رحیم گل کا ناول : تن تارا را


نام بڑا اچھوتا ہے۔ کتاب کے سرورق پر ”تن تارا را“ اور ایک حسینہ پر شباب کی تصویر دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ کوئی موسیقی، رقص یا شاعری کی کتاب ہو۔

مگر یہ ایک رومانوی ناول ہے اور ”تن تارارا“ اس ناول کی ہیروئن کا نام ہے۔ اگر آپ نے رحیم گل کی آپ بیتی ”داستاں چھوڑ آئے“ پڑھی ہے تو شاید میری طرح آپ بھی محسوس کر رہے ہوں گے کہ یہ ناول ایک حقیقی کہانی کے خمیر سے نمودار ہوا ہے۔ جس کا ہیرو ”اسد“ در اصل کتاب کا مصنف ”رحیم گل ’ہی ہے۔

اس ناول میں رومان کے ساتھ سا تھ انسان دوستی، محبت پر قربان ہونے اور اپنے عہد و پیمان پر قائم رہنے، ایسے انسانی اوصاف کا پرتو نظر آتا ہے۔ یہ اوصاف بلا شبہ سچے، بہادر اور خالص لوگوں کا شیوہ ہی ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف حسن و جمال اور جوانی کی فطری طغیانی کے بے ساختہ مناظر جواس مختصر سی کہانی میں ملتے ہیں، ایسی دل آویزی اور ویسی روانی اردو ناولوں میں کم کم ہی نظر آتی ہے۔

ناول کی کہانی، دوسری جنگ عظیم کے پس منظر سے طلوع ہوتی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار، اسد برطانوی فوج کا جنگی قیدی ہے۔ جو تین ہم اسیر ساتھیوں، مہر دین، بلونت سنگھ اور کمل رام کے ساتھ، برما میں جاپانی فوج کے قید خانے سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ چاروں جنگی قیدی جن میں دو مسلمان، ایک ہندو اور ایک سکھ ہے، قید سے بھاگ نکلنے کے بعد ایک نئی آزمائش سے دو چار ہو جاتے ہیں۔ بلونت سنگھ سردی سے مر جاتا ہے۔ باقی تینوں کی ایک جاپانی فوجی دستے مڈ بیڑ ہ ہو جاتی ہے۔ مہر دین جاپانی گولی کا نشانہ بنتا ہے۔ جبکہ ہندو جاٹ، کمل رام، دھان کے کھیت میں چھپے ہوئے اسد کو ظاہر نہ کرنے کی پاداش میں دوبارہ جنگی قیدی بننا گوارا کر لیتا ہے۔ اسد کا ہے کہ اس بھی بھاگنے کی کوشش کرنے کے جرم میں بعد ازاں مار دیا گیا ہوگا۔

”کمل رام کا خیال آیا توایک بار پھر میرا دل اس جاٹ کے لئے عزت و احترام کے جذبات سے بھر گیا۔ آنسو پلکوں پر آ کر رک گئے۔ سوچا۔ کیوں نہ کمل رام کا ساتھ دوں۔ اس کو موت کے منہ میں تنہا چھوڑ دینا تو بے انصافی ہوگی۔ پھر معاً ایک اور خیال آیا۔ ایسا تو کمل رام بھی کر سکتا تھا مگر اس نے نہیں کیا۔ اس طرح تو اس کے ایثار کی توہین ہو جائے گی۔ اس کی آتما کو دکھ پہنچے گا۔“ (صفحہ نمبر 20 ) ۔

تمام ساتھی کھو دینے کے بعد تن تنہا ’اسد‘ جنگلوں اور پہاڑوں کو عبور کرتا ایک ایسی وادی میں جا نکلتا ہے جو برما اور ہندوستان کی سرحدوں کے قرب و جوار میں اونچے اونچے پہاڑوں کے بیچ گھری ہوئی ایک مختصر سی آبادی پر مشتمل ہے۔ یہ ایک دشوار گزار اور دور درازکی کوئی وادی ہے۔ جہاں کی قبائلی ثقافت اسدکے لئے بالکل نئی ہے۔ یہاں کے قبائلی باشندے ناگ دیوتا کی پرستش کرتے ہیں، سیدھی سادھی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ لوگ، مہمان نواز، خوش مزاج، امن پسند اور بہادر ہیں۔ اس وادی میں داخل ہوتے ہی اسد کی ملاقات ”تن تارا را“ نامی ایک خوبرو دوشیزہ سے ہو جاتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی پوتر محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ اسد اس بستی میں زندگی کے یاد گار چند ماہ گزارتا ہے۔

