سانپ، نیولا اور سپیرا


پاکستان میں حکومت اور حزب اختلاف کی لڑائی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی قدیم نیولے اور سانپ کی لڑائی تاریخ ہے، دونوں میں غیر معمولی مماثلت بھی ہے۔ ہماری روایت رہی کہ جب یہ لڑائی شدید ہوجاتی ہے اور فاتح کا تعین مشکل ہوجاتا ہے تو سپیرا خود اپنی لاٹھی لے کر میدان میں اترتا ہے اور ایسے سلیقے سے فیصلہ کن ضرب لگاتا ہے کہ لاٹھی کو زد نہیں پہنچتی اور سانپ ڈھیر ہوجاتا ہے۔ حالیہ لڑائی بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ اس مرتبہ سانپ سپیرے کی ہی آستین سے نکلا ہے اور نیولے کے بجائے سپیرے کی لاٹھی سے چمٹ گیا ہے، جس کی وجہ سے عارضی طور ہی سہی مگر سپیرا سٹپٹا گیا ہے! اس تمام کشاکش میں سپیرے کی ماتھے کی سلوٹیں اور اس کا زرد چہرہ واحد خوش نما منظر ہے، ورنہ داستاں پرانی ہے اور کہانی مکرر ہے۔

تماش بین اب ان لڑائیوں سے بیزار نظر آتے ہیں، لیکن زعماء جن بیانیوں کا پرچار کر رہے ہیں اور جن مضحکہ خیز خواہشات کا اظہار کر رہے ہیں ان سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کو عوام کی نفسیات کا ادراک نہیں۔ ایک فریق کی خواہش ہے کہ عوام اس کو قائد انقلاب مان لیں، گزشتہ تین عشروں سے جس نظام کی وہ آبیاری کرتے رہے ہیں اور اس سے مستفید و مستفیض ہوتے رہیں اب وہ چاہتے ہیں کہ عوام اسی نظام کو تہہ و بالا کردیں۔ ان کی خواہش ہے کہ عوام بھول جائیں کہ وہ کس کے کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کے سیج پر براجمان ہوئیں، کس سے سمجھوتہ کر کے بیرون ملک گئے، پھر 2013 میں کس سے ساز باز کر کے وزیر اعظم بنیں اور کس کے ’مشوروں‘ پر اپنے وزراء اور معاونین کو فارغ کرتے رہیں، عوام یہ سب فراموش کر کے ان کی ہزاروں میل دور سے کی جانے والی تقریروں کے ذریعے تاریخ کا دھارا تبدیل کرنے کی کوشش پر یقین کر لیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اصولوں کے خاطر اقتدار کی قربانی دی اور اپنی بیٹی کے ہمراہ پابند سلاسل ہو کر جمہوریت اور آئین کی

بالادستی کے لیے اپنے عزم کو ثابت کیا، وہ چاہتے ہیں کہ اس ’قربانی‘ کے بعد بھی جن کرداروں کے خلاف انہوں نے جدوجہد شروع کر رکھی تھی انہی کی مدت ملازمت میں توسیع کو سند فراہم کرنے کو بھی عوام غلطی سمجھ کر معاف کردے۔

دوسرے فریق نے آزمودہ نسخہ اپنایا ہے، وہ قوم کو سمجھا رہے ہیں کہ علاقائی صورتحال انتہائی نازک ہے، قومی سلامتی کے حساس امور احتجاجات سے متاثر ہوسکتے ہیں، ہمارا پڑوسی ملک سازشیں کر رہا ہے اور ہمارے ادارے اس وقت غیر معمولی خطرات سے نبٹ رہے ہیں۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی حکمران ہو جس نے یہ چار جملے اپنے خلاف احتجاج روکنے کے لیے استعمال نہ کیے ہو۔ بعض اوقات تو حیرانی ہوتی ہے کہ ریاست کے کرتا دھرتا کیسے نالائق ہیں جو 70 سال سے صورتحال کو بہتر کرنا تو دور کی بات ’نزاکت‘ کے مرحلے سے ہی نکالنے میں ناکام ہیں، حکمران یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ غداری کی یہ تلمیحات اور مخالفین پر دشمنوں سے ساز باز کے الزام اتنے بار دہرائے جا چکے ہیں کہ یہ اپنے حیثیت کھو چکے ہیں، جن خطرات سے عوام کو ڈرا کر اداروں کے تجاوزات کو جواز فراہم کیا جاتا ہے، اگر ادارے داخلی لڑائیوں میں اپنی توانائی خرچ کرنے کے بجائے ہمہ وقت ان خطرات کی بیخ کنی میں مصروف رہیں تو یہ خطرات اپنی موت آپ مر جائیں۔

چند نادانوں کے علاوہ جو ان بیانیوں پر یقین رکھتے ہیں اکثریت اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ سانپ اور نیولا دونوں مجبور ہیں، مجبوری کا تو عالم یہ ہے کہ سپیرے کے جادو کی چھڑی بھی اس کی اپنی ملکیت نہیں اس کے بدیسی آقا کی ہے، لہذا ان کرداروں کا عوام کے حقوق سے کوئی تعلق ہے نہ ملک کی فلاح سے کوئی واسطہ، اگر حالات میں حقیقی تبدیلی واقعی مقصود ہے تو اس پورے اکھاڑے کو تبدیل کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).