نایاب پرندے تلور کا مکتوب بنام اسلامیانِ پاکستان


عزیزانِ مَن، مکرمیان و محترمیان مسلمانانِ ارضِ پاکستان\"\"

یعنی میرے مہربان میزبانو!

آداب و تسلمیاتِ خادمانہ بلکہ غلامانہ کے بعد سب سے پہلے تو یہ بتاتا چلوں کہ آپ کے لیے میزبان کا لفظ استعمال کیا ہے مہربان بہن بھائی نہیں کہا. وہ اس لیے کہ کہیں کوئی فتویٰ ہی نہ لگ جائے کہ ایک حقیر پرندے کی کیا جرات کہ وہ اسلامیان پاکستان جو کہ عالمِ اسلام کا قلعہ ہے (یہاں قلعہ سے مراد اُردو کا ہے نہ کہ وہ کھونٹی جس سے آپ کے معزز برادران بلکہ شاہی برادران اپنے اونٹ اور گھوڑے باندھتے ہیں) کے عزمِ عالیشان عوام کو بہن بھائی کہہ سکے۔

آج آپ کی خدمت میں ایک دست بستہ گذارش بلکہ پَر بستہ گذارش لیے حاضر ہوا ہوں کیونکہ مجھ ایسے غریب الوطن تلور کے دست نہیں صرف پَر ہی ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں ہی جوڑ کر عرض کرتا ہوں کہ آپ کو بتاﺅ کہ آپ کے یہاں میرے ساتھ کیا بیتی گئی اور بیتی جا رہی ہے۔ آج اپنے دل کا حال کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں۔  \"\"

میری مخاطب اس ملک کی اشرافیہ نہیں ہے بلکہ میں اُس اکثریت سے مخاطب ہونا چاہتا ہوں جو شاید اپنے دل میں کہیں نہ کہیں میرے لیے کچھ کسک رکھتی ہے۔

میں آپ انسانوں کی طرح اشرف المخلوقات کا دعویدار تو نہیں نہ ہی آپ جیسا عالی دماغ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہوں لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ ہم غریب پرندوں کے بھی خاندان ہوتے ہیں ہمیں بھی اپنی بیوی بچے اتنے ہی عزیز ہوتے ہیں جتنے کہ آپ حضرت انسان کو۔ میں بھی اپنے ملک میں بہت ہی پر سکون اور خوش و خرم زندگی گذار رہا تھا۔

آپ ہمیں جو مرضی سمجھیں لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں بھی بولنے اور اپنی بساط کے مطابق سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں عطا کی ہیں جیسا کہ ہمارے ہی ایک بھائی بند ہُد ہُد کی گفتگو اس وقت کے جلیل القدر پیغمبر حضرت سلیمانؑ کے ساتھ آپ نے یقینا سن رکھی ہو گی۔ \"\"خیر نہ تو میں صاحب جُبہ و دستار ہوں نہ ہی مقرر شیریں بیان بلکہ شُعلہ بیاں نہ ہی براعظم ایشیا و یورپ میں خطابت کے جھنڈے گاڑنے کا دعویدار ہوں اور نہ ہی کوئی اور ایسی فضیلت رکھتا ہوں کہ آپ جیسے عالی شان خطہِ ارض کے لوگوں سے مخاطب ہو سکوں۔

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میں اپنے وطن میں بھرپور زندگی بسر کر رہا تھا کہ حسبِ معمول اور دستور وہاں سے کُوچ کا حکم آگیا اور میں اپنے خاندان سمیت ہزاروں میل کا پُر تھکن سفر طے کر کے گرتا پڑتا۔ آپ کے یہاں عظیم الشان صحراؤں میں بسیرا کیا تاکہ کچھ عرصہ یہاں کے پُرسکون اور گرم ماحول میں رہ کر اپنی بقاء کا سامان کر سکوں۔

یہاں آنے تک چیزیں معمول کے مطابق تھیں کہ اچانک مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ میں بہت بڑے جال میں پھنس گیا ہوں اور یہ حال کسی عام دہقانی شکاری کا بچھایا ہوا نہیں بلکہ آپ کے عظیم الشان دوستوں کی عنایت ہے بلکہ لوگ باگ تو یہ بھی کہنے سے نہیں چوکتے کہ اس کے \"\"پیچھے کسی مخصوص کمزوری کے علاج کا مقصد کارفرما ہے۔ خیر جو بھی سمجھیئے یہ آپ لوگوں کا سردرد ہے۔

میرا مسئلہ تو صرف اتنا ہے کہ میں اپنا دکھ کیسے بیان کروں۔ کیا میں آپ کے قاضی وقت سے درخواست گذار ہوں کہ جس نے میری داد رسی کی اپنی سی کوشش کی لیکن پھر چپ سادھ لی۔ لیکن بصد احترام عرض ہے بلکہ ڈرتا ہوں کہ کہیں ان کی شان میں گستاخی نہ ہو جائے کہ سنا ہے وہاں ایسی زباں بندی کا دستور ہے کہ شاید میری زباں تو بات کرنے کو نہ تر سے کیونکہ میں ٹھہرا ایک بے زباں پرندہ۔ ہاں البتہ میرے پَر چل سکتے ہیں یا کاٹے جا سکتے ہیں۔ اس لئے اُن کو کچھ کہنے کی مجال نہیں رکھتا کہ کہیں میرا حرفِ مدعا حرفِ شکایت ہی نہ ٹھہرے اور قابلِ سزا وار گردانا جاؤں۔

نہ ہی میرا گِلہ اُن نام نہاد انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کے نمائندگان سے ہے جو مشرق و مغرب کا تفاوت اور تہذیبی ضروریات کو \"\"سمجھے بغیر ہر کسی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں یا رٹے رٹائے مغرب زدہ فقروں کی گردان شروع کر دیتے ہیں۔

یا میں اپنا دکھڑا اُن طلباءکو سناؤں جو عصری تقاضوں اور بدلتے عالمی مزاج نابلد ہیں اور کولہو کے بیل کی طرح ”فرسودہ نظریات“ کے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ وہ بھلا کیونکر میری حمایت میں بولیں گے۔ یا میں اُن مزدوروں اور کسانوں سے فریاد کروں جو خودروز جیتے روزمرتے ہیں۔

آخر رہ گئے اربابِ بَست و کُشاد! تو وہ تو پہے ہی ارشاد صادر کر چکے ہیں کہ آپ کی خارجہ پالیسی میرے ناتواں جسم و جاں کی مرہونِ منت ہے۔\"\"

تو چلتے چلتے یہی کہوں گا کہ پھر کیوں نہ مجھے یا میری ہی برادری کے کسی فرد کو اپنا وزیر خارجہ مقرر کر دیں بلکہ سر کا تاج بنا لیں کیونکہ آپ کا موجودہ سر کا تاج اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے۔ کم از کم میں آپ کے اور آپ کے برادران ممالک یا اڑوس پڑوس کے تعلقات میں دَر آئی مخصوص کمزوری کا کچھ تدارک کر سکوں۔

ٹھرئیے…. ٹھہرئیے…. شاید میرا آخری وقت آ پہنچا ہے۔ دن ڈھل رہا ہے اور سارے ماحول پر صحرا کی سی زردی چھا رہی ہے اور بوجھل \"\"ہوتی فضا میں بہت ساری جیپوں کی چرچراہٹ، شکاری کتوں کی خرخراہٹ اور سدھائے گئے شکروں کی عقابی نظریں مجھے اپنے وجود پر گڑتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔

آپ کا

  ایک غریب الوطن تلور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments