ملک کو بھارت سے خطرہ ہے یا وزیر اعظم کی غیر ذمہ داری سے؟


وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ابوظہبی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان پر بھارتی حملہ کا خطرہ ہے۔ ہمارے پاس انٹیلی جنس رپورٹس موجود ہیں کہ بھارت اندروانی مسائل سے جان چھڑانے کے لئے پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ اسی شام وزیر اعظم عمران خان ایک ٹی وی انٹرویو میں قوم کو یہ بتا رہے تھے کہ حزب اختلاف کے جلسوں میں پاکستانی فوج میں جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام لینے پر شدید غصہ پایا جاتا ہے۔

ان حالات میں یہ طے کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ اس ملک کو بھارتی سازشوں، فوجی تیاریوں، سرجیکل اسٹرائیک کی منصوبہ بندیوں اور تخریب کاروں کی اعانت سے زیادہ خطرہ ہے یا عاقبت نااندیش، ناکام اور سیاسی و سفارتی معاملات میں یکساں طور سے نابلد وزیر اعظم کی سیاسی مہم جوئی سے اندیشہ لاحق ہے۔ حیرت تو اس بات پر بھی ہونی چاہئے کہ ملک کا وزیر خارجہ غیر ملکی کے دورے کے دوران سرجیکل اسٹرائیک کے بارے میں بھارتی تیاریوں کا راز افشا کرنے کے لئے سرکاری مصروفیات معطل کرکے پریس کانفرنس کررہا ہے۔ اور وزیر اعظم اس خطرہ سے اس حد تک بے خبر ہے کہ وہ اسی شام ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اپوزیشن کی تحریک پر تفصیل سے تبصرہ کرنے اور آرمی چیف کے تحمل اور قوت برداشت کی توصیف کررہے تھے۔ یہ امر بھی باعث استعجاب ہے کہ وزیر خارجہ کو ابوظہبی میں میزبان وزیرخارجہ کے ہمراہ میڈیا سے بات کرنے کا موقع نہیں ملا بلکہ انہیں اکیلے ہی پریس کانفرنس منعقد کرنا پڑی۔ اسلام آباد کی ناکام سفارت کاری اور خارجہ و سیکورٹی امور سے غیر پیشہ وارانہ انداز میں نمٹنے کی اس سے واضح مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ ’جنرل باجوہ ایک سلجھے ہوئے آدمی ہیں۔ ان کے اندر ٹھہراؤ ہے۔ اس لیے وہ برداشت کر رہے ہیں۔ کوئی اور فوج میں ہوتا تو بڑا ردعمل آنا تھا۔ غصہ تو اس وقت فوج کے اندر بہت ہے۔ لیکن مجھے پتہ ہے کہ وہ برداشت کر رہے ہیں، کیوں کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں‘۔ ملک کو بھارتی حملے کا شدید خطرہ لاحق ہے لیکن وزیر اعظم انٹرویو میں اس کا ذکر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ بلکہ یہ بتا رہے ہیں کہ جنرل باجوہ کی وجہ سے رد عمل نہیں آیا۔ اس کے بعد جب ملک کا وزیر اعظم یہ کہتا ہے کہ ’فوج تو میرے نیچے ہے‘ تو اس فقرے کے لایعنی ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں رہ جاتی۔ عام پاکستانیوں کے لئے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ وہ وزیر خارجہ کی بات پر یقین کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ ایک ممکنہ جنگ کا انتظار کریں اور نئے مالی دباؤ کے لئے تیار ہوں یا اس بات پر شکر ادا کریں کہ عمران خان نے جنرل باجوہ جیسے شخص کو عہدے کی مدت میں توسیع دے کر کتنا بڑا احسان کیا ہے ورنہ نواز شریف کے بیان کے بعد نہ جانے فوج کیا گزرتی۔

منتخب ہوکر حکومت سنبھالنے، جمہوری عمل پر یقین کا اظہار کرنے اور عوامی مقبولیت کا زعم پالنے والے وزیر اعظم کو یہ جواب دینا چاہئے تھا کہ بعض سیاسی فیصلوں پر دیے گئے ایک سیاسی بیان پر ان کی جمہوری حکومت کے دور میں فوج آخر کیا ردعمل دے سکتی ہے؟ شریف خاندان کے خلاف جو کچھ کیا جاسکتا تھا، اس کی ہر انتہا کو چھو لیا گیا ہے۔ عمران خان اور ان کے رفقا کی زبانی نواز شریف، ان کے اہل خاندان اور ساتھیوں کے علاوہ اپوزیشن کے دیگر لیڈروں کی جتنی کردار کشی ممکن تھی، وہ مسلسل کی جارہی ہے۔ ایک سول حکومت کے دور میں فوج اس سے زیادہ اور کیا ردعمل دے سکتی ہے۔ کیا وزیر اعظم خود فوج کو کسی براہ راست ایکشن کی اجازت دیں گے؟ کیا وزیر اعظم نے فوجی دستوں کو جاتی عمرہ یا بلاول ہاؤس پر دھاوا بولنے سے روکا ہؤا ہے؟ کیا ’فوج میرے نیچے ہے‘ کہنے کے بعد فوجی قیادت کی قصیدہ گوئی ہی منتخب وزیر اعظم کی کل سیاسی طاقت ہے؟ جس کے بل بوتے پر کبھی وہ اپوزیشن کو لانگ مارچ کی دعوت دیتے ہیں اور کبھی اسمبلیوں سے استعفے مانگتے ہیں۔ فوج کے لئے بھی یہ سوچنے کا مقام ہونا چاہئے کہ کیا اب فوج کے اندر پائی جانے والی کیفیت کی تشہیر ملک کے وزیر اعظم کے ذریعے کی جائے گی۔ عمران خان کے بیان سے تو لگتا ہے کہ وہ کسی منتخب حکومت کے سربراہ کی بجائے فوج کے پبلک ریلیشننگ افسر کا کردار ادا کررہے ہیں۔ فوج نے اگر اپنی مرضی سے انہیں یہ رول دیا ہے تو اب تک عسکری قیادت کو سمجھ لینا چاہئے کہ عمران خان ’اثاثہ‘ کی بجائے فوج اور ملک دونوں کے لئے بوجھ بن چکا ہے۔

فوج اگر واقعی ملک کے وزیر اعظم کی کمان میں ہے اور اگر سیاست سے فوجی اداروں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ وزیر اعظم کو ہر معاملہ میں پارلیمنٹ کی بجائے آرمی چیف کی خوشنودی درکار ہوتی ہے۔ تمام اہم حکومتی کمیٹیوں میں فوج کے سربراہ کی موجودگی اہم خیال کی جاتی ہے اور جب باہم ملاقات کا اہتمام ہوتا ہے تو فوج کا سربراہ کسی ماتحت کی طرح نہیں بلکہ مساوی حیثیت کے کسی عہدے دار کی طرح ان کے ساتھ فوٹو سیشن کرواتا ہے۔ وزیر اعظم سیاست میں فوج کی غیر آئینی مداخلت کو مسترد کرنے کے لئے گزشتہ کئی بیانات و انٹرویوز میں یہ کہہ چکے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف تک تمام سیاسی لیڈروں کو فوج ہی لے کر آئی تھی۔ پھر عمران خان کی یہ بات کیسے مان لی جائے کہ وہ خود اپنے بل پر حکومت سنبھالنے کے قابل ہوئے ہیں اور پارلیمنٹ کو بااختیار کئے بغیر مسلسل خود کو طاقت ور سمجھنے کا ڈھونگ کررہے ہیں۔ کیا اس رویہ سے اپوزیشن کے اس الزام کی تصدیق نہیں ہوتی کہ عمران خان دراصل ملک پر سول مارشل لا کا چہرہ ہیں۔ نام اور پروٹوکول کے لئے وزارت عظمی عمران خان کے پاس ہے لیکن معاملات کہیں اور طے ہوتے ہیں۔

آج کے انٹرویو میں عمران خان نے ایک بار پھر دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف نے لندن جانے کے لئے بیماری کی اداکاری کی تھی، اس لئے حکومت راضی ہوگئی۔ حالانکہ نوازشریف کی بیماری کی تصدیق پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت نے کی تھی۔ اس کے باوجود عدالت سے ضمانت کے باوجود وفاقی حکومت نے نواز شریف سے 4 ارب روپے کا ضمانتی بانڈ مانگا تھا۔ اس مطالبے کو لاہور ہائی کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اب نواز شریف کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے عمران خان ان کی رہائی اور بیرون ملک روانگی کا ’کریڈٹ‘ لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یو ٹرن کے نام سے شہرت پانے والے عمران خان کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ ان کی کون سی بات ان کے ماضی کے فعل سے متصادم ہے۔ نواز شریف کی بیرون ملک روانگی پر عمران خان کو کسی اچھے بچے کی طرح خاموش رہنا پڑا تھا کیوں کہ یہ فیصلہ وہیں سے کیا گیا تھا جہاں سے انہیں وزیر اعظم بنانے کا حکم جاری ہؤا تھا۔

اس وقت ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں متفقہ طور پر عمران خان کو نامزد اور تحریک انصاف کی حکومت کو مسلط شدہ کہتی ہیں۔سیاست میں فوجی مداخلت کا الزا م صرف نواز شریف نے عائد نہیں کیا بلکہ پی ڈی ایم کے ہر جلسے اور بیان میں اسی الزام کی تکرار کی جاتی ہے۔ فوج کی وکالت پر مامور عمران خان جب یہ بتاتے ہیں کہ ماضی میں فوج نے کس طرح سیاسی بت تراشے تھے، تو دراصل وہ اپوزیشن کے الزام کی تصدیق کرتے ہیں۔ عمران خان کو جاننا چاہئے کہ اگر وہ واقعی ملک میں دیانت دارانہ آئینی نظام کے حامی ہیں تو انہیں فوج کے ساتھ اشتراک کی بجائے سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر جمہوری روایت کو مضبوط کرنے کی جد و جہد کرنا پڑے گی۔ بصورت دیگر وہ اقتدار کی حرص میں مبتلا ایک ایسے لیڈر کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جس نے اپنے اقتدار کے لئے ملک میں جمہوری جد وجہد کو بدنام کرنے اور عوامی حاکمیت کا راستہ کھوٹا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

عمران خان کا تازہ انٹرویو ان کا اعلان شکست ہے۔ وہ پہلے اپوزیشن پر حملہ آور ہوتے ہیں، پھر مذاکرات اور مصالحت کی بات کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ لانگ مارچ کی دعوت دیتے ہیں پھر یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ اگر اپوزیشن نے ایک ہفتہ تک اسلام آباد میں دھرنا دے لیا تو وہ استعفیٰ دینے پر غور کرنا شروع کردیں گے۔ یہ اعتراف شکست نہیں تو کیا ہے؟ عمران خان کو بھولنا نہیں چاہئے کہ مولانا فضل الرحمان نے تنہا اکتوبر2019 میں اٹھارہ روز تک دھرنا دیاتھا۔ اب تو ان کے ہمراہ ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کے علاوہ 9 دوسری جماعتیں بھی شامل ہیں۔ مولانا کا آزادی مارچ بھی عمران حکومت کی کسی سیاسی حکمت عملی کے ذریعے ختم نہیں ہؤا تھا۔ اسے چوہدری برادران کی ثالثی میں کئے گئے وعدوں کے بعد ختم کیا گیا تھا۔ عمران خان میں حوصلہ ہے تو ان کرداروں کے نام بتا دیں جو اس آزادی مارچ کی حوصلہ افزائی کے بعد اسے ختم کروانے پر مجبور ہوئے تھے۔ اب وہ خود ایک ہفتہ دھرنے کے بعد استعفیٰ پر غور کی بات کر رہے ہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی دباؤ بڑھنے پر وہ ’فرار‘ ہو جائیں گے تو انہیں یہ قدم اٹھانے میں لانگ مارچ یا دھرنا کا انتظار نہیں کرنا چاہئے۔ ابھی تو حالات شاید ان کی دسترس میں ہیں۔ پھر شاید یہ صورت حال بھی باقی نہ رہے۔

عوام مہنگائی، بیروزگاری اور حکومت کی ناقص معاشی حکمت عملی سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ وہ حکومت سے سخت ناراض ہیں۔ منتخب یا نامزد، تحریک انصاف کی حکومتیں اگر عوام کے مسائل حل کرنے میں پیش رفت کرتیں تو شاید اپوزیشن کو بھی سڑکوں پر نکلنے کا حوصلہ نہ ہوتا۔ ملک میں آئین کی بے حرمتی پر صرف سیاسی کارکن و لیڈر ہی سیخ پا نہیں ہیں، عوام کی بہت بڑی اکثریت اداروں کی سیاسی بادشاہ گری سے تنگ آچکی ہے۔ عمران خان کی قیادت میں کنٹرولڈ جمہوریت کے ناکام تجربے کے بعد اس ناراضی میں مزید اضافہ ہؤا ہے۔ اب تو فوج براہ راست اقدام کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتی، فوج میں غم و غصہ کی دھمکی دے کر عمران خان کون سا سیاسی فائدہ حاصل کر لیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments