کرنل سلیمان دا میگنیفسنٹ


سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تایخ کا وہ باب ہے جس پر شاید ہمیشہ بات ہوتی رہے گی، سول اور ملٹری اشرافیہ کی ناعقبت اندیشی اور ہوس اقتدار کے سبب نہ صرف پاکستان دولخت ہوا بلکہ ہمیں قومی ہزیمت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ تاریخ ہمیں یہ سبق بھی دے گئی کہ اگر راہبروں پر اعتماد ہو اورعوام کی حمایت حاصل ہو تو سپاہیوں کی ایک کمپنی بھی پوری بریگیڈ فوج کو روک سکتی ہے، جیسا کہ 1965 کی جنگ میں دیکھا گیا، جبکہ 1971 کی جنگ میں ستائیس ہزار سے زائد فوج بھی ڈھاکہ کا دفاع کرنے میں ناکام ہوئی اور دشمن کی گیدڑ بھبکیوں کو حقیقت جان کر، چند گھنٹوں میں تین ہزار سپاہیوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔

لیکن 1971 کی جنگ میں پسپائی کے باوجود میجر اکرم شہید اور ان جیسے جاں بازوں کی داستان شجاعت سن کر اس بات پر ایمان پختہ ہوجاتا ہے کہ ایسے دلیر سپوتوں کے ہوتے ہوئے اس جنگ میں ہمیں دشمن نے نہیں بلکہ ہم نے اپنے آپ کو شکست دی تھی۔ ایسے ہی کچھ دلیر اور غیرت مند سپاہیوں میں سے ایک نام سلیمان دی مگنیفیسنٹ کا بھی ہے۔

لیفٹننٹ کرنل محمد سلیمان کا تعلق پاک فوج کے اسپیشل سروسز گروپ سے تھا، ان کے ساتھی کرنل محمد سلیمان کو عظیم عثمانی فرمانروا سلطان سلیمان کی طرح سلیمان دی مگنیفیسنٹ پکارتے تھے۔ اس کی وجہ ان کا 1971 کی جنگ میں وہ جراتمندانہ اور دلیرانہ کردار تھا جس کی وجہ سے وہ بلاشبہ میگنیفسنٹ کہلانے کے حقدار تھے۔ سقوط ڈھاکہ کے وقت جب ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ ہوا تو کرنل سلیمان نے ایسٹرن کمانڈ کو واضح کر دیا کہ وہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے، اس کی وجہ کرنل سلیمان کا ان کی ماں اور دوست میجر بلال رانا سے کیا گیا وعدہ تھا کہ وہ ہتھیار ڈالنے پر شہادت کو ترجیح دیں گے۔

جنگ کے دوران کرنل سلیمان سے ان کے دوست، ایس ایس جی کمانڈو میجر بلال رانا نے دو وعدے لیے۔ میجر بلال رانا نے ہینڈ گرنیڈ کرنل سلیمان کی طرف بڑھایا اور کہا کہ اگر دشمنوں میں گھر جاو تو ہتھیار ڈالنے کی بجائے اس گرنیڈ کا استعمال کرنا اور جب کرنل سلیمان نے استفسار کیا کہ دوسرا وعدہ کیا ہے تو میجر بلال رانا نے کہا میری شہادت کے بعد اپنے بیٹے کا نام بلال رکھنا، جس پر دونوں نے زوردار قہقہ لگایا اور دیر تک ہنستے رہے۔

10 دسمبر 1971 کو میجر بلال رانا کی پیشن گوئی درست ثابت ہوئی اور دشمنوں سے بہادری سے لڑتے ہوئے انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔ سابق صدر، جنرل پرویز مشرف، کرنل محمد سلیمان اور میجر بلال رانا شہید، کاکول ملٹری اکیڈمی میں 29 ویں پی ایم اے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے نہ صرف کورس میٹ تھے بلکہ اچھے دوست بھی تھے، جنرل مشرف نے میجر بلال رانا شہید کا ذکر اپنی کتاب ’ان دی لائن آف فائر‘ میں بھی کیا ہے اور وضاحت کی ہے کہ کیوں انہوں نے اپنے صاحبزادے کا نام بلال رکھا۔

مشرقی پاکستان کے محاذ پر جرنل نیازی نے جب ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا تو غصے سے بھرے کرنل سلیمان، ڈھاکہ کنٹونمنٹ میں بنائے گئے ایسٹرن کمانڈ کے زمین دوز بنکر میں داخل ہوئے اور اپنے کمانڈر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر واضح کر دیا کہ وہ ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ جب کمانڈر نے ان سے کہا کہ اگر انہوں نے ہتھیار نہ ڈالے تو وہ دشمن کے ہاتھ لگ جائیں گے، جس کے جواب میں انہوں نے مسکرا کر کہا کہ سر گھبرائیں نہیں، میں دشمنوں کے ہاتھ کبھی نہیں لگوں گا اور اس کے بعد وہ اس طرح غائب ہوئے کہ نہ تو بھارتی فوج کو ان کی خبر لگی اور نہ ہی مکتی باہنی ان کی گرد کو پاسکی، کرنل سلیمان برما کے راستے پاکستان پہنچ گئے اور یوں ناقابل شکست رہ کر غازی کہلانے کے حقدار کہلائے۔

لیکن اس سے پہلے کرنل محمد سلیمان نے ایک اور بہادری کا کام بھی کیا، ایسٹرن کمانڈ ہیڈ کوارٹر سے نکلنے کے بعد وہ ڈھاکہ کے کمبائنڈ ملٹری اسپتال گئے جہاں ان کے ایک اور دوست میجر پی ڈی خان زیر علاج تھے، میجر پی ڈی خان جنگ میں بری طرح زخمی ہو گئے تھے، کرنل سلیمان نے پی ڈی خان کو پاکستان ساتھ لے کر چلنے کی خواہش کا اظہار کیا، مگر انہوں نے کرنل سلیمان کے ساتھ جانے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ان کا زخمی ہونا کرنل سلیمان کی فرار میں رکاوٹ بن جائے گا۔

کرنل سلیمان کے پاس بحث کے لیے زیادہ وقت نہیں تھا، انہوں نے میجر پی ڈی خان کی گردن پر ایک نپی تلی ضرب لگائی جس سے وہ بے ہوش ہو گئے اور اس کے بعد وہ پی ڈی خان کو اٹھا کر برما کے راستے پاکستان لے آئے، بعد میں یہی پی ڈی خان، لیفٹننٹ جنرل پی ڈی خان کہلائے، جنہوں نے پاک آرمی کی مشہور دسویں کور کی کمانڈ بھی کی۔ پاکستان پہنچ کر کرنل سلیمان نے اپنے شہید ساتھی سے کیا گیا دوسرا وعدہ پورا کیا اور اپنے بیٹے کا نام بھی بلال رکھا۔

کرنل سلیمان کے اس دلیری اور غیرت مندانہ اقدام کے باعث، سابق صدر جنرل پرویز مشرف سمیت ان کے کورس میٹ اور ساتھی افسران ان کو سلیمان دا مگنیفسنٹ کے نام سے یاد کرتے تھے، اور ناقابل شکست رہنے والا یہ میگنیفسنٹ سپاہی، 9 دسمبر 2019 کو اپنے سینے پر غازی کا تمغہ سجائے اس دنیا سے کوچ کر گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).