیے مینیجرز کے وسیع تر مفاد میں ان کا نہ ہونا ان کے ہونے سے بہتر ہے۔

نا اہلیت کا جنم اس وقت ہوتا ہے جب اپنے کام و پیشے میں مہارت حاصل کرنے کو تصنیع اوقات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ”ڈنگ ٹپانے“ کو زندگی بسر کرنے کے لیے مسلک بنا لیا جاتا ہے۔ نا اہل ہمیشہ شفیع کی تلاش میں ہوتے ہیں اور ان کے مقتدی بننے کی کوشش کرتے ہیں جن کے ہاتھ میں اختیارات کی لگام ہوتی ہے۔ نا اہل لوگوں کو اپنے کام سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے، وہ نمانے تو صرف اپنی معاشی حاجات پوری کرنے کے لئے کسی بھی پروفیشن کا چولا پہن لیتے ہیں۔

پاکستانی قوم اندھوں کی ایک دلکش قطار ہے جس کی سمت متعین کرنے والے بھی بینائی سے محروم ہیں۔ ہمارے کاروباری و سرکاری اداروں میں اور ہماری سیاسی جماعتوں میں قائدین کی بہتات نے قیادت کا فقدان پیدا کر دیا ہے۔ ہمیں کہیں بھی سوال اٹھانے والے، حقیقت کے چہرے سے پردہ اٹھانے والے اور اپنے فن میں طاق لوگوں کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

ہمارے عدم تحفظ کا شکار سیاسی و کاروباری لیڈروں اور افسر شاہی کے نا خداؤں کو اپنے دست و بازو بنانے کے لئے ایسے افراد کی ضرورت ہے جو ان کی ہاں میں ہاں ملانے میں پیش پیش ہو۔ ہمارے تمام لیڈروں و مینیجروں کو اپنے پیروکاروں کی شکل میں گونگے مطلوب ہیں جو آمنا و صدقنا کو اپنی روش زندگی بنانے پر آمادہ ہو اور صاحب کا رانجھا راضی کرنے کے لیے ہیر سیال بننے سے بھی گریز نہ کریں۔

ہمارے لیڈروں و مینیجروں کو اپنی بزنس ٹیم میں اور اپنی سیاسی جماعتوں میں سننے والے حضرات اور بیبیاں پسند ہیں کیونکہ ہمارے قائدین عقل و دانش کی معراج پر فائز ہیں اور اگر وہ اپنے مشیروں سے کوئی مشورہ طلب کرنے کا تکلف بھی کرتے ہیں تو ان کے مزاج شناس مشیر بھانپ جاتے ہیں کہ ہمارے افسر کا رخ کس طرف ہے اور پھر وہ بھی امام کے پیچھے قبلہ رو ہو کر نماز کی ادائیگی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

نا اہلی کا سنہری جال توڑنا وطن عزیز میں محال ہے کیونکہ نا اہلی ترقی کی سیڑھیاں چڑھنے میں بہت مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ اہلیت ہمیشہ سزا کی حقدار ٹھہرتی ہے۔ طبعیات کے اندر نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنی جنم بھومی کو چھوڑنا پڑا کیونکہ کیچڑ میں جب بھی کنول کا پھول کھلتا ہے تو کیچڑ میں بسنے والوں کو اس سے الرجی ہو جاتی ہے اور نابغے کی موجودگی میں ان کے اپنے چیچک کے داغ نمایاں ہو جاتے ہیں۔ جب نا اہل افراد سب قائدین کی آنکھوں کا تارا ہیں تو ٹیلنٹ کے وکیلوں کو اپنے ذہین و فطین مؤکلوں کو طویل رخصت پر بھیج کر اس مقدمے میں اپنی شکست کو کشادہ قلبی کے ساتھ قبول کر لینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).