جی کے بہلاوے کو ستاروں کی چالوں پر توجہ


نجومیوں کی زبانی سنا ہے کہ مشتری نام کا سیارہ برج دلو میں داخل ہوچکا ہے۔ اس سیارے کا حجم آسمان میں گردش کرنے والے دیگر سیاروں سے کم از کم چار گنازیادہ بتایا جاتا ہے۔دعویٰ یہ بھی ہے کہ مشتری لامحدود توانائی سے بھرپور ہے۔ جس برج میں قیام پذیر ہو اس کی خصوصیات کو انگیخت دیتے ہوئے دو آتشہ بنادیتا ہے۔ آئندہ کئی مہینوں تک مشتری جس برج یعنی دلو میں قیام پذیر ہوگا اسے ’’عوام کا حاکم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی باعث قیاس آرائی ہورہی ہے کہ مشتری کے دلو میں داخل ہونے کے بعد عوامی بے چینی میں اضافہ ہوگا۔

خلقِ خدا حکمران اشرافیہ کے نمایاں رویوں کی بابت بنیادی سوالات اٹھانا شروع ہوجائے گی۔دنیا کے بیشتر ممالک میں عوامی تحاریک’’نظام کہنہ‘‘ کی محض ’’تبدیلی‘‘ نہیں بلکہ کامل تباہی کا تقاضہ کریں گی۔ دلو میں لیکن زحل نامی سیارہ بھی داخل ہوچکا ہے۔ یہ سیارہ ’’نظم وضبط‘‘ لاگو کرنے کو مصر رہتا ہے۔ حکمران اشرافیہ کو لہٰذا ریاستی جبر کے بھرپور استعمال کے ساتھ ’’باغیانہ‘‘ تحاریک پر قابو پانے کو اُکسائے گا۔ مشتری کی قوت مگر عوام ہی کو بالآخر کامیاب وکامران بنائے گی۔

ستاروں کی چال کی بابت میرا رویہ عقل اور منطق پر ضرورت سے زیادہ انحصار کی بدولت بے اعتنائی والا ہی رہتا ہے۔ ضائع کرنے کو لیکن گزشتہ کئی مہینوں سے مجھے کافی وقت میسر ہے۔ بستر پر لیٹے ہوئے موبائل فون میں موجود یوٹیوب پر چلا جاتا ہوں۔ہمیں ’’اندر کی خبر‘‘ دینے والے حق گو صحافی اس App کے ذریعے بنائے چینلوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ان کی زبانی ’’دریافت‘‘ ہوا کہ PDMکا لاہور والا جلسہ ’’ناکام‘‘ ہونے کے بعد بلاول بھٹو زرداری پریشانی میں نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کرنے کوٹ لکھپت جیل چلے گئے۔

’’بہانہ‘‘ ان کی والدہ کی وفات پر ’’تعزیت‘‘ کا بنایا۔دُعائے فاتحہ کے بعد مگر سیاسی گفتگو میں مصروف ہوگئے۔ بلاول-شہباز ملاقات ختم ہونے کے چند ہی لمحوں بعد اگرچہ اس گفتگو کی تفصیلات ’’اندر کی خبر‘‘ رکھنے والوں تک پہنچ گئیں۔ شہبازشریف نے مبینہ طورپر بلاول بھٹو زرداری کو متنبہ کیا کہ مریم نواز صاحبہ کی حکمت عملی کو نظرانداز کریں۔اپنی جماعت کے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی کے استعفے لینے میں جلدی نہ دکھائیں۔ مسلم لیگ (نون) کے اراکین اسمبلی کے ممکنہ استعفوں کے حوالے سے وہ خود بھی بے تاب نہیں ہیں۔

بلاول بھٹو زداری کو ان کے ساتھ مل کر PDMکو تخت یا تختہ والے معرکے کی جانب بھاگنے سے بچانا ہوگا۔شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی مبینہ طورپر اپنائی حکمت عملی کو سنتے ہوئے مجھے ’’اندر کی خبر‘‘دینے والوں پر بہت رشک آیا۔ ساری عمر رپورٹنگ کی نذر کردینے کے باوجود مجھ جیسا ’’لفافہ‘‘ صحافی شہباز شریف کو اپنا دل کھول کر بیان کرنے کو ایک بار بھی مجبور نہ کرپایا۔ اپنے تئیں بہت محنت اور مہارت سے ا ٹھائے سوالات کو وہ اکثر Well Leftکرتے ہی سنائی دئیے۔اپنے سوالات پر ڈٹے ہوئے انہیں دیوار سے لگانے کی کوشش کرو تو ان کے فقروں سے زیادہ بدن بولی پر نگاہ رکھنا پڑتی ہے۔بسااوقات طویل ملاقات کے بعد بھی قیافیہ کے ہنر پر انحصار کرنا پڑا۔

بلاول بھٹو زرداری اپنی والدہ اور والدکی وجہ سے میرے ساتھ بہت مؤدب رہتے ہیں۔ تلخ اور تیکھے سوالات کے ساتھ انہیں ’’گھیرنے‘‘ سے گریز اختیار کرنے کو لہٰذا مجبور ہوجاتا ہوں۔’’آف دی ریکارڈ‘‘مگر برجستہ گفتگو کے لئے وہ اکثر کمرے کے بجائے لان میں بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔اس دوران موبائل فونز سے وقتی دوری اختیار کرنا بھی لازمی تصور ہوتا ہے۔شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی میرے ساتھ گفتگو کے دوران برتی ’’احتیاط‘‘ کو ذہن میں رکھا تو حیرت ہوئی کہ وہ دونوں لاہور جیل میں افسروں کی نگرانی میں ہوئی ملاقات کے دوران اپنے دلوں میں موجود حکمت عملی کو تفصیلات سمیت کھل کر بیان کرنے کو مجبور ہوئے۔

یہ سوچتے ہوئے انگریزی کا ایک لفظ بھی ذہن میں آیا -Deception-کائیاں سیاست دان عموماََ جان بوجھ کر ایسی گفتگو بھی کرتے ہیں جو ان کے گماں میں ’’مخالف پارٹی‘‘ خود کومطمئن کرنے کے لئے سننا چاہ رہی ہوتی ہے۔ کوٹ لکھپت جیل میں شاید ان دونوں نے ایسا ہی رویہ اختیارکیا ہوگا۔ حکومتی ترجمانوں کی بیان کردہ کہانی پر اگر اعتبار کروں تو یہ بھی سوچنا پڑتا ہے کہ PDMکے لاہور والے جلسے نے ان دونوں رہنمائوں کو شاید واقعتا حواس باختہ کردیا۔

تمام تر احتیاط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کوٹ لکھپت جیل میں Plan-B بناناشروع ہوگئے۔حقیقت کچھ بھی رہی ہو۔PDMکے لا ہور والے جلسے کی ’’ناکامی‘‘ نے عمران حکومت کو حیران کن اعتماد بخشا ہے۔اسی باعث اس نے سینٹ کی مارچ 2021میں خالی ہونے والی 52 نشستوں پر ’’قبل از وقت’’انتخاب کا عندیہ دیا۔ حکومتی منصوبے کے مطابق یہ انتخاب فروری میں ہوگیا تو PDMکا اس مہینے اسلام آباد کی جانب مارچ بے جواز نظر آئے گا۔جس حکومت کو ہٹانے کی غرض سے وہ اس مارچ کی تیاری کررہی ہے وہ سینٹ کے ’’قبل از وقت‘ ‘ انتخاب کے بعد مزید مضبوط ہوئی نظر آئے گی۔

PDMکے خلاف T-20جیسی سیریز ’’جیت‘‘ لینے کے بعد عمران حکومت 2023تک اپنی آئینی مدت بخیروخوبی مکمل کرتی محسوس ہوگی۔ایک عام شہری ہوتے ہوئے مجھے PDM اور عمران حکومت کے مابین جاری T-20 سیریز کی بابت کوئی Excitement محسوس نہیں ہورہی۔ 1980کی دہائی سے بطور رپورٹر ایسے کئی تماشے دیکھے ہیں۔ان تماشوں کا انجام ہمیشہ ہماری ریاست کے دائمی اداروں کو توانا تر بنانے کی صورت ہی نظر آیا۔آخری بار ’’ریاست کو ماں جیسی‘‘بنانے کے لئے عدلیہ بحالی کی تحریک چلی تھی۔

افتخار چودھری نے اپنے منصب پر بحال ہوتے ہی مگر عوام کی حقیقی اور حتمی نمائندہ تصور ہوتی پارلیمان ہی کو کمزور تر بنانا شروع کردیا۔ آصف سعید کھوسہ صاحب نے ’’حیف ہے اس قوم پر‘‘ کی دہائی مچائی۔ نواز شریف کو تاحیات نااہل کرتے ہوئے ہم جاہلوں کو یاد یہ بھی دلایا کہ جمہوریت کے نام پر ہم ’’سسیلین مافیا‘‘ کو غالباََ قیمے والے نان کی وجہ سے میسر ہوئی’’نظربندی‘‘ کی وجہ سے اپنا وزیر اعظم منتخب کرلیتے ہیں۔ ’’صادق اور امین‘‘‘ بالآخر عدلیہ ہی کو تلاش کرنا پڑتے ہیں اور فی الوقت ہمارے سیاستدانوں میں سے ’’صادق اور امین‘‘ کی سند فقط عمران خان صاحب ہی کو نصیب ہوئی ہے۔

ان کے سوا ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت ’’چوروں اور لٹیروں‘ ‘ پر مشتمل نظر آتی ہے۔ اب ان کا ’’وقتِ احتساب‘‘ ہے۔اس سے مفر ممکن نہیں کیونکہ عمران خان صاحب ’’ڈاکوئوں‘ ‘کو NROنہ دینے پر بضد ہیں۔قوم کی لوٹی ہوئی دولت ’’مگر ڈھائی سال گزرجانے کے باوجود فی الحال قومی خزانے میں واپس نہیں آئی ہے۔ بقول عمران صاحب ’’سب سے بڑا ڈاکو‘‘‘تو بلکہ لندن فرار ہوگیا ہے۔ دریں اثناء پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں تین روپے کا اضافہ ہوگیا ۔

آئندہ مہینوں میں مزید اور بتدریج اضافہ دیوار پر لکھا ہوا نظر آرہا ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں ا ضافے کے بعد اب فیصلہ یہ بھی ہوا ہے کہ بجلی کے فی یونٹ کے نرخ میں بھی تین روپے کا اضافہ ہو۔ آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر والے ’’امدادی پیکیج‘‘ کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے یہ اضافہ ضروری تھا۔”Cost Recovery”کے نام پر مارچ 2021میں مزید اضافہ ہوگا۔ موسم گرما کا آغاز ہوتے ہی ہم پنکھے کا بٹن دبانے سے قبل سوبار سوچیں گے۔مہنگائی کی ایک نئی لہرگویا 2021شروع ہوتے ہی نہایت شدت سے نمودار ہوجائے گی۔

IMFکے عطا کردہ گورنر اسٹیٹ بینک -ڈاکٹر رضا باقر صاحب-مگر مصر ہیں ان کی متعارف کردہ پالیسیوں کے طفیل ملک میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ حکومتی ترجمانوں کی فوج ظفر موج اس امر کی بابت بھی بہت شاداں ہے کہ ہمارے اسٹاک ایکس چینج میں نئی سرمایہ کاری نے گزشتہ 30مہینوں کا ریکاڈ توڑ دیا ہے۔ ریکارڈ ساز سرمایہ کاری کو بلکہ PDMکے ’’جنازے‘‘ کی صورت بیان کیا جارہا ہے۔معاشی باریکیوں سے قطعاََ نابلد ہوتے ہوئے تاہم عام پاکستانیوں کی بے پناہ اکثریت کی قوت خرید کے سکڑنے کے بارے میں نہایت فکر مندہوں۔

میری اور آپ کی آمدنی میں اضافے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔اپنی محدود اور کم تر ہوتی آمدنی کے ساتھ ہمیں پیٹرول اور بجلی کی قیمت میں اضافہ یقینا ناقابل برداشت محسوس ہوگا۔ اس عالم میں ریکارڈ ساز سرمایہ کاری کے ذریعے جو مصنوعات بازار میںلائی جائیں گی ان کے خریدار کہاںسے آئیں گے۔ شاید یہ سرمایہ کاری فقط ان شعبوں میں ہورہی ہے جو ملکی منڈی کے بجائے عالمی منڈی کی طلب کو ترجیح دیتے ہیں۔معاشی اعتبار سے Feel Good بناتے ماحول میں لیکن ہفتے کے دن اسلام آباد میں پنجاب کے اساتذہ نے وزیر اعظم تک اپنی فریاد پہنچانے بنی گالہ جانا چاہا۔

آنسو گیس اور لاٹھیوں کے بے دریغ استعمال سے انہیں روک دیا گیا۔اساتذہ کے اسلام آباد میں ’’استقبال‘‘ سے گھبراکر میں نے یوٹیوب کا رُخ کیا۔وہاں مشتری کے برج دلو میں آنے کی خبر ملی۔جی کو بہلانے کے لئے ستاروں کی چال پر توجہ دینے کو مجبور ہوگیا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).