سمندری گھاس بھوک مٹانے کے علاوہ اور کس کام آ سکتی ہے؟


جب آپ انڈیا کی ریاست تامل ناڈو میں پمبان جزیروں کی جانب جاتے ہیں تو چمکتا سبز پانی اور اچھلتی کشتیاں آپ کا استقبال کرتی ہیں۔ مگر پانی کی سطح کے نیچے ایک تبدیلی آ رہی ہے جو کہ علاقے کے ماحول اور معیشت یہاں تک کہ کھانوں کو بدل کر رکھ سکتی ہے۔ یہ ساحلی دیہات انڈیا میں وہ جگہیں ہیں جہاں سمندری گھاس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

اگرچہ سمندری گھاس (سی ویڈ) انڈیا میں روایتی ادویات میں ہزاروں سالوں سے استعمال ہوتی ہے مگر اس کا انڈین کی ثقافت میں وہ کردار نہیں رہا ہے جو کہ دیگر ایشیائی ممالک میں رہا ہے۔ اسی لیے انڈیا میں سی ویڈ کو کاشت کرنے کی روایت ان علاقوں میں تو رہی ہے مگر زیادہ پھیلی نہیں۔

یہاں پر مقامی لوگ تاریخی طور پر قدرتی طور پر پائی جانے والی قدرتی سمندری گھاس جمع کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ باقی انڈیا اب ان دیہات کی جانب دیکھ رہا ہے کیونکہ سمندری گھاس کی کاشت دنیا بھر میں تیزی سے کھانے کی صنعت کے لیے بڑھ رہی ہے۔ عالمی سطح پر اس میں ہر سال 8 فیصد تک اضافہ ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایسے بیگ جنھیں استعمال کے بعد کھایا بھی جا سکتا ہے

جاوا کا وہ پکوان جس نے وبا کو شہر سے بھگا دیا

بایو چار کیا ہے اور یہ ماحولیات کے لیے کتنا مفید ہے؟

انڈیا میں محققین بہت عرصے سے سمندری گھاس کی کاشت کو زراعت کے شعبے میں ایک دیرپا حل کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔

انڈیا کی ساحلی پٹیاں سمندری گھاس کے لیے انتہائی موزوں ماحول، گرم موسم اور خوراک کی بہت زیادہ رسد کی وجہ سے بہترین مقام ہیں۔ گجرات اور تامل ناڈو میں ملک کی سب سے زیادہ اقسام کی سمندری گھاس پائی جاتی ہے۔

تامل ناڈو کے 1000 کلومیٹر ساحل پر 282 اقسام کی سمندری گھاس پائی جاتی ہے۔ انڈیا میں کل 841 اقسام کی سمندری گھاس موجود ہے تاہم ان میں سے کچھ کی ہی کاشت ہوتی ہے۔

اس کے انڈیا کو کافی فوائد مل سکتے ہیں۔ انڈیا ایک زرعی ملک ہے جہاں 60 فیصد زمین کا استعمال کاشت کاری کے لیے ہوتا ہے۔ مگر ملک کی قابلِ کاشت اراضی میں سے 47 فیصد میں مٹی کا معیار گرتا جا رہا ہے۔ یعنی پانی کی وجہ سے زمین کا کٹاؤ اس میں سے ایک تہائی نقصان کا ذمہ دار ہے مگر سمندری گھاس کے تناظر میں پانی اس کے حل کا حصہ بن سکتا ہے۔

دلی یونیورسٹی کے ماہرِ نباتیات دیناباندھو ساحو کہتے ہیں ‘سمندری گھاس میں غذا کی کمی کا مقابلہ کرنے کی قدرتی صلاحیت ہے اور اس میں آئیوڈین، وٹامن اور پروٹینز موجود ہوتے ہیں۔‘ دیناباندھو ساحو انڈیا کی زراعت میں بیلی ریولوشن (یعنی سمندری کاشتکاری) کے حق میں بات کرتے رہے ہیں۔ اور یہ ریولوشن قریب آتی جا رہی ہے۔ انڈیا کی حکومت نے آئندہ پانچ سالوں میں سمندری گھاس کی کاشت کاری کے لیے اس سال 87 ملین ڈالر کی گرانٹ مختص کی ہے۔

سمندری گھاس کی غذائی افادیت ہی اس کا واحد فائدہ نہیں ہے۔ سمندری گھاس اپنی توانائی دیگر پودوں کی طرح فوٹوسنتھیسز سے حاصل کرتی ہے یعنی یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتی ہے۔

پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ اس میں جمع ہونے والی کاربن اس وقت واپس ماحول میں شامل ہو جاتی ہے جب یہ پودا مر جاتا ہے۔ مگر زیرِ سمندر گہرے علاقوں میں سمندری گھاس کے ذخائر ملنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ اس میں موجود کاربن وہیں پھنسی رہتی ہے اور پودے کے مر جانے کے بعد وہ کاربن اپنے ساتھ سمندر کی تہہ میں لے جاتی ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سمندی گھاس کی کاشت کاری سے کاربن ماحول سے نکالی جا سکتی ہے اور ماہرین کی تحقیق کے مطابق اس سے ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں فائدہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سمندری گھاس بہت سی سمندری حیاتیات کے لیے خوراک کا ذریعے بنتی ہے۔

مگر انڈیا میں سمندری گھاس کی کاشت کاری کی مقبولیت قدرے سست روی سے آگے بڑھی ہے۔

یہ کوششیں 1987 میں شروع کی گئی تھیں جب انڈیا کی کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ نے فلپائن میں پائی جانے والی سمندری گھاس کی کاشت شروع کی تھی۔

اس وقت مقصد یہ تھا کہ صنعتی شعبے میں اس سے جیلی، کاسمیٹکس، اور دیگر اشیائے خود و نوش بنائی جائیں۔ مگر گجرات میں ایک دہائی کے ٹیسٹوں کے بعد اسے تمل ناڈو میں انتہائی چھوٹے پیمانے پر متعارف کروایا گیا۔ آج انتے سالوں بعد وہ چھوٹا سا تجربہ 100 کلومیٹر کی کاشت کاری فارمز میں بدل چکا ہے۔

تاہم بڑے پیمانے پر اس کی کاشت کاری سنہ 2000 میں ہی شروع ہوئی جب حکومتی تحقیقی ادارے نے پیپسی کو اس کاشت کا لائسنس دیا۔ یہ وہ موقع تھا جب سمندری گھاس بڑے پیمانے پر کمرشل سطح پر اگائی جانے لگی۔

2008 میں پیپسی نے اپنے فارمز ایک انڈین کمپنی اکوآگری کو بیچ دیے جو کہ شاید پہلی مقامی کمھنی تھی جس نے سمندری گھاس کی کمرشل کاشت کاری شروع کی۔ اس کمپنی کے آج 18 فارمز ہیں جس میں 650 افراد روز گار کماتے ہیں۔

موتھولکشمی نامبراجن 38 سال سے سمندری گھاس کی کاشت کاری سے منسلک ہیں۔ پہلے تو وہ گہرے پانیوں میں جا کر اسے جمع کرتی تھیں مگر اب وہ بڑی لہروں کے دوران ایسا نہیں کرتیں کیونکہ یہ کام جسمانی طور پر مشکل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں اب ساحل کے قریب رہنا پسند کرتی ہوں۔‘ نامبراجن دن میں 50 کلو سمندری گھاس کی صفائی اور اسے سکھانے میں مصروف رہتی ہیں۔

اس کے بڑھتے ہویے رجحان کا انڈیا کی ساحلی کمیونٹیز پر معاشی طور پر ایک مثبت اثر پڑا ہے۔ خاص طور پر خواتین پر جو کہ مالی طور پر زیادہ آزاد ہونے لگی ہیں۔

تمل ناڈو میں اس کام سے منسلک 1200 خاندان ہیں۔ ہر خاندان تقریباً 45 بامبو رافٹ فراہم کرتا ہے۔ ہر رافٹ سے تقریباً 200 کلو سمندری گھاس نکلتی ہے جس میں 50 کلو اگلی رافٹ شروع کرنے میں لگ جاتی ہے۔

مگر سمندری گھاس کی بڑے پیمانے پر کاشت کے نقصان بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کی بے تحاشہ کاشت کاری کی وجہ سے کیربیئن میں کورل ریف یعنی مونگے کی چٹانوں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ اور اس کی وجہ سے کورل ریف پر منحصر سمندری جانوروں کے لیے مسائل پیدا ہونے لگے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک اور زراعت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سمندری گھاس کی عالمی خرید و فروخت 6 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ انڈیا میں اس وقت سمندری گھاس کی مالیت تقریباً 50 کروڑ ڈالر ہے۔ اکو آگری کے مالک ابراہیم سیٹھ کا کہنا ہے کہ 2013 میں تقریباً 1500 ٹن سمندری گھاس کی کاشت کی گئی تھی۔ مگر پھر سمندری طوفان، النینو اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث سمندری درجہ حرارت بڑھنے لگا جس کی وجہ سے کاشت کم ہوئی ہے۔‘

اس کے علاوہ 2013-14 کے بعد سے اس حوالے سے ایک اور مشکل اچھی کوالٹی کے بیج کا مسئلہ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے دوبارہ بوائی میں مسائل سامنے آئے ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے وہ نئی نسل کے بیج جو کہ گرم موسم بھی برداشت کر سکیں تیار کر رہے ہیں۔ تاہم یہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔

اور انڈین کھانوں میں سمندری گھاس پر کبھی زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔ اب شاید انڈیا کے ساحلی علاقوں میں ایسا نہ رہے۔ اور زرعی زمین بچانے کے ساتھ ساتھ شاید اس کی جگہ پلیٹوں پر بھی بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp