محمد عامر کی ریٹائرمنٹ: پاکستانی کرکٹرز اور کرکٹ بورڈ کے مابین دہائیوں سے جاری رقابت کی داستان میں ایک اور اضافہ


کرکٹ
پاکستان کرکٹ بورڈ اور کرکٹرز کے درمیان محبت و نفرت اور دوستی و عداوت کے جذبات کسی فلمی کہانی کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی تو وہ ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے ہیں لیکن پھر ان خوشگوار تعلقات میں دراڑ پڑنے میں دیر نہیں لگتی۔

فاسٹ بولر محمد عامر کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے۔ آج وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی ٹیم انتظامیہ کے مبینہ نامناسب رویے کو بنیاد بنا کر اپنا بین الاقوامی کریئر ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔

لیکن زیادہ پرانی بات نہیں جب یہی محمد عامر پاکستان کرکٹ بورڈ کی آنکھوں کا تارہ ہوتے تھے اور جنھیں سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ میں دوبارہ لانے کے لیے بورڈ کی جانب سے ’فاسٹ ٹریک کوشش‘ کی اصطلاح دنیا کو سننے کو ملی تھیں۔ مگر اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔

لیکن محمد عامر وہ پہلے پاکستانی کرکٹر نہیں ہیں جو پاکستان کرکٹ بورڈ سے ناراض دکھائی دیتے ہیں۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

محمد عامر اور ’ہماری ادھوری کہانی‘

’عمر اکمل نے ندامت دکھائی اور نہ ہی معافی مانگی‘

جب پاکستانی کھلاڑی کرکٹ بورڈ کے خلاف بغاوت پر اُتر آئے۔۔۔

ان سے قبل متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں پاکستانی کرکٹرز نے کرکٹ اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اپنے کریئر کو خطرے سے دوچار کیا۔

تاہم الزامات کی اس بوچھاڑ میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ غلطی پر کون تھا کیونکہ دونوں ہی جانب سے ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔

شاہد آفریدی اور اعجاز بٹ کی زبانی جنگ

کرکٹ

شاہد آفریدی ایک ایسے کرکٹر ہیں جو اپنے بین الاقوامی کرکٹ کریئر میں متعدد بار شہ سرخیوں میں رہے ہیں۔

کبھی گیند چبانے پر وہ کارروائی کی زد میں آئے تو کبھی پچ کو نقصان پہچانے پر ان پر پابندی عائد کی گئی۔

لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین اعجاز بٹ کے ساتھ زبانی جنگ نے ان کے دیگر تنازعات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

یہ سنہ 2011 کی بات ہے جب پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ویسٹ انڈیز کے دورے میں کھیلی گئی ون ڈے سیریز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

شاہد آفریدی کو کپتانی سے ہٹایا گیا اور ان کے مبینہ غیرسنجیدہ رویے کے بارے میں منیجر کی رپورٹ بھی سامنے آئی تھی جس کے بعد انھوں نے یہ کہہ کر انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا تھا کہ وہ موجودہ کرکٹ بورڈ کے ہوتے ہوئے مزید کھیلنا نہیں چاہتے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے اُس وقت کے چیئرمین اعجاز بٹ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں شاہد آفریدی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ چوتھے اور پانچویں ون ڈے انٹرنیشنل میں ٹیم کی شکست کے ذمہ دار تھے۔

اعجاز بٹ کی اس تنقید میں سب سے نمایاں بات یہ تھی کہ انھوں نے شاہد آفریدی کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ وہ ’کپتانی میٹریئل‘ ہی نہیں ہیں یعنی ان میں کپتان بننے کی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے۔

اعجاز بٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ شاہد آفریدی نے اس معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی اور مبینہ طور پر ان کی حمایت میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور سندھ کے سابق گورنر عشرت العباد نے بھی انھیں فون کیا تھا۔

اعجاز بٹ کا کہنا تھا کہ انھوں نے ان دونوں حضرات پر واضح کر دیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے آفریدی کو بورڈ کی قائم کردہ انضباطی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔

شاہد آفریدی نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا جس کے بعد وہ بورڈ کی جانب سے عائد کردہ جرمانہ ادا کرنے پر رضامند ہو گئے تھے لیکن انھوں نے بورڈ سے یہ بات ضرور منوالی تھی کہ انھیں ہمپشائر کی طرف سے کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے دی جائے۔

اس کے بعد جب ذکا اشرف اعجاز بٹ کی جگہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے تھے تو شاہد آفریدی نے اعجاز بٹ پر طنز کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور کہا تھا کہ بٹ صاحب اب ستر برس کے ہو چکے ہیں انھیں اب آرام کی ضرورت ہے۔

شعیب اختر کی موجودگی کا ٹیم پر منفی اثر

کرکٹ

فاسٹ بولر شعیب اختر کو اپنے کریئر میں صرف فٹنس، بال ٹمپرنگ، ڈوپنگ اور بولنگ ایکشن سے متعلق مشکلات کا ہی سامنا نہیں رہا بلکہ وہ کئی بار بورڈ کے ساتھ مختلف نوعیت کے دیگر تنازعات میں الجھے دکھائی دیے ہیں۔

سنہ 2007 میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے شعیب اختر پر قومی کیمپ کے دوران بورڈ کے بارے میں نامناسب الفاظ استعمال کرنے پر تین لاکھ روپے جرمانہ عائد کر دیا تھا۔

اسی دوران ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل ڈریسنگ روم میں ساتھی فاسٹ بولر محمد آصف کو بیٹ مارنے کی پاداش میں انھیں جنوبی افریقہ سے وطن واپس بھیج دیا گیا تھا۔

اپریل 2008 میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی انضباطی کمیٹی نے شعیب اختر پر پانچ سال کی پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کی وجہ انھیں سینٹرل کنٹریکٹ نہ دیے جانے پر بورڈ پر کی گئی تنقید تھی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے اُس وقت کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم اشرف نے کہا تھا کہ شعیب اختر کی موجودگی پاکستانی ٹیم کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس سے پاکستانی کرکٹ کا امیج بھی متاثر ہو رہا ہے۔

یونس خان کا بدلتا موڈ

یونس خان ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ رنز اور سنچریاں بنانے والے کرکٹر ہیں جن کی کارکردگی اور کارناموں پر دو رائے نہیں ہو سکتی ہیں لیکن جب بات ان کے موڈ کی آ جائے تو پھر کئی واقعات میں وہ نظر آتے ہیں۔

یونس خان کے کریئر میں ایک اہم موقع وہ تھا جب سنہ 2006 میں انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان سے ملاقات کے لیے کچھ دیر انتظار کے لیے کہا گیا تو انھوں نے میڈیا کے سامنے آ کر جذباتی انداز میں کپتانی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔

ان کے برابر میں بیٹھے کوچ باب وولمر کے لیے یہ سب کچھ حیران کن تھا۔

سنہ 2009 میں ایک رکن قومی اسمبلی کی جانب سے مبینہ طور پر میچ فکسنگ کے الزام پر یونس خان اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ انھوں نے ایک بار پھر کپتانی سے استعفی دے دیا۔

یہ معاملہ کافی دنوں تک قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کے سامنے بھی رہا اور یونس خان کو اس وقت کے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ کے ساتھ ان کمیٹیوں کے سامنے پیش ہونا پڑا تھا۔

یونس خان کو اگرچہ تمام الزامات سے کلیئر کر دیا گیا تھا لیکن وہ کپتانی دوبارہ سنبھالنے کے لیے تیار نہیں تھے۔

اسی سال اگرچہ انھوں نے دوبارہ کپتانی سنبھالی تھی لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلی گئی ون ڈے سیریز کے اختتام پر انھوں نے دوبارہ قیادت چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔

یونس خان کے کریئر کا سب سے اہم موڑ اس وقت آیا جب سنہ 2010 میں آسٹریلیا کے دورے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹیم کی خراب کارکردگی اور متعدد کھلاڑیوں کے خلاف ڈسپلن کی خلاف ورزی کے بارے میں کمیٹی قائم کی تھی۔

اس کمیٹی نے یہ کہا تھا کہ یونس خان اور محمد یوسف کی آپس کی لڑائی کا نقصان ٹیم کو ہوا اور اس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے یونس خان پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی عائد کر دی تھی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس سلسلے میں جسٹس عرفان قادر پر مبنی ایک کمیٹی قائم کی تھی جس نے یونس خان کی اپیل سننے کے بعد ان پر عائد پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔

کمیٹی کا کہنا تھا کہ یونس خان کو اپنے دفاع کا مناسب موقع نہیں دیا گیا تھا۔

یونس خان سینٹرل کنٹریکٹ میں تنزلی کے سلسلے میں بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے مقابلے پر آئے تھے جس پر بورڈ کو انھیں دوبارہ اے کیٹگری دینی پڑی تھی۔

سنہ 2016 میں یونس خان فیصل آباد میں جاری پاکستان کپ ون ڈے ٹورنامنٹ ادھورا چھوڑ کر گھر چلے گئے جب وہ خیبر پختونخوا کی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے اور ایک میچ کے اختتام پر امپائرنگ کے معیار پر تنقید کی تھی۔

