بھاگ جاؤ بیٹا


بیٹا، بھاگو!
بھاگ جاؤ بیٹا!

یہ آواز آرمی پبلک سکول کے کاریڈورز میں گونج رہی تھی۔ بچے اس آواز سے مانوس تھے۔ اس آواز میں ہمیشہ شفقت اور محبت ہوتی تھی۔ آج اس آواز میں تڑپ اور احساس تھا۔

بیٹا بھاگو!
بھاگ جاؤ۔ رکو نہیں! بھاگ جاؤ!

یہ آواز آرمی پبلک سکول کی سینئر ٹیچر میڈم صائمہ زریں طارق کی تھی۔ وہ آڈیٹوریم کے ایک دروازے پر ڈھال بنے کھڑی تھیں۔ بطور ٹیچر وہ اس آڈیٹوریم سے بچوں کو کلاسز تک لانے یا آڈیٹوریم تک پہنچانے کا فرض متعدد بار نبھا چکی تھیں مگر آج صورتحال مختلف تھی۔ گولیوں کی بوچھاڑ میں ان کی آواز اور چیخیں گونج رہی تھیں۔ بیٹا چھپ جاؤ!

بیٹا بھاگو! رکو نہیں!

چند بچوں نے ان کے پاس رکنا چاہا۔ انہوں نے پرے دھکیل دیا۔ بچے حیران تھے کہ ماں بچوں کو پرے کیسے دھکیل سکتی ہے۔ بیٹا بھاگو! اس دروازے سے نکل جاؤ۔
بچے حیران بھی تھے۔ ہراساں اور حیراں۔ یہ کیا ہو رہا تھا؟ کچھ بچے تو سمجھ ہی نہیں پائے تھے کہ یہ کیا ہے؟

حیران و پریشان بچے ٹھوکر لگتی تو گرتے۔ گرم گرم لہو کا احساس ہوتا تو اس وقت تک گر چکے ہوتے۔ تکلیف نہیں حیرانی تھی۔ بچے واقعی ششدر تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ ان کی شرارتوں کا انداز بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ کچھ بچے یہ سب مناظر کو ویڈیو گیمز کے مناظر سمجھ رہے تھے۔

صائمہ زریں نے آگے بڑھ کر بازو وا کیے اور پھر چیخیں، بچو بھاگو! وہ دیکھ چکی تھیں کہ دوسرے دروازے سے دہشت گرد پہنچ چکے ہیں۔ وہ آگے بڑھیں اور ہمت کے ساتھ ان کی طرف اٹھی رائفل پکڑ لی۔

ٹریگر پر رکھی پتھر کی انگلی دبی، گولیاں نکلیں اور ان کے سینے میں پیوست ہو گئیں۔ گلے سے نقاہت بھری آخری آواز نکلی۔ بچے تم بھاگ جاؤ! اور پھر آواز کی بجائے تیز سانسیں نکلنے لگیں۔ ان میں سے ایک دہشت گرد نے دروازے سے باہر جھانکا۔ جس طرف وہ بچوں کو بھاگنے کا کہہ رہی تھیں۔ وہاں بھاگتے بچوں کو دیکھ کر اس دہشت گرد کو لگا کہ اس کے شکار میں سے بہت سے معصوم اس ٹیچر کی وجہ سے بچ نکلے ہیں۔ ازاں بعد جب حقائق سمیٹے گئے تو ستائیس بچے وہاں سے بھاگے تھے۔ اس ٹیچر کے جسم کو ہلتا دیکھ کر ان دہشت گردوں نے انہیں کرسی پر باندھ دیا۔

جسم تڑپ رہا تھا۔ یہ ماں اب بھی نیم وا آنکھوں سے بچوں کو دیکھ رہی تھی۔ ممتا زندہ تھی۔ دل زندہ تھا۔ ویسے بھی مرنے کے بعد دل چوبیس گھنٹے زندہ رہتا ہے۔ شاید اللہ نے یہ وصف یہ اس سانحے کے لئے بنایا تھا۔

گولیوں، آگ اور خون کا یہ کھیل یہیں رکا نہیں۔ ان دہشت گردوں نے اس آڈیٹوریم میں موجود ٹیچر صائمہ زریں کو کرسی سے باندھا۔ جسم سے ہاتھ الگ کیے۔ دونوں پاؤں الگ کیے۔ جسم پر فاسفورس پھینکا اور آگ لگا دی۔ وہ ظلم و بربریت کا ہر وار آزمانا چاہتے تھے۔

میں اس موضوع پر نہیں لکھ سکتا۔ میری ہمت ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ میں نے آج سارا دن فیس بک نہیں دیکھا۔ ابھی بریگیڈیئر طارق سعید کی پوسٹ دیکھی تو چاہا کہ کچھ لکھوں۔ طارق سعید میرے فیس بک فرینڈ ہیں۔ ان کا سب سے بڑا حوالہ یہ ہے کہ آرمی پبلک سکول کی ہیرو محترمہ صائمہ زریں کے شوہر ہیں۔ ان کے تینوں بچوں کو سینے سے لگا کر اپنی شہید اہلیہ کی بہادری اور قربانی پر نازاں ہیں۔ ان کے بقول ”وہ پی ایچ ڈی کر رہی تھیں۔ انہوں نے ایجوکیشن میں ایم فل کیا تھا۔ تقریباً دو دہائیوں سے انہوں نے تعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا۔ وہ بہترین شریک حیات، بہت اچھی ماں اور بہترین انسان تھیں“ ۔

شہید صائمہ زریں طارق کو ستارہ شجاعت سے نوازا گیا۔ ستارہ شجاعت حکومت پاکستان کی طرف سے ملنے والا سب سے بڑا بہادری کا سول ایوارڈ ہے۔ یہ دنیاوی میڈل ان ستائیس بچوں کی زندگیوں کو بچانے کے اعزاز کے سامنے بہت معمولی ہے۔ گولیاں برساتی گن کے سامنے کھڑا ہونے کا حوصلہ ان اعزازات سے بہت بڑا ہے۔

یہ صرف ایک شہید کی کہانی ہے۔ میں جب ایک سو چوالیس شہداء کے بارے سوچتا ہوں تو دل پھٹتا محسوس ہوتا ہے۔ کتنے بچے دوسروں کے سامنے ڈھال بنے ہوں گے۔ کس کس پیشانی پر پھوارا پھوٹا ہو گا۔ کہاں کہاں چوٹیں لگی ہوں گیں۔ لہو سے بھیگی کتابوں اور کاپیوں کو صاف کرنے کی کوشش کی ہوگی۔ کیا کیا سوچیں؟ کس کس تکلیف کو چشم تصور سے محسوس کریں؟ گوش تصور سے کس کس چیخ اور سسکی کو سنیں؟

میں جب دسمبر 2017 میں قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں تھا تو اس تکلیف سے نجات کا ایک راستہ ڈھونڈا۔ میرے استاد ڈاکٹر نذیر حسین، میرے دوست رائے اظہر حسین (اسلام کچہری پر طالبان حملہ کے غازی اور تمغہ شجاعت) حنین مہدی، رشید خالد صاحب، شبیر لدھڑ، متعدد دوستوں، طلباء اور میرے اہل خانہ نے مل کر ایک سو چوالیس پھل دار درخت لگائے۔ ہر شہید کے نام کا ایک پھل دار درخت فارمیسی ڈیپارٹمنٹ، لائبریری کے پہلو میں اگائے گئے۔ یہ پیغام تھا ان لوگوں کے لئے کہ تم نے ایک سو چوالیس لوگوں کی سانس روکنے کی کوشش کی۔ ان کے نام سے لگے درخت سے تم اور تمہاری نسلیں بھی سانس لیں گیں۔ ان درختوں کی آکسیجن جب تمہارے سینے میں اترے گی تو ان سانسوں کو قرار ملے گا جن کو تم نے ظلم و بربریت کے پیمانوں میں پامال کیا۔

سانحہ پشاور دلوں اور دماغوں میں بسا وہ لاوہ ہے جو ہر دسمبر کی سولہ تاریخ کو ہمیں دکھ دینے ضرور آئے گا۔ لاوہ بہہ بھی جائے تو اس کے نشان ہزاروں سال زمین پر نظر آتے ہیں۔ یہ کسی ریاست، برادری، طبقے، یا شعبہ کا دکھ نہیں بلکہ انسانیت کا دکھ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).