جان جائے پر مردانہ قوت نہ جائے


ویکسین بن گئی ہے۔ ویکسین لگ بھی رہی ہے۔ مگر ویکسین بنتے ہی انسانی اصلیت بھی ظاہر ہونی شروع ہوگئی ہے۔

مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ ویکسین کے ذیلی نقصانات کیا کیا ہیں۔ یہ بھی طے نہیں کہ کچھ ویکسینوں میں بل گیٹس کی فرمائش پر جاسوسی چپ ڈالی گئی ہیں تاکہ وہ میرا ذہن پڑھ سکے، مگر یہ طے ہے کہ اب تک جو ویکسینز عام استعمال کے لیے متعارف کروائی گئی ہیں ان میں خود غرضی کی چپ ضرور ڈالی جا چکی ہے۔

تب ہی تو امیر ممالک نے پیسے کے زور پر اگلے ایک برس میں بننے والا سٹاک پیشگی خرید لیا ہے۔ حتیٰ کہ کینیڈا جیسے پناہ گزین دوست اور انسانی حقوق پر زور دینے ملک نے بھی کل آبادی کی ضروریات سے پانچ گنا زائد تعداد میں ویکسین خریدنے کا آرڈر دے دیا ہے۔ اردو میں اس طرح کی حرکت کو ذخیرہ اندوزی کہتے ہیں۔ انگریزی میں پتہ نہیں کیا کہتے ہیں۔

نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بیشتر غریب ممالک ایک دوسرے کا منہ تکتے ہوئے سوچ رہے ہیں کہ ہمیں کورونا تو برابری کی سطح پر بانٹا گیا مگر ویکسین کی لائن میں سب سے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں عالمی ادارہ صحت بھی بے بس نظر آتا ہے۔

اگر ‘پہلے پیسے پھر ویکسین’ کا اصول برقرار رہا تو اس دنیا کے آخری آدمی کو ویکسین کی پہلی خوراک پہنچنے میں کم ازکم تین برس لگیں گے۔ بشرطیکہ وہ تب تک خود کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہا۔

فرض کریں کہ ایسا نہیں ہوتا اور ویکسین ریکارڈ عرصے میں تمام ضرورت مندوں تک پہنچ جاتی ہے تب کیا مسئلہ حل ہو جائے گا؟

میرا خیال ہے کہ مسئلہ تب بھی حل نہیں ہوگا۔ اس دنیا میں تب بھی کروڑوں لوگ ایسے رہیں گے جو دائمی شک کے وائرس میں مبتلا ہیں اور واٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ہر خبر پر یقین کرنے کے مریض ہیں۔

مثلاً ابھی ویکسین آزمائشی مراحل میں ہی تھی کہ یہ بحث اٹھ گئی کہ جن اجزا سے یہ ویکسین تیار کی جا رہی ہے وہ اجزا حلال ہیں کہ حرام۔جو ویکسین مفت میں فراہم کی جائے گی کیا وہ مردانہ قوت تو نہیں چھین لے گی؟ یہ آخری سوال تب سے اٹھا ہوا ہے جب ساٹھ برس پہلے ایوب خان کے دور میں خاندانی منصوبہ بندی کی گولیاں، غبارے اور سپرماسائیڈ کریم مفت میں تقسیم ہونا شروع ہوئی تھی۔

جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پکی پکائی تازہ روٹی کے پلانٹ لگانے شروع کئے تب بھی سوال اٹھا کہ کیا ان روٹیوں میں بانجھ کرنے والی گولیوں کا سفوف تو نہیں ملایا گیا۔

یہ سوال پولیو کی ویکسینیشن شروع ہوتے ہی سامنے آیا کہ کیا ہمارے بچوں کو جنسی طور پر ناکارہ بنانے کا عالمی منصوبہ تو نہیں۔ پس ثابت ہوا کہ ہم میں سے بہت سے لوگ بنا ویکسین اپاہج ہونے یا مرنے سے نہیں ڈرتے بلکہ جیتے جی مردانگی سے محروم ہونا ہمارے لیے زندگی اور موت سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔

میں تو ان مولانا صاحب کی صحت کے لیے بھی دعاگو ہوں جنھوں نے کووڈ میں مبتلا ہونے سے کئی ماہ پہلے فرمایا تھا کہ یہ وائرس ان معاشروں میں پھیلتا ہے جہاں عریانی و فحاشی کا راج ہے۔

سنا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی اس وقت چار پانچ ویکسین سازوں سے بات چیت چل رہی ہے اور حکومت کو امید ہے کہ اگلے برس کے وسط تک پاکستان اتنی ویکسین حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا جس سے طبّی عملے، معمر افراد اور پھر عام آدمی کو وائرس سے تحفظ مل سکے۔

حکومت نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ ویکسین مفت میں دستیاب ہوگی۔ اندازہ ہے کہ حکومت یا تو چینی ویکسین خریدے گی یا پھر روس کی سپوتنک فائیو کا سودا ہوگا۔ کیونکہ انہی دو ممالک کی ویکسینز فی الحال سب سے سستی ہیں اور انھیں عام فریج کے درجہِ حرارت پر ذخیرہ کرنا آسان ہے۔

مگر اس بابت جتنی ٹینشن حکومت کو ہے عام آدمی اس سے آزاد ہے۔ کہنے کو رات دس بجے کے بعد تمام کاروبار بند کرنے کی ہدایت ہے لیکن اس پر بس اتنا عمل ہو رہا ہے کہ چائے خانے دس بجے بتی گل کر کے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

نوجوانوں کا ان اوپن ایئر چائے خانوں پر ہجوم جوں کا توں ہے۔ ماسک ہیں مگر جیبوں میں۔ جن عمارتوں میں ماسک کے بغیر داخلے پر پابندی ہے وہاں لوگ ایک دوسرے کا ماسک پانچ منٹ کے لیے ادھار لینے سے بھی نہیں چوکتے۔ ان حرکتوں کے باوجود پاکستان میں کووڈ کی وہ مہا ماری نہیں جو دوسرے ممالک میں دیکھنے میں آ رہی ہے۔

اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ کووڈ وائرس کی جتنی بے عزتی پاکستان میں ہوئی ہے اس کے بعد کووڈ بھی ماسک لگائے نگاہ نیچی کیے گھوم رہا ہے۔

ہم نے اس کا وہ حال کیا ہے جو اس کالے چیونٹے کا ہوا تھا جس سے کسی نے پوچھا کہ حضور آپ صرف گرمیوں میں نظر آتے ہیں سردیوں میں آپ کی زیارت کیوں نہیں ہوتی۔
چیونٹے نے پلٹ کر جواب دیا گرمیوں میں آپ میری کتنی ‘عزت افزائی’ کرتے ہیں جو سردیوں میں بھی نظر آؤں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).