ناول میں اسد اور تن تارا را کی پہلی ملاقات کی منظر کشی یوں کی گئی ہے :

” معاً میرے کانوں میں کسی عورت کے گنگنانے کی آواز آئی۔ میں چونک اٹھا۔ دائیں بائیں دیکھا، مجھے کچھ نظر نہ آیا۔ گنگناہٹ دھیرے دھیرے پتوں کی سرسراہٹ میں تحلیل ہو گئی۔ میں نے سوچا ممکن ہے کسی جنگلی پرندے کی آواز ہو۔ اس لئے ادھر کا خیال چھوڑ کر میں پھر انار کھانے لگ گیا۔ مگر ابھی دو چار منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ اچانک ایک نسوانی آواز نے مجھے چونکا دیا۔

”ہے“ ۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ مجھے کچھ نظر نہ آیا۔ خوف کی وجہ سے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ آواز پھر آئی: ”ہے“ ۔ اب کی آواز کے ساتھ ہی میری نظریں پیڑ پر جم گئیں۔ ایک نوجوان لڑکی شاخ پر بیٹھی انار کھا رہی تھی اور مجھے عجیب نظروں سے گھور رہی تھی۔ اس کا لباس میرے لیے بالکل نیا تھا۔ اس نے بے نیازی سے انار کے کچھ دانے منہ میں ڈالے اور پھر نیچے اتر آئی۔ میں نے اس کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ چھوٹے چھوٹے خشک اور الجھے ہوئے سیاہ بال۔

سولہ برس کا سن، کھلتا ہوا گورا رنگ، ناک نقشہ، بے حد سبک اور سجل۔ آنکھیں قدرے چھوٹی لیکن نہایت ہی چمک دار اور پر اثر۔ انتہائی تندرست چھریرا اور سڈول جسم، گلے میں نیلے منکوں کا ہار، کلائی اور بازوؤں میں دھاگے میں پروئے ہوئے رنگ برنگے منکے بندھے ہوئے، وہ چیتے کی کھال کا بنا ہوا نیم برہنہ لباس پہنے تھی۔ ننگے بازو۔ ، ننگی پنڈلیاں اور ننگا پیٹ۔ ”ساتی رو“ ۔ چند لمحے خاموشی کے بعد اس نے مجھے پکارا۔ میں خاموش کھڑا رہا۔ میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ ”ساتی رو!“ وہ پھر بولی۔

”ساتی رو“ میں نے زیر لب دہرایا۔ اور اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ میری نگاہیں اسی طرح اس حسین اور دلکش لڑکی پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ بھی مستفرانہ انداز میں میری طرف دیکھ رہی تھی۔ ”ساتی رو!“ میں نے نفی میں سر ہلایا۔ اور ہاتھ کے اشارے سے اسے سمجھایا کہ میں تمھارا مطلب نہیں سمجھ رہا۔ وہ بے ساختہ ہنس پڑی۔ اس کے سرخ سرخ مسوڑھوں پر سفید دانت چمکنے لگے۔ اس کی ہنسی پہاڑی آبشار کی طرح دلکش تھی۔ ”(صفحہ نمبر 22 سے 24 ) ۔“

کہانی میں موڑ آ تا ہے قبیلے کے سردار کا بیٹا، جو تن تارا اک یک طرفہ عاشق ہے، تن تارا را کو شادی کا پیغام بھجواتا ہے۔ مگر تارا اپنی محبت سے دست بردار ہونے پر کسی صورت رضامند نہیں ہوتی۔ یہ چپقلش بل آخر تارا کی موت اور اسد کی وطن واپسی پر اختتام پذیر ہوتی جاتی ہے۔

184 صفحات پر مشتمل اس مختصر ناول میں واقعات کا تانا بانا اتنی بے ساختگی سے اور فنکارانہ مہارت سے بنا گیا ہے کہ صفحہ اول سے صفحہ آخر تک قاری کتاب سے سر نہیں اٹھا سکتا۔ ہر لمحہ بدلتے ہوئے واقعات کا تسلسل قائم رکھتے ہوئے، مصنف نے جس طرح ایک قبائلی دوشیزہ کے معصوم اور الھڑ جذبات محبت کی عکاسی کی ہے، وہ بے حد دلکش اور حد درجہ موثر ہے۔ پڑھتے پڑھتے قاری کو یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے وہ ایک ناول کے مفروضہ واقعات کا قاری نہیں ہے بلکہ حقیقی واقعات کا چشم دید گواہ ہے۔

انسانی نفسیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ پوری رضامندی، راہ رغبت اور شدید لگاوٹ سے کیا گیا ملاپ بہت دلفریب، روح افزا ء اور طمانیت بخش ہوتا ہے۔ رحیم گل کی رومانوی تصویر کشی میں یہ باتیں آپ کو جا بجا ملیں گی۔

”اس کا ہر قرب ایک نیا رنگ، نیا روپ اور نیا کیف لے کر آتا تھا۔“

”نہ اسے سدھ بدھ تھی نہ مجھے۔ یہ احساس ہی نہ رہا تھا کہ میں نے خود کو اس کے حوالے کیا ہے یا اس نے اپنے آپ کو میرے سپرد کیا ہے۔ جانے کتنی دیر ہم یونہی ایک دوسرے میں کھوئے رہے۔ صدیوں کے احساس سے سرشار لمحے۔ زندگی ایک شاداب درخت ہے اور یہ لمحے امر پھل ہیں یہ ثمر چکھ کر زندگی کبھی بوڑھی نہیں ہوتی۔“ (صفحہ 84 )

”وہ میری آغوش میں سمائی جا رہی تھی اور میری روح، میرا ذہن، میرا دل طمانیت اور مسرت کی دولت سے مالا مال تھا۔ میں کائنات کا امیر ترین شخص تھا۔ مجھ جیسا سکھ کسی اور کو حاصل نہیں تھا۔“ (صفحہ 98 )

ناول میں ایک جگہ پیار و محبت کے جذبے کی ترجمانی یوں کی گئی ہے : ”

میں سوچ رہا تھا کہ دنیا میں پیار سے بڑی سعادت کوئی دوسری نہیں ہو سکتی۔ ہاں یہ پیا ر ہے جو ہر رشتے سے قوی ہے، ہر تعلق سے بے نیاز ہے، ہر قدر پر بھاری ہے، یہ پیار ہی ہے جو ہر دعوے کو جھٹلا دیتا ہے ہر غرور کو توڑ دیتا ہے اور تعمت کو قبول کر لیتا ہے۔ یہ پیار ہی ہے، جو ساگر سے گمبھیر، آکاش سے بلند، کونپل کی طرح نازک اور ننھے بچے کی طرح معصوم ہوتا ہے۔ ”(صفحہ 64 )

ناول کے آخری صفحات میں محبت اور زندگی بارے فلسفیانہ خود کلامی بھی ملتی ہے جو مصنف کی دلچسپ تجربات و مشاہدات پر مبنی ایک بھر پور زندگی کے محاصل کہے جا سکتے ہیں :

”تن تارا را مر گئی اور میں زندہ ہوں۔ میری شادی ہو رہی ہے۔ اس دنیا میں جو قطعی ممکن ہوتا ہے وہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ اور جو ناممکن خیال کیا جاتا ہے، وہ ممکن ہو جاتا ہے۔ جھوٹ کو حسن کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ کتابوں کا سچ اور ہوتا ہے۔ عملی زندگی کے سچ کی شکل بالکل دوسری ہوتی ہے۔ پیغمبر بہت بڑے آدمی تھے۔ انھوں نے غیر فانی باتیں بھی کہی ہیں انھوں نے کروڑوں اربوں آدمیوں کو متاثر کیا ہے۔ انھوں نے سچائی کو محسوس کیا ہے۔

اور اس کی تلقین کی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ سچائی کا دور دورہ نہیں ہوا۔ زندگی کا کوئی نظریہ، کوئی فلسفہ انسانی سرشت کو نہ بدل سکا۔ جب دنیا غاروں میں رہتی تھی تو فساد، فرد تک محدود تھا۔ جب وہ غاروں سے باہر آ گئے تو اجتماعی زندگی لپیٹ میں آ گئی۔ غار کا آدمی جسمانی لحاظ سے ننگا تھاکپڑے پہن کر وہ روحانی طور پر ننگا ہو گیا۔“ (صفحہ 180 )

”عجیب گورکھ دھندہ ہے۔ مادہ ذائقہ تو دے سکتا ہے، شعور اور جذبہ نہیں دے سکتا۔ خالق شعور اور جذبہ دے سکتا ہے، شر نہیں دے سکتا۔ اور یہاں سب کچھ موجود ہے۔“ (صفحہ 182 )

بعض ناقدین کا خیال ہے کہ رحیم گل کے ہاں بعض مقامات پر حسن اور عشق کی واردات میں محبوب سے قربت کے مناظر اتنی جزئیات کے ساتھ لکھے گئے ہیں کہ وہ فحاشی اور عریانیت کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔ اس حوالے سے مصنف کا پنا موقف کچھ یوں تھا:

” لوگ بلا وجہ میری کومل اور لطیف احساسات میں گندھی ہوئی تحریروں میں فحاشی اور عریانی ڈھونڈنے لگتے ہیں اور بلا وجہ اسے عریاں نگاری قرار دینے پر تل جاتے ہیں۔ حالانکہ دیانت داری سے دیکھا جائے تو ڈی ایچ لارنس اور موپاساں سے سعادت حسن منٹو، اور سعادت حسن منٹو سے رحیم گل تک کہیں بھی دانستہ عریاں نگاری کی سعی نہیں کی گئی۔ مصنفین نے جو لکھا اس کا تقاضا ہی یہی تھا۔ وہ جان بوجھ کر لوگوں کے سفلی جذبات بر انگیختہ نہیں کرتے۔

اگر کسی کے جذبات بھڑکتے ہیں تو تو اس کے اپنے ذاتی خیالات اور ایک کمزور وژن کی غیر منطقی وسعت کی وجہ سے۔ غیر تربت یافتہ، ان کلچرڈ اور ان سویلائزڈسوچ کی وجہ سے۔ ذہن اگر پاک صاف خیالات کا محور ہے تو کسی گندی تحریر سے بھی کوئی غلط تاثر اخذ نہیں کر سکتا۔ ذہن صاف ہی نہ ہو تو پھر تلذذ کے لئے معمولی سی تحریر بھی شہوت انگیزی کا بہانہ بن سکتی ہے۔“

یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ لاہور میں منٹو اور ڈی ایچ لارنس پر فرانس میں فحش نگاری کے الزامات کے تحت مقدمات چلے۔ مصنفین کے وکلاء نے جو موقف اختیار کیا اس میں بنیادی نقطہ یہی تھا کہ سب سے پہلے فحاشی کی تعریف اور اس کی حدود کا تعین ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ مصنف کی کون سی تحریر ان حدود کے تحت قابل گرفت ہے۔ مگر یہ بات خوش آئند ہے کہ رحیم گل صاحب پر اس حوالے کبھی کوئی مقدمہ نہیں چلا۔

’تن تارا را ”پڑھتے ہوئے ہمیں حیرانی بھی ہو رہی تھی کہ آخر اتنی اچھی کہانی پر ابھی تک کسی فلمساز کی نظر کیوں نہیں پڑی۔ اور تن تارا را نامی فلم کیوں نہ بن سکی؟ حالانکہ مصنف بذات خود ایک فلمساز تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو:

زندگی کو بے نیاز آرزو کرنا پڑا
آہ! کن آنکھوں سے انجام تمنا دیکھتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).