تبصرہ بر مضمون مجاہد علی صاحب


اس اعلان برات کے ساتھ کہ راقم کو عمران سے کوئی عقیدت یا توقع نہیں ہے۔ مجاہد صاحب کے مضمون ”ہم سب“ میں مطبوعہ مورخہ 19 دسمبر 2020 کی تحریر میں ایک طرف جھکاؤ کو درست کرنے کے لئے عرض ذیل ہے :۔

1۔ مضمون نگار کا پہلا۔ ”مصرع“ ہی بے وزن ہے کہ:۔
مضمون کا عنوان۔ ”ملک کو بھارت سے خطرہ ہے یا وزیر اعظم کی غیر ذمہ داری سے؟

تبصرہ:۔ یہ ایک ایسا تقابل ہے جو سیاسی غزل کے باقی اشعار کو نظر انداز کر کے ایک فرد کو نشانہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ ملک کو کورونا سے بھی خطرہ ہے اور بد کردار سیاستدانوں سے بھی خطرہ ہے۔ ملک کو بے ضمیر میڈیا سے بھی خطرہ ہے اور ملک کو مولویوں (جو معاش کی خاطر مذہب کا استحصال کرتے ہیں) سے بھی خطرہ ہے۔

2۔ ”نواز شریف کی بیرون ملک روانگی پر عمران خان کو کسی اچھے بچے کی طرح خاموش رہنا پڑا تھا کیوں کہ یہ فیصلہ وہیں سے کیا گیا تھا جہاں سے انہیں وزیر اعظم بنانے کا حکم جاری ہوا تھا“ ۔

تبصرہ:۔ مضمون نگار کہ یہ بات اگر درست ہے جو واقعاتی شواہد سے درست ہی لگتی ہے تو عمران پر برسنا مرے کو مارنے کے مترادف ہے۔ مجبور ولی اور مجبور گنہگار برابر جو ٹھہرے۔

3۔ ”اس وقت ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں متفقہ طور پر عمران خان کو نامزد اور تحریک انصاف کی حکومت کو مسلط شدہ کہتی ہیں“ ۔

تبصرہ:۔ خدا لگتی کہیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا ان تمام اپوزیشن جماعتوں میں قیادت بھی اسی طرح نامزد نہیں ہے۔ (سوائے جماعت اسلامی کے)۔ اگر ان جماعتوں میں جمہوریت کے لئے ذرا سی بھی سچی طلب ہے تو پہلے اپنے اندر جمہوریت کا ڈول ڈالیں۔ لیکن وہ ایسا ہرگز نہیں کریں گے۔ سیلیکٹڈ کا لفظ ایجاد کرنے والے خود نسل در نسل سلیکٹڈ چلے آ رہے ہیں۔

4۔ ”عمران خان کو جاننا چاہیے کہ اگر وہ واقعی ملک میں دیانت دارانہ آئینی نظام کے حامی ہیں تو انہیں فوج کے ساتھ اشتراک کی بجائے سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر جمہوری روایت کو مضبوط کرنے کی جد و جہد کرنا پڑے گی۔ بصورت دیگر وہ اقتدار کی حرص میں مبتلا ایک ایسے لیڈر کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جس نے اپنے اقتدار کے لئے ملک میں جمہوری جد و جہد کو بدنام کرنے اور عوامی حاکمیت کا راستہ کھوٹا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی“ ۔

تبصرہ:۔ عمران اپنے کیرئیر کی آخری سیڑھی پر براجمان ہے۔ اور آپ اسے ”سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر“ جد و جہد کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اگر اپوزیشن پر بھی آپ دیانتداری کی شرط لگائیں تو منظر اور کریہہ دکھائی دیتا ہے۔ جب یہ سچ ہے کہ زرداری اور شریفین فوج کے کہنے پر ایک دوسرے کو چور اور لٹیرے کہہ کر گلیوں میں گھسیٹنے کے اعلان کر رہے تھے تو پھر ان دیانتداروں سے مل کر جد و جہد نہیں ہو سکتی۔ یا ماننا پڑے گا کہ یہ شور و غل ان عوام کے غمخواروں نے یونہی بنا رکھا تھا۔

5۔ ”عوام مہنگائی، بیروزگاری اور حکومت کی ناقص معاشی حکمت عملی سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ عمران خان کی قیادت میں کنٹرولڈ جمہوریت کے ناکام تجربے کے بعد اس ناراضی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اب تو فوج براہ راست اقدام کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتی، فوج میں غم و غصہ کی دھمکی دے کر عمران خان کون سا سیاسی فائدہ حاصل کر لیں گے؟“

تبصرہ:۔ عوام ہر دور میں مہنگائی اور بیروگاری سے تنگ آئے رہے ہیں۔ ساٹھ ستر سال پہلے مہنگائی کی وجہ جنگ عظیم دوم کہی جاتی تھی۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں کرپٹ کاروباری طبقہ۔ ایوب خاں نے کئی من سونا ضبط کر لیا تو عوام کو بن دیکھے سکھ کا سانس آیا۔ بھٹو صاحب نے بھوک کا شعور عطا کیا۔ اور شرفا کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا۔ شرفا کی حکومت میں زرداری اور زرداری کی حکومت میں شرفا عوام کی بھوک۔ مہنگائی اور حالت زار کے ذمہ دار قرار پائے۔

یہ مہنگائی اور اسلام کو خطرہ بس اتنا ہی ہے جتنا سیاسی اور مذہبی سیاسی لیڈر عوام کو حساسیت کا ٹیکا لگاتے ہیں اور لگاتے رہیں گے۔ اور عوام کو جب ذرا موقعہ ملتا ہے تو منو بھائی صاحب کی آواز میں پکار اٹھتی ہے :

اسی وچارے بوہڑاں تھلے
اگن والی گھاء دے تیلے
دھپ تے میہنہ نوں ترس گئے آں
لکھ کروڑاں دا کیہہ کہنا
دس تے ویہہ نوں ترس گئے آں
پہلے پنجھی سالاں دے وچ (یہ بیسیوں سال پہلے کی کیفیت تھی جو اب بھی ہے )
ادھا ملک گوا بیٹھے آں
چھبی سال دے مارشل لا وچ
باقی عمر ہنڈا بیٹھے آں
جنہاں سانوں دھوکے دتے
اوہناں کولوں نویاں آساں لا بیٹھے آں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).