مچھلی ’بیماری کو کم کرنے والی غذا‘ ہے تو پھر خدشات کیسے؟


 

مچھلیاں

مچھلی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ان غذاؤں میں شامل ہے جو صحت مند کہلاتی ہیں۔

لیکن پودوں پر مبنی متبادل غذا کی آسان دستیابی اور سمندری غذا کی مستقل عدم فراہمی اور کاربن کے اثرات کے بارے میں بڑھتے ہوئے خدشات نے کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا کیا ہے کہ کیا ہمیں اپنی غذا میں مچھلی کو شامل رکھنے کی ضرورت ہے؟

اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے مطابق سنہ 1974 مچھلیوں کا ذخیرہ اگر 90 فیصد تھا تو آج یہ کم ہو کر 66 فیصد رہ گیا ہے۔

دریں اثنا سمندر میں پارے (مرکری) اور دیگر آلودگیوں پر تشویش کا مستقل اظہار کیا جا رہا ہے جس کا مطلب ہے حاملہ یا دودھ پلانے والی خواتین سے یہ کہا جانا ہے کہ وہ اپنی غذا میں کچھ اقسام کی مچھلیوں کا استعمال کم کر دیں۔

تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا مچھلی کھانے سے صحت کے زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں یا پھر نقصانات زیادہ ہوتے ہیں؟

بھاری دھات

حالیہ دہائیوں میں مچھلی کے بارے میں سب سے بڑا خدشہ ان میں آلودگی اور دھات کی ممکنہ طور پر زیادہ سطح رہی ہے۔

اس سلسلے میں تشویش کی ایک چیز پولی کلورینیٹڈ بائفنائل (پی سی بی) رہی ہے۔ اگرچہ ان پر سنہ 1980 کی دہائی تک پابندی عائد کر دی گئی تھی لیکن یہ صنعتی کیمیکل دنیا بھر میں بھاری مقدار میں استعمال ہوتے رہے اور ابھی بھی وہ ہماری مٹی اور پانی میں موجود ہیں۔

وہ مدافعتی نظام سے لے کر دماغ تک ہر چیز پر صحت کے متعدد منفی اثرات کا سبب بتائے گئے ہیں۔ اگرچہ پی سی بی ڈیری مصنوعات سے لے کر پینے کے پانی تک ہر چیز میں موجود ہیں لیکن مچھلی میں ان کی بلند ترین سطح پائی جاتی ہے۔

انگلینڈ کے ہرٹ فورڈ شائر میں روتھمسٹڈ ریسرچ سینٹر میں سائنس کے ڈائریکٹر جوناتھن نیپیئر کا کہنا ہے کہ پی سی بی کو کم کرنے کے لیے مچھلیوں کا کھانا کم کرنا غیر معقول ہو گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘زہریلے مرکبات جمع ہونے کا ممکنہ سبب آبی حیات ہیں جو کہ براہ راست انسانی استعمال کے لیے پکڑی جاتی ہیں۔‘ ان کے خیال سے پالی ہوئی مچھلیاں سمندری مچھلیوں کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہیں کیونکہ انھیں جو چارہ دیا جاتا ہے اسے زہریلے مادوں سے پاک کر دیا جاتا ہے۔

تاہم ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ہے اور پی سی بی میں بھی موسمی اتار چڑھاو آتا رہتا ہے۔

مچھلیاں

مچھلیوں کے ساتھ ایک خدشتہ سب سے زیادہ یہ ہے کہ اس میں زہریلے مادے کی مقدار زیادہ ہوتی جا رہی ہے

اگرچہ ان کو عام طور پر ہماری صحت اور ماحولیات کے لیے بہتر سمجھا جاتا ہے لیکن بڑے پیمانے پر آبی زراعت یعنی مچھلی پالنے کے اپنے مسائل ہیں جیسے ان کے فضلے سے سمندروں کا آلودہ ہونا اور ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا پھیل کر سمندری حیات میں جانا وغیرہ۔

این ایچ ایس (برطانوی سرکاری ہیلتھ سروس) کا یہ مشورہ ہے کہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین ان مچھلیوں کی اقسام کا استعمال کم کر دیں جن میں پی سی بی اور دوسرے زہریلے مادوں کی زیادہ سطح پائے جانے کا خدشہ ہے۔ ایک ہفتے میں دو پورشن سے زیادہ نہ کھائيں۔

ان مچھلیوں میں زیادہ چربی والی مچھلیاں جیسے سیمن اور سارڈائنز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بغیر روغن والی مچھلیاں جن میں کیکڑے اور سی باس شامل ہیں ان کے کھانے میں بھی کمی لائیں۔ ایک پورشن تقریبا 140 گرام ہوتا ہے۔

دوسری پریشانی مرکری یا پارا ہے۔ یہ ایک زہریلا مادہ ہے جو کہ پلیسنٹا یا نال سے گزر سکتا ہے اور بچوں کی نشوونما کو متاثر کرسکتا ہے۔ پارے کا ہاضمے سے لے کر کینسر، ذیابیطس اور دل کی بیماریوں تک اثر دیکھا گیا ہے۔ اگرچہ پارا دیگر کھانے پینے کی چیزوں جیسے سبزیوں میں بھی پایا جاسکتا ہے لیکن ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایک سروے کے 78 فیصد شرکاء میں یہ مچھلی اور سمندری غذا سے آیا تھا۔

امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کے مطابق مچھلیوں میں پارے کی سطح کافی زیادہ ہوتی ہے جس کی بنیاد پر حاملہ خواتین کے لیے ان کا مشورہ ہے کہ کچھ مشہور مچھلیوں کی مقدار کو ایک ہفتہ میں ایک مرتبہ تک محدود کر دینا چاہیے جن میں ہلیبٹ اور ٹونا شامل ہیں،

لیکن نیپیئر کا کہنا ہے کہ مچھلی میں بھاری دھاتوں کے جمع ہونے کے خدشات کو حد سے زیادہ بڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایک پریشانی ہے اور خاص طور پر طویل عرصے تک زندہ رہنے والی نسلوں سے منسلک ہے جس میں سووارڈ فش وغیرہ آتی ہیں جو کہ 15 سے 20 سال تک زندہ رہ سکتی ہیں۔ سووارڈفش میں پارے کی مقدار صفر اعشاریہ 995 پی پی ایم ہوتا ہے جبکہ اوسطا چار سے پانچ سال تک زندہ رہنے والی مچھلی سامن میں یہ 0.014 کے آس پاس ہوتا ہے۔

اس کے متعلق تحقیق ابھی بھی جاری ہے لیکن امریکہ کی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کا کہنا ہے کہ حاملہ خواتین کے لیے فی الحال 0.46 پی پی ایم مرکری کی اجازت ہے اگر وہ ہفتے میں ایک مرتبہ مچھلی کھا رہی ہیں۔

لیکن یہ معاملہ مزید خراب ہونے والا ہے کیونکہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ کرۂ ارض کے گرم ہونے سے سمندر میں پائے جانے والے پارے کی سطح بڑھ سکتی ہے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جیسے ہی آرکٹک کی منجمد برف (پرمافروسٹ) پگھلے گی اس سے منجمد آبی گزرگاہوں میں پھنسا پارہ باہر آ جائے گا۔

نیپیئر کا کہنا ہے کہ مرکری چھوٹا خطرہ ہے لیکن مچھلیوں سے اس سے کہیں زیادہ فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں جیسے اومیگا تھری۔

مچھلیاں

چربی دار ایسڈ

چربی دار مچھلیوں جن میں سامن، ٹونا، سارڈائنز اور میکریل شامل ہیں، کے استعمال سے دل کی بیماریوں کے خطرے کم ہونے کی بات کہی گئی ہے کیونکہ اس میں سمندری اومیگا 3 فیٹی ایسڈ ایکوسوپینٹینائک ایسڈ (ای پی اے) اور ڈوکوساہیکسائونک ایسڈ (ڈی ایچ اے) شامل ہے۔

اومیگا 3 کچھ پودوں پر مبنی ذرائع جیسے تیسی اور اخروٹ میں بھی پائے جاتے ہیں جو کہ اس کی تیسری قسم اے ایل اے سے بھرپور ہوتے ہیں۔ سنہ 2014 کے ایک مطالعہ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پودوں پر مبنی اومیگا 3 کے دل کی صحت سے متعلق فوائد ای پی اے اور ڈی ایچ اے کے برابر ہوسکتے ہیں۔

لیکن ابھی تک اس کی حمایت میں مزید تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ بہرحال آپ ای پی اے اور ڈی ایچ اے الگی سپلیمنٹس اور کھانے والی سمندری جھاڑیوں میں پا سکتے ہیں۔

جوناتھن نیپیئر کا کہنا ہے کہ ‘ای پی اے اور ڈی ایچ اے دونوں ہی انسانی میٹابولزم میں بہت سے اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن ہم ان کو اپنے جسم میں بہت موثر انداز میں نہیں بناسکتے ہیں لہذا یہ ضروری ہے کہ ان کو اپنی غذا کا حصہ بنائیں۔’

ڈی ایچ اے ہمارے دماغ، ریٹینا اور دیگر خصوصی ٹشوز یعنی نسیجوں میں وافر مقدار میں ہوتا ہے۔ ای پی اے کے ساتھ مل کر یہ جسم میں سوزش سے نمٹنے میں مدد کرتا ہے جو دل کی بیماری، کینسر اور ذیابیطس کے زیادہ خطرات سے منسلک ہے۔

انگلینڈ کی ساؤتھمپٹن یونیورسٹی میں انسانی ترقی اور صحت کے سربراہ فلپ کیلڈر کا کہنا ہے کہ ‘بڑی آبادی کے ڈیٹا میں سمندری اومیگا 3 کے اثرات کو دیکھنے سے پتا چلتا ہے کہ صحت پر اس اثرات مستقل اور مضبوط ہیں۔ اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ای پی اے اور ڈی ایچ اے کی زیادہ مقدار لینے والے افراد کو عام امراض، خاص طور پر دل کی بیماریوں اور ان سے مرنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

پارے کے امکانی نقصان سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے مچھلی کے تیل کا سپلیمنٹ لیں تاکہ اس سے اومیگا 3 حاصل ہوتا رہے۔ تاہم عالمی صحت کی تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے حال ہی میں کی جانے والی تحقیقات میں اومیگا 3 سپلیمنٹس کے اثرات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کے اثرات تیل والی مچھلی کھانے جیسے نہیں ہیں۔

نیپیئر کا کہنا ہے کہ ’ہمارے جسم کسی خاص غذائیت یا اجزا کے ایک حصے کو ہضم کرنے کے بجائے پوری غذا کو نظام انہظام میں ڈال دیتے ہیں۔‘

سپلیمنٹ

اومیگا 3 کے لیے سپلیمنٹ بہت براہ راست مچھلی کا متبادل نہیں ہو سکا ہے

یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیہ کی ریڈر اور ڈبلیو ایچ او کے مطالعے کے محققین میں سے ایک لی ہوپر کا کہنا ہے کہ ’ہمارے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ دل کی بیماری سے مرنے کے خطرات بہت خفیف طور پر کم ہوتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ایک شخص کو دل کی بیماری سے مرنے سے بچانے کے لیے تقریبا 334 افراد کو چار سے پانچ سال تک اومیگا3 کے سپلیمنٹ لینے ہوں گے۔

لیکن آبادی کے مطالعے میں ایک مسئلہ ہے جیسا کہ ہوپر کے مطالعے میں سامنے آيا ہے۔ سارڈائن جیسی کچھ تیل والی مچھلیاں نسبتا سستی ہوتی ہیں لیکن مچھلی عام طور پر زیادہ مہنگی غذا ہوتی ہے۔ یہ بات بڑے پیمانے پر قبول کی گئی ہے کہ معاشرتی اور معاشی حیثیت صحت کے نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ ممکن ہے کہ جو خاندان زیادہ مچھلی کھاتے ہیں ان کی آمدنی بھی زیادہ ہو اور عام طور پر ان کی صحت مند طرز زندگی بھی ہو۔

کلیڈر کا کہنا ہے کہ عام طور پر محققین اس طرح کے مربوط عوامل کو بھی مدنظر رکھیں گے لیکن وہ ہر چیز پر نظر نہیں رکھ سکتے جو اس کا باعث بنتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں 79 مطالعات کا جائزہ لیا گیا تھا جس میں سے ہر ایک میں اس بات میں فرق تھا کہ انھوں نے شرکا کی سماجی و اقتصادی حیثیت کو کس طرح کنٹرول کیا ہے۔

لیکن ایسی جانچ میں جہاں مختلف قسم کے لوگوں کو بغیر کسی درجہ بندی کے منتخب کیا گیا اور انھیں اومیگا تھری کا سپلیمنٹ دیا گیا تو ان میں بھی فرق نظر آیا۔ کیلڈر کا کہنا ہے کہ ای پی اے اور ڈی ایچ اے کی کمی کے صحت پر امکانی اثرات کا تجزیہ کرنا مشکل ہے کیونکہ لوگ اپنے سسٹم میں اومیگا 3 کی مختلف سطحوں کے ساتھ آزمائش میں حصہ لیتے ہیں۔

اس کے علاوہ تحقیق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مچھلی ہر ایک کی صحت کو مختلف سطح پر اثر انداز کر سکتی ہے اور اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ ای پی اے اور ڈی ایچ اے کو کس طرح اپنے نظام میں جذب کرتے ہیں۔ کیلڈر کا کہنا ہے کہ یہ فرق کسی بھی شخص کی مجموعی غذا اور طرز زندگی کی بنیاد پر ہو سکتا ہے جبکہ جینیاتی اختلافات بھی اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔

مچھلی کھانے کے صحت سے متعلق فوائد مختلف ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ مچھلی کی پرورش کیسے کی جاتی ہے۔

مچھلیاں

سمندری ماحولیاتی نظام اومیگا 3 سے مالا مال ہے۔ چھوٹی مچھلیاں سمندری پلوکین کھاتی ہیں اور انھیں بڑی مچھلیاں کھا جاتی ہیں اور اس طرح سارا فوڈ چین اومیگا 3 کے ساتھ انسانوں تک پہنچتا ہے۔ لیکن تالابوں میں پالی جانے والی مچھلی کے لیے یہ نظام مختلف ہے اور ہم زیادہ تر ایسی ہی مچھلیاں کھاتے ہیں۔ نیپیئر کہتے ہیں: ‘مچھلی کے فارم میں محض چند ہزار مچھلیاں ہی ہوتی ہیں۔ اور کاشت کار نے جو کچھ انھیں کھانے کو دیتا وہ وہی کھاتی ہیں۔’

عام طور پر پالی جانے والی مچھلیوں کو چھوٹی اقسام کی مچھلیاں دی جاتی ہیں۔ لیکن کھلے سمندر یا دریا میں مچھلی طرح طرح کی چھوٹی مچھلیاں کھاتی تھی۔ فارم میں پالی جانے والی مچھلی کو اکثر پیروین اینکوائز سے تیار غذا دی جاتی ہے۔

لیکن نیپئر کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر آبی زراعت کے بڑھتے رہنے کے امکانات کے باوجود ان چارے والی مچھلیوں کو بہت پہلے ہی زیادہ سے زیادہ سطح پر تیار کیا جارہا ہے تاکہ اس صنعت کو برقرار رکھا جاسے۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے مطابق فش آئل سپلیمنٹس کی بڑھتی ہوئی مانگ کا مطلب یہ ہے کہ مچھلی کے کھانے میں شامل چارے میں تیل کی کمی ہوتی ہے اور اس کا مطلب ہے کہ ہم جس مچھلی کو کھاتے ہیں اس میں اومیگا 3 کی مقدار بھی کم ہورہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘اومیگا فش آئل کی محدود سطحیں ہیں جو ہر سال سمندر سے نکلتی ہیں۔ بس اتنا ہی ہمیں ملتا ہے۔ اگر چہ آبی زراعت میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن سب سے ضروری مادہ جو آپ کو چاہیے وہ وہیں کا وہیں ہے اس لیے آپ مچھلیوں کو جو کھلا رہے ہیں وہ زیادہ مچھلیوں میں تقسیم ہو جا رہا ہے۔

سنہ 2016 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایک دہائی کے دوران پالی ہوئی سالمن مچھلی میں ای پی اے اور ڈی ایچ اے کی سطح میں نصف کی کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن نیپئر کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود پالی ہوئی سالمن میں اب بھی سمندری سالمن سے زیادہ اومیگا 3 موجود ہے۔

‘وائلڈ سالمن بحر اوقیانوس کے پار آگے پیچھے تیرتی ہے۔ یہ دبلی پتلی مچھلی ہے۔ اس پر چربی نہیں جمنے پاتی کیونکہ وہ اسے پگھلا دیتی ہے۔

مچھلیاں

دماغ کا کھانا

اومیگا 3 کے علاوہ مچھلی میں سیلینیئم سمیت دیگر فائدہ مند غذائی اجزا بھی موجود ہیں جو خلیوں کو نقصان اور انفیکشن سے بچاتے ہیں۔ ان میں آیوڈین اور پروٹین شامل ہے جو صحت مند میٹابولزم کو برقرار رکھنے میں بہت معاون ہے۔

مچھلی کو زمانۂ قدیم سے ‘دماغی غذا’ کہا جاتا ہے۔ ایک حالیہ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ صرف اومیگا 3 کے مشمولات کی بدولت نہیں ہے حالانکہ مطالعے میں اومیگا 3 اور ادراک میں زوال کی سست رفتاری کے مابین ربط بھی پایا گیاہے۔

محققین نے ایسے لوگوں کے دماغ کا موازنہ کیا جنہوں نے مچھلی کا استعمال کیا ہے اور جنھوں نے مچھلی کا استعمال نہیں کیا ہے اور یہ پایا ہے کہ سینکی ہوئی یا ابلی ہوئی مچھلی اومیگا 3 کی سطح سے ماورا بھورے رنگ مادے کی مقدار کے ساتھ وابستہ ہے۔

واشنگٹن یونیورسٹی میں سکول آف میڈیسن کے ریڈیولاجی اور نیورولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر سائرس راجی کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے دماغ کا حجم بہتر صحت اور بیماری کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یعنی آپ کے دماغ میں جتنے نیورونز ہوں گے اتنا بڑا آپ کا دماغ ہوگا۔’

محققین نے مچھلی کھانے کی عادت وال ے163 شرکاء کے سر کے ایم آر آئی اسکین کا موازنہ کیا جو اوسطا اپنی عمر کی 70 کی دہائی کے آخر میں تھے۔ انھوں نے پایا کہ ان شرکاء کے مقابلے میں جو مچھلی نہیں کھاتے تھے ان لوگوں کے دماغ کے حجم زیادہ تھے جو ہفتے میں ایک بار مچھلی کھاتے تھے۔ بطور خاص ان کے ان کے آگے کے حصے توجہ مرکوز کرنے کے لیے اہم ہوتا ہے اور ان کے کنپٹی والا حصہ جو یادداشت، سیکھنے اور ادراک کے لیے اہم ہوتا ہے وہ حصے بڑے تھے۔

راجی کہتے ہیں کہ مچھلی اور دماغ کے مابین یہ تعلق مچھلیوں سے کم سوزش کا اثر ہوسکتا ہے کیونکہ جب دماغ سوزش کو کم کرنے کا جواب دیتا ہے تو اس عمل سے دماغی خلیے متاثر ہو سکتے ہیں۔

راجی کا کہنا ہے کہ ‘اس کا مطلب ہے کہ آپ دماغ کی صحت کو بہتر بناسکتے ہیں اور الزائمر جیسی بیماری کو آسان چیز سے روک سکتے ہیں کہ مچھلی کو آپ اپنی غذا میں شامل کر لیں۔’

جھینگا

راجی کا کہنا ہے کہ دماغ کو نسیان کے مرض سے بچانے کا ممکنہ طریقہ یہ ہے کہ آپ جب عمر کے 20 اور 30 میں ہوں تو آپ اپنی غذا میں ہر ہفتے مچھلی کو ضرور شامل کریں۔

مچھلی سے صحت مند رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے ہماری غذا میں کم صحت مند کھانے کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔ ہوپر کہتے ہیں: ‘اگر ہم زیادہ مچھلی کھاتے ہیں تو ہم دوسری چیزیں کم کھائیں گے۔’

تاہم مچھلی نہ کھانے والوں کے متعلق کوئی ٹھوس تحقیق نہیں ہے کہ اس کی کمی کے سبب صحت پر مضر اثرات پڑتے ہیں اس لیے کیلڈر کا کہنا ہے کہ قطعی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ مچھلی مجموعی طور پر انسانی صحت کے لیے ضروری ہے۔ تاہم انھوں نے مزید کہا یہ تو واضح ہے کہ اومیگا 3 صحت کی بہتری کا سبب ہے اور بیماری کے خطرے کو کم کرتا ہے۔

لیکن واقعی مچھلی کس قدر صحت مند ہے یہ ابھی بھی واضح نہیں ہے۔ کیلڈر کا کہنا ہے ‘چونکہ مچھلی پائیدار کھانے کا ذریعہ نہیں ہے، اس لیے اب تحقیق شاید اس کے حل پر مرکوز ہوگی کہ مچھلی پر تحقیق کے بجائے کس طرح ایلجی اگائيں اور زیادہ اومیگا 3 تیل حاصل کریں۔’

اب یہ انفرادی طور پر لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ مچھلی کی دستیاب اقسام میں سے اپنے لیے کیا انتخاب کریں۔ مچھلی کھانے کے متعلق میرین کنزرویشن سوسائٹی کے گائڈ سے یہ پتا چل سکتا ہے کہ کون سی مچھلی بہترین ہے۔ اس میں 133 اقسام میں سے 50 کا ذکر ہے۔ اور یہ ایک اچھا انتخاب ہے۔ خوش قسمتی سے ان میں پالی جانے والی سامن سے لے کر جھینگے، کوڈ، میکریل، مسلز، اویسٹر اور پالی ہوئی ہیلیبٹ جیسی پسندیدہ مچھلیاں شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp