وبائی دور میں بے یقینی کی لہر


زندگی ایک ہی رو میں بہتی رہے اس کے حسن کا اندازہ ہی نہیں ہونے پاتا۔ نہ ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم کتنی نعمتوں سے مالامال ہیں۔ ایک روٹین، لگی بندھی زندگی بوریت اور اردگرد سے نا محسوس لاتعلقی ذات کا حصہ بن جاتی ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو اس بات پہ شکرگزار ہوتے ہوں گے کہ وہ ایک نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔ سکون سے سوتے ہیں، بیماری سے بچے ہوئے ہیں، روزگار میسر ہے، خاندان ہے، سماجی حالات پرسکون ہیں۔ بہت کم ہی لوگ یہ احساس کر پاتے ہیں ورنہ اکثریت بے زاری اور بے سکونی کا شکار نظر آتی ہے کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ تمام نعمتوں کو فار گرانٹڈ لیتا ہے۔

اور اسے کبھی بھی احساس نہیں ہو پاتا کہ وہ کتنا بلیسڈ ہے جب تک کہ وہ خوشیاں اور سکون اس سے چھن نہ جائے یایہ خوف نہ پیدا ہو جائے کہ سب کسی بھی لمحے چھن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نارمل حالات میں انسانیت کے اس درجے پہ نہیں آسکتے جہاں وہ اپنے ساتھی انسانوں کے ساتھ رنگ ونسل، ذات پات، علاقائی جغرافیائی، سماجی حیثیت اور رتبے سے قطع نظر ایک احساس سے جڑ سکیں۔ خوشیوں میں، روز مرہ کی زندگی میں یہ احساس مفقود ہوتا ہے لیکن کسی بڑی قدرتی آفت، مصیبت یا جنگ میں انسانی ہمدردی یا ایمپتھی شدت سے ابھر آتی ہے۔ اسی کفیت میں جذبات و احساسات انسانوں کو باہم جوڑ دیتے ہیں۔

ہم میں سے کسی نے کہاں سوچا تھا کہ اکیسویں صدی میں ایسی کوئی ان دیکھی آفت دنیا پہ مسلط ہو سکتی ہے جو ہماری زندگی کو جینے، سماجی تعلق کو، ہر شعبہ زندگی کو مکمل طور سے بدل ڈالے گی۔ یہ خیال آنا ممکن نہیں تھا۔ کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ کل اٹھیں گے تو پتہ چلے گا کہ وہ روٹین جس سے ہم بے زار ہیں، وہ دنیا جس سے ہم لاتعلق ہیں ہم سے ایک دم چھن جائے اور ہم ایک ہی جگہ پہ خود ساختہ قید رہنے پہ مجبور ہوں تو کس قدر اذیت ناک تنہائی، بے بسی، خوف اور بے یقینی کا شکار ہو جائیں گے۔

انسانی لمس، سماجی میل جول، دوستی، کام پہ اکٹھا ہونا، ایک دوسرے سے براہ راست رابطہ یہ سب ایک دم چھن جائے تو شاک لگنا بالکل فطری تھا۔ یہاں امیر غیریب کا فرق ختم ہو گیا، ترقی یافتہ اور پسماندہ ملک کی تفریق بھی اور تناظر میں چلی گئی ایک خوف نے سب کو آپس میں جوڑ دیا جو فنا کا خوف تھا ایک احساس جو بے یقینی کا تھا اس نے سب کو جوڑ دیا۔

کورونا کی وبا نے انسان کو جہاں معاشی جسمانی اور سماجی طور پہ متاثر کیا ہے وہیں نفسیاتی طور پہ توڑ پھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ غیر یقینی صورتحال پہ قابو پایا جا سکتا ہے اگر آپ نفسیاتی طور پہ مضبوط ہوں لیکن نفسیاتی طور پہ طاقتور ہونے کے لیے ایک غیر یقینی صورتحال میں باقی سب عوامل کا کاسسٹنٹ ہونا ضروری ہے لیکن سب بدل جائے تو ذہنی توڑ پھوڑ لازم ہے۔

اس ذہنی کیفیت نے سب کو کہیں نہ کہیں متاثر کیا ہے۔ معاشی بد حالی براہ راست انسان کی اخلاقیات اور حس جمالیات کو متاثر کرتی ہے۔ جس انسان کو کھانے کی فکر ہو اس کا دماغ کچھ اور سوچ ہی نہیں سکتا۔ سوچنے کے لیے پیٹ کا بھرا ہونا ضروری ہے۔ لیکن دنیا کے معاشی حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ کاروباری حلقوں میں بھی اضطراب کی کیفیت ہے نہ وہ ذہنی طور پہ ریلیکس ہو پا رہے ہیں نہ ہی کوئی پیش قدمی کرتے ہیں۔ تنہائی نے انسانوں کو شدت سے متاثر کیا ہے یا تو وہ تعلق بنائے اور نبھانے میں بہت شدت سے سوئٹ ہوئے ہیں یا پھر سارا ڈپریش ہی رشتوں اور تعلق پہ نکلا ہے جس سے گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

کرونا کی دوسری لہر شروع ہو چکی ہے لیکن ابھی تک ہم اس کے اثرات کو پوری طور سے نہ سمجھ پائے ہیں نہ ہی قابو کر سکیں ہیں۔ عام لوگ لانگ ٹرم پلاننگ کرتے ہوئے خوف زدہ ہیں۔ پرہشانی نے انہیں اس قدر متاثر کیا ہے کہ پرسکون ہو کے کوئی بھی فیصلہ نہیں لے سکتے۔ پسماندہ معاشروں میں نفسیاتی مسائل کو ویسے ہی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور ایسی صورتحال میں تو ممکن ہی نہیں کہ کسی قسم کی کونسلنگ کی بات کی جائے یا اس کا منظم انتظام کیا جائے۔

دنیا کا باہمی انٹرایکشن، خرید و فروخت، صحت و صفائی، باہمی تعلق کا نظریہ یکسر بدل رہا ہے۔ ہر پہلو ڈیجٹل ٹیکنالوجی سے جڑ گیا ہے۔ یہ بھی ایک طرح سے شدت سے آنے والا طوفان ہے جسے سمجھنے کا مناسب وقت نہیں مل پایا ہے۔ اسے اپنانے کے لیے فطری عوامل میسر نہیں آئے اس لیے اسے سنبھالنا اور مکمل طور پہ اسے ساتھ لے کے چلنا بھی خاصا مشکل ہے۔ عدم تحفظ کے احساس نے انسان کو شاید اس کے ابتدائی دور میں لا کھڑا کیاہے جہاں بقا سب سے اہم ہے باقی سب کچھ زندگی کو بچانے کا اور اسے سہل کرنے کا ایک ذریعہ رہ گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).