اس پر میچ ریفری نے ان پر جرمانہ عائد کرنے کے ساتھ ساتھ سماعت کے لیے طلب کر لیا تھا جسے یونس خان ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔

یونس خان کے کریئر کا ایک اور جذباتی موقع وہ تھا جب انھیں آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز کی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا تو انھوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ بورڈ والے کہتے ہیں کہ ان جیسے کرکٹرز کا کوئی مستقبل نہیں ہے تو کیا وہ خود کو گولی مار لیں؟

یونس خان کرکٹ بورڈ پر اس وقت بھی سخت ناراض ہوئے تھے جب انھیں ایک کوچنگ کورس میں شرکت کے لیے لاہور کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ٹھہرایا گیا تو کمرے میں مناسب سہولتیں نہ ہونے پر انھوں نے ٹوئٹر پر اس بارے میں ویڈیو شیئر کر دی تھی۔

عمراکمل، قاسم عمر، سرفراز نواز اور سعید احمد سب کے بورڈ سے گلے

کرکٹ

پاکستانی کرکٹرز بمقابلہ کرکٹ بورڈ کی یہ طویل کہانی سرفراز نواز، عمراکمل، سعید احمد اور قاسم عمر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔

عمر اکمل اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے مشکوک افراد سے روابط کی پاداش میں عائد کردہ پابندی کی زد میں ہیں اور انھوں نے اس فیصلے کے خلاف کھیلوں کی عالمی ثالثی عدالت میں بھی اپیل کر رکھی ہے۔

سنہ 2017 میں انھیں کوچ مکی آرتھر نے فٹنس ٹیسٹ میں ناکامی پر انگلینڈ سے وطن واپس بھیج دیا تھا۔

گذشتہ سال پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان پر آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے دوران کرفیو ٹائمنگ کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کیا تھا۔

عمر اکمل متعدد بار مختلف نوعیت کے تنازعات میں بھی ملوث ہو چکے ہیں جن کا تعلق ٹریفک وارڈن اور ڈانس پارٹیوں میں جھگڑوں سے ہے۔

سابق فاسٹ بولر سرفراز نواز نے اپنے کریئر اور اس کے بعد بھی متعدد افراد پر مبینہ طور پر میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے لیکن کسی بھی موقع پر وہ انھیں ثابت نہ کر سکے جس کی وجہ سے کئی بار انھیں ہتک عزت کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔

سرفراز نواز اپنے کریئر میں ٹیم منیجمنٹ اور کرکٹ بورڈ کے لیے سب سے مشکل کھلاڑی ثابت ہوئے تھے۔

سنہ 1977 میں کرکٹ بورڈ سے اختلافات کی وجہ سے وہ انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز ادھوری چھوڑ کر انگلینڈ چلے گئے تھے حالانکہ وہ اس سیریز میں پاکستانی ٹیم کے نائب کپتان تھے۔

سعید احمد اپنے کریئر میں متعدد بار بورڈ کے مد مقابل آئے۔ سنہ 1964 میں انھیں نیوزی لینڈ کے دورے سے واپس بھیجنے کی تیاری مکمل ہو چکی تھی لیکن ایک وزیر سے دوستی کی وجہ سے وہ بچ گئے۔

سنہ 1969 میں جب انھیں ہٹا کر انتخاب عالم کو کپتان مقرر کیا گیا تو انھوں نے سلیکشن کمیٹی پر تنقید کر دی جس پر انھیں پابندی کا سامنا کرنا پڑا جو معافی مانگنے پر ختم ہوئی۔

سنہ 1972 میں وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ عبدالحفیظ کاردار سے الجھ پڑے جس پر انھیں اور محمد الیاس کو فوری طور پر آسٹریلوی دورے میں ٹیم سے الگ کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد یہ دونوں کرکٹر دوبارہ کبھی قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ نہ بن سکے۔

قاسم عمر فاسٹ بولرز کا اعتماد سے مقابلہ کرنے والے بیٹسمین کے طور پر مشہور تھے لیکن سنسنی خیز انکشافات کر کے انھوں نے اپنا کریئر ہی ختم کر ڈالا۔

انھوں نے نہ صرف یہ انکشاف کیا کہ وہ خود جان بوجھ کر وکٹ گنواتے رہے ہیں بلکہ انھوں نے دیگر کرکٹرز کے بارے میں بھی یہ کہا کہ وہ مبینہ طور پر منشیات نہ صرف استعمال کرتے ہیں بلکہ گلووز اور کرکٹ بیگ میں سمگل بھی کرتے رہے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے قاسم عمر پر سات سال کی پابندی عائد کر دی تھی اور پھر وہ دوبارہ کبھی ٹیم کے لیے منتخب نہیں ہوئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp