1971 کی جنگ: جب امریکہ نے انڈیا کو ڈرانے کے لیے اپنا جنگی بیڑہ بھیجا


12 دسمبر سنہ 1971 کو جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس دوبارہ بلایا گیا تو اندرا گاندھی نے پاکستانی وفد کی قیادت کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو اقوام متحدہ میں امریکی نمائندے جارج بش سینیئر کا مقابلہ کرنے کے لیے وزیر خارجہ سورن سنگھ کو بھیجا۔

سورن سنگھ نے پاکستان پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ کیا مسٹر بھٹو ابھی تک انڈیا پر جیت حاصل کرنے اور دہلی پہنچنے کا خواب دیکھ رہے ہیں؟

گیری بیس نے اپنی کتاب ’دی بلڈ ٹیلیگرام‘ میں لکھاہے کہ ’جب بش نے رچارڈ نکسن اور ہنری کسنجر کی ہدایت پر لڑائی میں انڈیا کے ارادوں کے بارے میں پوچھا تو سورن سنگھ نے بدلے میں ان سے پوچھ لیا کہ ویتنام میں امریکی ارادے کیا ہیں؟’

سوویت یونین نے تیسری اور آخری بار سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی قرارداد پر ویٹو کرتے ہوئے انڈیا کو بچایا۔ اس سے کسنجر اس قدر پریشان ہوئے کہ انھوں نے نکسن سے پوچھے بغیر سوویت یونین کے ساتھ ہونے والی سربراہی کانفرنس منسوخ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ (ہنری کسنجر، وائٹ ہاؤس ایئرز، صفحہ 790)

یو ایس ایس انٹرپرائز کو خلیج بنگال بھیجنے کا فیصلہ

دریں اثنا جب انڈیا، پاکستان اور امریکہ کے سفارت کار ایک دوسرے کی توہین کرنے پر تلے ہوئے تھے نکسن اور کسنجر نے فیصلہ کیا کہ وہ مشرقی پاکستان سے امریکی شہریوں کے انخلا کے بہانے امریکی بحری بیڑے کو فوری طور پر خلیج بنگال کی طرف روانہ کریں گے۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ ایک دن پہلے ہی تمام امریکی شہریوں کو ڈھاکہ سے نکالا جا چکا تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ڈی کلاسیفائڈ ٹیپوں میں کہا گیا تھا کہ ‘کسنجر نے بھٹو کو آگاہ کیا تھا کہ امریکی جنگی جہاز جلد ہی خلیج ملاکا سے نکل کر خلیج بنگال میں داخل ہو جائیں گے۔ نکسن نے پرزور انداز میں یہ بھی کہا کہ جب تک انڈین فوجوں کے انخلا کے بارے میں کوئی معاہدہ نہیں ہوتا ہے وہ انڈیا کی طرف بڑھتے رہیں گے۔’ (FRUS VOL E 7)

جوہری توانائی سے چلنے والے امریکہ کے ساتویں جنگی بیڑے انٹرپرائز میں سات تباہ کن طیارے، ایک ہیلی کاپٹر کیریئر یو ایس ایس تریپولی اور ایک تیل کیریئر شامل تھا۔

اس کی کمان ایڈمرل جان مکین جونیئر نے سنبھال رکھی تھی۔ ان کے بیٹے جان مکین بعد میں اریزونا کے سینیٹر اور سنہ 2008 میں صدر کے لیے ریپبلکن امیدوار بنے۔

’دی بلڈ ٹیلیگرام‘ کے مصنف گیری بیس لکھتے ہیں کہ ‘امریکی بیڑا انڈیا کے بحری بیڑے سے کہیں زیادہ بڑا تھا۔ انٹرپرائز نے میزائل بحران کے دوران کیوبا کا محاصرہ کیا۔ وہ انڈیا کے واحد طیارہ بردار جہاز آئی این ایس وکرانت سے کم از کم پانچ گنا بڑا تھا۔ یہاں تک کہ انٹرپرائز کے بیڑے میں شامل تریپولی بھی وکرانت سے بڑا تھا۔ جوہری توانائی سے چلنے والا انٹرپرائز بغیر دوبارہ ایندھن بھرے پوری دنیا کا چکر لگا سکتا تھا۔ دوسری طرف وکرانت کے بوائلر بھی بہتر طور پر کام نہیں کررہے تھے۔

مشن واضح نہیں

دوسری طرف امریکہ کے اس اقدام پر سوویت یونین بھی خاموش بیٹھا نہیں تھا۔

ایڈمرل ایس ایم نندا نے اپنی سوانح عمری ‘دی مین وھو بامبڈ کراچی’ میں لکھا: ‘دسمبر کے پہلے ہفتے میں ہی سوویت یونین کا ایک تباہ کن اور بارودی سرنگ صاف کرنے والا بیڑا خلیج ملاکا سے اس علاقے میں پہنچ چکا تھا۔

سوویت بحری بیڑا اس وقت تک امریکی بیڑے کے پیچھے لگا رہا جب تک جنوری 1972 کے پہلے ہفتے میں وہ وہاں سے چلا نہیں گیا۔ بہت دنوں بعد انٹرپرائز کے کیپٹن ایڈمرل جموالٹ نومبر سنہ 1989 میں یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوٹ میں تقریر کرنے آئے تھے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ بحر ہند میں ساتویں بیڑے کو بھیجنے کا مقصد کیا تھا تو انھوں نے جواب دیا کہ انھیں یہ واضح نہیں کہا گیا تھا کہ ان کا مشن کیا ہے، سوائے اس کے کہ شاید امریکہ دنیا کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ ہم مصیبت کے وقت دوست کی مدد کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔

ایڈمرل جموالٹ نے کسنجر سے یہ بھی پوچھا تھا کہ اگر اسے انڈین بحریہ کے جہاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انھیں کیا کرنا ہوگا اس کے جواب میں کسنجر کا جواب تھا کہ یہ آپ نے فیصلہ کرنا ہے۔’

اندرا گاندھی نے ایڈمرل نندا کو طلب کیا

ایڈمرل جموالٹ کی تقریر کے بعد ایڈمرل نندا نے اھہیں اپنے گھر ڈرنکس کے لیے مدعو کیا۔ وہاں جموالٹ نے پوچھا کہ جب آپ کو ہمارے خلیج بنگال پہنچنے کی اطلاع ملی تو آپ کا رد عمل کیا تھا؟

ایڈمرل نندا اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں: ‘میں نے جموالٹ کو بتایا کہ جیسے ہی یہ خبر پھیلی ہماری وزیر اعظم نے مجھے بلوا بھیجا اور مجھ سے پوچھا کہ بحریہ اس بارے میں کیا کرنے جا رہی ہے۔ میں نے جواب دیا کیا آپ کو لگتا ہے کہ امریکہ انڈیا کے ساتھ جنگ کا اعلان کرے گا؟ انھوں نے پھر پوچھا آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ اگر وہ ہمارے جہازوں پر حملہ کرتے ہیں تو یہ جنگی کارروائی ہوگی۔ انھوں نے پھر پوچھا، آپ کے خیال میں اس سے کیسے نمٹا جانا چاہیے؟ میں نے کہا میڈم، وہ ہم پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’ہمیں ثابت قدم رہنا چاہیے۔ میں اپنے جہازوں کے کپتانوں کو حکم جاری کر رہا ہوں کہ اگر انھیں کسی امریکی جہاز کا سامنا ہو تو وہ ان سے رابطہ کریں اور انھیں اپنے بیڑے پر ڈرنکس کے لیے مدعو کریں۔ یہ سن کر وہ ہنس پڑیں۔ میں نے اپنے نائب ایڈمرل کرشنن کو ہدایات دی کہ میرا پیغام تمام کپتانوں تک پہنچنا چاہیے۔ ادھر سوویت یونین اپنے جہازوں سے امریکی بحری جہازوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے ہوئے تھا اور ہمیں اس کے بارے میں مکمل معلومات دے رہا تھا۔‘

امریکہ کا انڈین بحریہ سے الجھنے کا ارادہ نہیں تھا

اسی دوران اندرا گاندھی نے دہلی کے رام لیلا میدان میں ایک بہت بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا۔ جب اندرا گاندھی کی تقریر جاری تھی انڈین فضائیہ کا طیارہ جلسہ گاہ کے اوپر منڈلا رہا تھا تاکہ پاکستان کا کوئی طیارہ اس جلسہ عام کو نشانہ نہ بنائے۔ اس جلسے میں امریکہ اور چین کا نام لیے بغیر اندرا گاندھی نے کہا کہ کچھ بیرونی طاقتیں ہمیں دھمکیاں دینے کی کوشش کر رہی ہیں جن کا مناسب جواب دیا جائے گا۔ یہ تقریر اتنی اشتعال انگیز تھی کہ بعد میں ان کے پریس آفس نے اس کے کچھ حصے کو اس کی تحریری شکل سے ہٹا دیا تھا۔

اسی دوران جب یحییٰ خان کو معلوم ہوا کہ ساتواں امریکی بیڑا خلیج بنگال کی طرف بڑھ رہا ہے تو انھوں نے نکسن سے گزارش کی کہ اسے کراچی کی حفاظت کے لیے بھیجا جائے۔

پیٹرک موئنیہان اپنی کتاب ‘ایسٹرینجڈ ڈیموکریسیز انڈیا اینڈ دی یونائیٹڈ سٹیٹس’ میں لکھتے ہیں کہ ‘یہ تاثر دینے کے باوجود کہ وہ کسی بھی وقت انڈیا سے لڑائی شروع کرسکتے ہیں نکسن کا کسی بھی بحری جنگ کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ وہ انٹرپرائز کو بہانے کے طور پر استعمال کررہے تھے تاکہ سوویت یونین انڈیا کو جنگ بندی پر مجبور کرے۔ ذاتی طور پر کسنجر کہا کرتے تھے کہ ان کا فوجی حیثیت سے اس لڑائی میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔’

ویتنام جنگ کی وجہ سے امریکی مداخلت کا امکان نہیں

دوسری جانب نیول انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر ایڈمرل میہر رائے نے اندرا گاندھی کو دی گئی بریفنگ میں بتایا کہ ساتواں بیڑا انڈیا پر حملہ کرسکتا ہے لیکن ویتنام کی جنگ کی وجہ سے اس امکان نہیں ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ انڈین بحریہ کے ذریعہ پاکستان کا محاصرہ توڑنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

انڈین نیوی کے ایسٹرن کمانڈ کے چیف ایڈمرل این کرشنن اپنی کتاب ‘نو وے بٹ سرینڈر’ میں لکھتے ہیں: ‘مجھے ڈر تھا کہ امریکی چٹاگانگ آسکتے ہیں۔ ہم نے یہاں تک سوچا تھا کہ ہماری آبدوزوں میں سے ایک انٹرپرائز جہاز کو ٹارپیڈو کردے تاکہ اس بیڑے کی رفتار کسی حد تک کم ہوجائے۔ بعد میں اس کا واحد علاج یہ نکالا کہ ہم چٹاگانگ اور کاکس بازار پر اپنے بحری حملوں کو تیز کر دیں۔’

انڈیای قیادت کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ ویتنام میں پھنسے امریکہ کے لیے انڈیا کے خلاف جنگ میں اپنی فوج بھیجنا تقریبا ناممکن تھا۔

اندرا گاندھی نے بعد میں اطالوی صحافی اوریانا فلاچی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ‘اگر امریکیوں نے ایک بھی گولی چلائی ہوتی یا امریکی خلیج بنگال میں بیٹھنے کے علاوہ کوئی اور کام کرتے تو تیسری جنگ عظیم شروع ہوسکتی تھی۔ لیکن میں آپ کو سچ بتاؤں کہ ایک بار بھی میرے ذہن میں یہ خوف پیدا نہیں ہوا۔’

اس کے باوجود انڈیا نے سوویت یونین سے کہا کہ وہ امریکہ کو متنبہ کرے کہ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس کے مہلک نتائج برآمد ہوں گے۔ اسی دوران پی این ہکسر نے ماسکو بھیجے گئے انڈین سفیر ڈی پی دھر سے خصوصی طور پر سوویت وزیر اعظم الیکسی کوسیجن کو یہ یقین دہانی کرانے کے لیے کہا کہ بنگلہ دیش اور مغربی پاکستان میں انڈیا کے علاقائی عزائم نہیں ہیں۔ نہرو میموریل لائبریری میں رکھے ہوئے ہکسر کے کاغذات میں لکھا ہے کہ ‘انڈیا میں سوویت سفیر نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ سوویت یونین امریکہ کو جنگ میں مداخلت نہیں کرنے دے گا۔’

امریکہ نے مشرقی پاکستان میں آنے کی خبر لیک کرائی

اس کے برعکس امریکہ سے یہ خبریں لیک کرائی جا رہی تھیں کہ مشرقی پاکستان کے ساحل میں گھسنے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے جس میں تین میرین بٹالینوں کو تیار رہنے کو کہا گیا ہے اور نکسن نے ضرورت پڑنے پر انٹرپرائز کے بمباروں کو انڈیا کے مواصلاتی مراکز پر بمباری کی اجازت دے دی ہے۔ جب انڈین سفیر لکشمی کانت جھا نے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینیئر عہدیدار سے امریکی فوج کے ساحل سے مشرقی پاکستان میں داخل ہونے کے امکان کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اس کی واضح تردید نہیں کی۔

انڈین سفیر اس سے اس قدر پریشان ہوئے کہ انھوں نے امریکی ٹیلی ویژن پر نکسن انتظامیہ کے ارادوں کو خوب برا بھلا کہا۔ بعد میں منظر عام پر آنے وللے وائٹ ہاؤس ٹیپس سے پتہ چلتا ہے کہ نکسن اور کسنجر دونوں ہی انڈیا کو اس طرح ہراساں کرنے میں کافی لطف اندوز ہو رہے تھے۔

کسنجر نے کہا کہ انڈین سفیر کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ہم خلیج بنگال میں اترنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ میرے لیے یہ اچھی چیز ہے۔ نکسن نے مزید کہا: ‘ہاں وہ لوگ اس سے خوفزدہ ہیں، بیڑے کو بھیجنے کا فیصلہ ایک اچھا قدم ہے۔’

ان سب کے باوجود امریکی بیڑا چٹاگانگ سے تقریبا 1000 کلومیٹر کے فاصلے پر رہا۔ پینٹاگون نے اعتراف کیا کہ اس علاقے میں چار یا پانچ سوویت بحری جہاز موجود تھے ، لیکن انٹرپرائز کو نہ تو ان کا سامنا کرنا پڑا اور نہ ہی کوئی انڈین یا پاکستانی بحری جہاز کا سامنا کرنا پڑا۔ روسی بیڑے میں ایک تباہ کن طیارہ، کروزر اور دو جارحانہ آبدوزیں تھیں۔ اور اس کی کمان ایڈمرل ولادی میر کرگلیاکوف کے پاس تھی۔

بعدازاں اپنی کتاب ‘وار از بورنگ’ میں سبسٹین رابلین نے لکھا ہے کہ ‘کرگلیاکوف نے روسی ٹیلی ویژن کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر امریکی آگے بڑھے تو ہم نے ان کو گھیرنے کا ارادہ کیا تھا۔ میں اپنی آبدوزوں کے میزائل ٹیوب کھول کر انٹرپرائز کے سامنے کھڑا ہونے والا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بعد میں دو اور روسی بحری جہاز اس بیڑے میں شامل ہوگئے۔

سپر ڈالنے سےانٹرپرائز کا رخ مڑا

سابق انڈین سفارتکار اروندھتی گھوش نے بعد میں کہا کہ ان دنوں کلکتہ میں یہ افواہ تھی کہ امریکی وہاں بم گرائیں گے۔ ہم مذاقاً کہتے تھے گرانے دو۔ ہمیں اس بہانے سے کلکتہ کو نیا روپ دینے کا موقع ملے گا۔ اس بار پہلے سے بہتر ہے۔ ‘اگر انٹرپرائز بغیر رکے چلتا تو وہ 16 دسمبر کی صبح مشرقی پاکستان کے ساحل پر پہنچ سکتا تھا۔

لیکن اس سے ایک روز قبل پاکستانی فوجی سربراہ جنرل نیازی نے جنرل مانیکشا کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ وہ جنگ بندی چاہتے ہیں۔ انڈیا میں اس کی یہ تشریح کی گئی کہ پاکستان ہتھیار ڈالنے کو تیار ہے۔ جیسے ہی پاکستان نے ہتھیار ڈالے، انٹرپرائز نے مشرقی پاکستان سے سری لنکا کی جانب اپنا رخ موڑ دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp