برطانیہ میں کورونا وائرس کی شناخت ہونے والی نئی قسم کے متعلق ہم کیا جانتے ہیں؟


وائرس کا گرافک
کورونا وائرس کی نئی قسم تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس کے باعث کرسمس کے موقعے پر انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز میں رہنے والے لاکھوں افراد کے لیے ٹیئر فور یعنی چوتھے درجے کی سخت پابندیاں متعارف کروائیں گئی ہیں۔

اس کے علاوہ متعدد یورپی ممالک نے برطانیہ کے ساتھ مختلف دورانیہ پر مشتمل سفری پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں۔

انگلینڈ میں وائرس کی جس قسم کا وجود ہی نہیں تھا، وہ وائرس دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے کچھ حصوں میں اتنا عام کیسے ہو گیا؟

نئے انفیکشن سے متعلق حکومتی مشیروں کو کسی حد تک یقین ہے کہ وائرس کی دوسری مختلف اقسام کے مقابلے میں، یہ زیادہ آسانی سے منتقل ہوتا ہے۔

ابھی سب کچھ ابتدائی مرحلے میں ہے اور بہت غیر یقینی صورتحال ہے۔۔۔ جواب طلب سوالات کی فہرست بہت لمبی ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی لکھا ہے، وائرس ہر وقت اپنی ہیئت بدلتے رہتے ہیں اور اس چیز پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وائرس کا طرز عمل تبدیل ہو رہا ہے یا نہیں۔

وائرس کی یہ نئی قسم باعثِ تشویش کیوں ہے؟

تین چیزیں ایک ساتھ ہو رہی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس طرف توجہ مبذول ہو رہی ہے۔

  • یہ نئی قسم تیزی سے وائرس کے پرانے ورژن کی جگہ لے رہی ہے
  • وائرس کی ہیت تبدیل ہو رہی ہے جو وائرس کے سب سے اہم حصے کو متاثر کر رہی ہے
  • ان میں سے کچھ تغیرات کو پہلے ہی لیب میں دکھایا جا چکا ہے جو خلیوں کو متاثر کرکے وائرس کی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں

ان سب چیزوں سے مل کر ایک ایسا وائرس بنتا ہے جو آسانی سے پھیل سکتا ہے۔

تاہم اس بارے میں ہمیں ابھی تک قطعی طور پر یقین نہیں ہے۔ صحیح وقت اور صحیح جگہ پر رہتے ہوئے کوئی بھی قسم اتنی ہی عام ہو سکتی ہے جیسا لندن میں ہوا۔ لندن میں کچھ دن پہلے تک صرف ٹیئر ٹو یعنی دوسرے درجے کی پابندیاں نافذ تھیں۔

لیکن ٹیئر فور یعنی چوتھے درجے کی پابندیوں کے لیے جواز یہ دیا جا رہا ہے کہ اس سے وائرس کی مختلف حالتوں کے پھیلاؤ کو کم کیا جاسکے گا۔

برطانیہ میں کووڈ 19 جینومکس یوکے کنسورشیم کے پروفیسر نک لومن نے مجھے بتایا کہ ’لیبارٹری تجربات کرنے کی ضرورت ہے (نتائج کو دیکھنے اور پھیلاؤ کو محدود کرنے والے اقدامات لگانے کے لیے) لیکن کیا آپ ہفتوں یا مہینوں تک انتظار کرنا چاہتے ہیں؟ شاید ان حالات میں نہیں۔‘

یہ نئی قسم کتنی تیزی سے پھیل رہی ہے؟

وائرس کی اس نئی قسم کے متعلق سب سے پہلے ستمبر میں پتہ چلا تھا۔ نومبر کے مہینے میں لندن میں سامنے آنے والے متاثرین کی تعداد کا تقریباً ایک چوتھائی ایسے مریض تھے جو وائرس کی نئی قسم سے متاثر ہوئے تھے۔ دسمبر کے وسط میں یہ تعداد تقریباً دوتہائی متاثرین تک جا پہنچی۔

ملٹن کینز لائٹ ہاؤس لیبارٹری جیسے کچھ مراکز میں کیے جانے والے ٹیسٹوں کے نتائج پر پڑنے والا فرق صاف ظاہر ہے۔

https://twitter.com/The_Soup_Dragon/status/1340349639946629120?s=20


ریاضی دان یہ حساب کتاب کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اس کی کتنے مختلف اقسام ہو سکتے ہیں۔

لیکن یہاں یہ حساب لگانا مشکل ہے کہ اس میں لوگوں کے برتاؤ کی وجہ سے کیا مختلف ہے اور وائرس کی وجہ سے کیا مختلف ہے۔

وزیر اعظم بورس جانسن نے جس اعداد و شمار کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ مختلف النوع وائرس کے اقسام کی 70 فیصد تک زیادہ منتقلی ہوسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سے ‘آر’ کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر کوئی وبا بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے تو وہ 0.4 کی رفتار سے ہے۔

خیال رہے کہ جمعہ کو امپیریل کالج لندن کے ڈاکٹر ایرک وولز کی ایک پریزنٹیشن میں یہ 70 فیصد والی بات سامنے آئی تھی۔

بات چیت کے دوران انھوں نے کہا: ‘یہ بتانا واقعی بہت قبل از وقت ہے۔۔۔ لیکن اب تک جو ہمارے سامنے آیا ہے اس کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ [پچھلی مختلف شکلوں] کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ لیکن اس پر نظر رکھنا ضروری ہے۔’

اس کی کتنی شکلیں یا اقسام زیادہ انفیکشن پھیلانے والی ہیں یہ ‘یقین کے ساتھ’ نہیں کہا جا سکتا ہے۔

لیکن ان سائنس دانوں نے، جن کا کام ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا ہے، مجھے بتایا ہے کہ 70 فیصد سے بہت زیادہ اور بہت کم اعدادوشمار آئے ہیں۔

لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ یہ زیادہ متعدی تو نہیں۔

کورونا

نوٹنگھم یونیورسٹی میں وائرس سٹڈیز کے ایک ماہر پروفیسر جوناتھن بال نے کہا کہ 'عوامی سطح پر موجود شواہد کی مقدار یہ بتانے کے لیے ناکافی ہے کہ آیا اس نے منتقلی کی رفتار کو واقعی بڑھا دیا ہے۔'

یہ کس حد تک پھیل چکا ہے؟

اس قسم کے متعلق یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یا تو یہ برطانیہ کے کسی مریض میں نمودار ہوا ہے یا اسے کسی ایسے ملک سے لایا گیا ہے جہاں میں کورونا وائرس میں آنے والے تغیرات کی نگرانی کرنے کی کم صلاحیت ہے۔

شمالی آئرلینڈ کے علاوہ اس وائرس کی مبدل شکل پورے برطانیہ میں مل سکتی ہے لیکن یہ زیادہ تر لندن، جنوب مشرقی اور مشرقی انگلینڈ میں مرکوز ہے۔ ملک کے دوسرے حصوں میں بظاہر ایسے کیسز شروع نہیں ہوئے ہیں۔

نیکسٹ سٹرین دنیا بھر میں وائرل نمونوں کے جینیاتی کوڈ کی نگرانی کرنے والا ادارہ ہے۔ اس کے اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ ڈنمارک اور آسٹریلیا میں ایسے کیسز برطانیہ سے آئے ہیں۔ نیدرلینڈ میں بھی ایسے کیسز سامنے آئے ہیں۔

https://twitter.com/firefoxx66/status/1340360004621230081?s=20


اسی طرح کی ایک شکل جو جنوبی افریقہ میں ابھری ہے اس میں کچھ اسی طرح کی تغیرات نظر آئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

کیا اس سے پہلے بھی ایسا ہوا ہے؟

جی ہاں۔

جس وائرس کو پہلے پہل چین کے ووہان میں دیکھا گیا تھا وہی وائرس آپ کو دنیا کے بیشتر حصوں میں نہیں ملتا ہے۔

ڈی 614 جی میوٹیشن یا تغیر فروری میں یورپ میں سامنے آیا اور یہ وائرس عالمی سطح پر غالب شکل اختیار کر گیا۔

ایک دوسرا وائرس جسے اے 222 وی کہا گیا ہے وہ پورے یورپ میں پھیلا ہے اور اس کا تعلق اسپین میں لوگوں کی گرمیوں کی تعطیلات سے بتایا جاتا ہے۔

ہم نئے تغیرات کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

کووڈ 19 وائرس کے نئے اقسام کا ابتدائی تجزیہ شائع کیا گیا ہے اور اس میں 17 ممکنہ اہم تبدیلیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

سپائک پروٹین میں تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں یہ وہ چابی ہے جس کا وائرس ہمارے جسم کے خلیوں کے دروازے کھولنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

این 501 وائی نامی میوٹیشن سپائک کے سب سے اہم حصے کو بدل دیتا ہے جسے ‘رسیپٹر بائنڈنگ ڈومین’ کہا جاتا ہے۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں سپائک کا ہمارے جسم کے خلیوں کی سطح کے ساتھ پہلا رابطہ ہوتا ہے۔ ایسی تبدیلیاں جو وائرس کو جسم کے اندر جانے میں آسانی پیدا کریں وہ اسے سبقت دیتی ہیں۔

پروفیسر لومن کا کہنا ہے کہ ‘یہ اہم موافقت پیدا کرنے کا احساس دلاتا ہے۔’

ڈاکٹر ویکسین

PA Media

ایچ 69 اور وی 70 جیسے دوسرے میوٹیشن میں سپائک کا ایک چھوٹا سا حصہ ہٹا لیا جاتا ہے اور یہ اس سے پہلے بھی بہت بار نمودار ہو چکا ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر روی گپتا کے کام سے پتا چلتا ہے کہ اس تغیر پزیری سے لیب تجربات میں دو گنا غیر متاثر ہوتے ہیں۔

اسی گروپ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حذف کیے جانے سے وائرس سے بچ جانے والے افراد کے خون میں جو اینٹی باڈی پیدا ہوتے ہیں وہ وائرس پر حملہ کرنے میں کم موثر ثابت ہوئے ہیں۔

پروفیسر گپتا نے مجھے بتایا: ‘یہ تیزی سے بڑھ رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت پریشان ہے، ہم پریشان ہیں، بیشتر سائنسدان پریشان ہیں۔’

یہ کہاں سے آیا ہے؟

وائس کی مختلف شکل غیر معمولی طور پر انتہائی تغیر پزیر ہیں۔

ممکنہ طور پر اس کی وضاحت یہ ہے کہ یہ کمزور مدافعتی نظام والے مریض میں پیدا ہوا جو وائرس کو پورے طور پر شکست دینے سے قاصر تھا۔

اس کے بجائے ان کا جسم تغیر پزیر وائرس کی پیدائش کا میدان بن گیا۔

کیا یہ انفیکشن کو زیادہ مہلک بنا دیتا ہے؟

اس کی تصدیق کے لیے شواہد نہیں ہیں کہ یہ زیادہ مہلک بناتا ہے یا نہیں لیکن اس کی نگرانی کی ضروت ہے۔

تاہم صرف وبائی مرض کی منتقلی میں اضافہ ہی ہسپتالوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے میں کافی ہوگا۔

اگر نئی شکل کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں میں زیادہ تیزی سے انفیکشن پھیلتا ہے تو اس کے نتیجے میں زیادہ لوگوں کو ہسپتال میں علاج کی ضرورت ہوگی۔

کیا یہ ویکسین نئی شکل کے وائرس کے خلاف کام کرے گی؟

تقریبا یقینی طور پر ہاں، یا کم از کم ابھی کے لیے ہاں۔

تینوں معروف ویکسینیں موجودہ سپائک کے خلاف مدافعتی ردعمل پیدا کرتی ہیں، اسی وجہ سے یہ سوال سامنے آتا ہے۔

ویکسین مدافعتی نظام کو وائرس کے متعدد مختلف حصوں پر حملہ کرنے کی تربیت دیتی ہیں، لہذا اگر اس کے کسی حصے میں تبدیلی رونما ہو چکی ہے اس صورت میں بھی ویکسینوں کو کام کرنا چاہیے۔

پروفیسر گپتا نے کہا کہ ‘اگر ہم اسے مزید شکلوں میں بدلنے کا موقع دیتے ہیں تو یہ پریشان کن ہو گا۔

‘یہ وائرس ممکنہ طور پر ویکسین سے بچنے کے راستے کی تلاش پر ہے اور اس نے اس جانب پہلا اقدام اٹھا لیے ہیں۔’

ویکسین سے بچنے کا عمل اس وقت ہوتا ہے جب وائرس اپنی ماہیت تبدیل کرتا ہے جس سے ویکسین اس پر پوری طرح اثر انداز نہیں ہوتی اور وہ لوگوں کو متاثر کرتا رہتا ہے۔

وائرس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ شدید تشویش کا باعث ہے۔ وائرس کی یہ شکل ہم میں سے زیادہ سے زیادہ کو متاثر کر رہی ہے۔

جمعہ کے روز گلاسگو یونیورسٹی سے پروفیسر ڈیوڈ رابرٹسن کی ایک پریزنٹیشن میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ‘یہ وائرس شاید ویکسین سے بچنے والے میوٹیشن پیدا کر سکتا ہے۔’

اس طرح ہم فلو والی حالت میں آجائیں گے جہاں ٹیکوں کو باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہو گی۔ خوش قسمتی سے ہمارے پاس موجود ویکسین میں تبدیلی کرنا آسان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp