لاہور پولیس سے بدتمیزی کی وائرل ویڈیو: پولیس اہلکار کو شاباشیاں، خاتون کے خلاف مقدمہ درج


لاہور میں ایک جھگڑے کے دوران خاتون کی جانب سے پولیس اہلکار سے بدتمیزی اور اس پر ہاتھ اٹھانے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جس کے بعد خاتون کے اس رویے کے بارے میں سوشل میڈیا پر خاصی بحث کی جا رہی ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مذکورہ خاتون پولیس اہلکار کو تھپڑ مارتے ہوئے یہ کہہ رہی ہیں کہ ‘تیری ایسی کی تیسی۔’ یہی نہیں بلکہ ویڈیو میں خاتون کو پولیس اہلکار کو گالیاں دیتے بھی سنا جا سکتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب خاتون کے رویے کے جواب میں پولیس اہلکار کو خاتون سے پیچھے ہٹتے اور اپنا بچاؤ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اس واقعے کے نتیجے میں درج ہونے والی ایف آئی آر کے مطابق پولیس اہلکاروں کو دوران گشت لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے فیز 5 کے ایک مقامی ریستوران گلوریا جینز کے باہر جھگڑے کی اطلاع ملی جس پر وہ وہاں پہنچے تو وہاں ایک خاتون ریستوران کے عملے کے ساتھ ’بدتمیزی اور لڑائی جھگڑا‘ کر رہی تھیں اور ان کے ساتھ ایک لڑکا بھی موجود تھا۔ جب پولیس نے انھیں روکنے اور سمجھانے کی کوشش کی تو انھوں نے ’پولیس اہلکار کے ساتھ بھی ہاتھا پائی اور گالم گلوچ شروع کر دی اور دھمکیاں دیں‘۔

تاحال اس ایف آئی آر کے بعد بھی خاتون کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پولیس کی نیک نامی کے لیے ’دال چاول‘ تیار

’کھولو گیٹ نہیں تو ۔۔۔‘ کی دھمکی مہنگی پڑ گئی!

بی بی سی رپورٹر کی وائرل ویڈیو پر پولیس اہلکار گرفتار

کرنل کی اہلیہ کی وائرل ویڈیو: اہلکار سے بدتمیزی کا مقدمہ نامعلوم عورت کے خلاف درج

‘وہ دونوں ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر کھانا کھانا چاہتے تھے’

اس واقعے پر بات کرتے ہوئے ریستوران کے مینیجر افضل خان نے بتایا کہ جھگڑا کرنے والی خاتون اور لڑکا تقریباً رات کے ایک سے ڈیڑھ بجے ریستوران کی پارکنگ میں آئے اور کھانا آرڈر کیا، جس کے تھوڑی دیر بعد ہی وہ دونوں اندر آئے اور کھانا ریستوران کے اندر بیٹھ کر کھانے پر اصرار کیا، جس پر ’ہم نے انھیں بتایا کہ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ کورونا ایس او پیز کے مطابق اس کی اجازت نہیں ہے‘۔

ان کے مطابق اس پر انھوں نے مبینہ طور پر سٹاف سے ضد اور پھر بدتمیزی کی کہ وہ یہاں ہی بیٹھیں گے۔

‘ہم نے باہر سے گارڈ کو بلایا تاکہ وہ اس لڑائی کو روک سکیں اور انھیں باہر لے جا سکیں، جس پر وہ اشتعال میں آگئے اور بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ اسی دوران دو پولیس اہلکار جو اپنی بائیک پر گزر رہے تھے، وہ رکے اور لڑائی ختم کروانے کی کوشش کی، جس پر انھوں نے ان کے ساتھ بھی جھگڑا شروع کر دیا۔’

افضل خان کہتے ہیں کہ ان اہلکاروں نے تھانے میں کال ملا کر پولیس کی ایک اور گاڑی بلا لی مگر موقع پر آنے والے ’کانسٹیبل کو اس خاتون نے تھپڑ مارے اور بدتمیزی کی‘۔

بعد ازاں لڑکے کو پولیس اپنے ساتھ لے گئی اور وہ خاتون گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے فوراً چلی گئیں، تاہم جھگڑے کے دوران ہجوم میں موجود لوگوں نے اس واقعے کی ویڈیو بنا لی اور سوشل میڈیا پر وائرل کر دی۔

ریستوران کے مینیجر نے یہ بھی الزام لگایا کہ ان دونوں نے مبینہ طور پر شراب پی رکھی تھی اور وہ نشے کی حالت میں تھے۔

خاتون کو موقع سے کیوں نہیں پکڑا گیا؟

اس واقعے پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جو رویہ ان خاتون نے اپنایا، اس پر انھیں اسی وقت گرفتار کرنا چاہیے تھا، کیوں موقع پر کوئی خاتون اہلکار موجود نہیں تھیں جو اُن خاتون کو ان کے رویے کے مطابق کارروائی کرتیں۔

اس بارے میں بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے پولیس حکام کا کہنا تھا کہ یہ واقع رات ایک دو بجے کے قریب رپورٹ ہوا اور عموماً اس وقت خاتون اہلکار کی موجودگی مشکل ہوتی ہے، اور ابتدائی طور پر ملنے والی معلومات کے مطابق ہمیں یہی پتا چلا تھا کہ یہ جھگڑے کا معاملہ ہے، جس کے فوراً بعد ٹیم روانہ ہو گئی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عموماً ایسے واقعات میں پولیس والے کتراتے ہیں کہ وہ خاتون سے اسی انداز میں نمٹیں جیسے کسی مرد سے نمٹا جاتا ہے، اور اگر ایسا کیا جائے تو معاملہ الٹا پولیس کے خلاف ہی چلا جاتا ہے۔

حکام کے مطابق اس کیس میں اہلکار نے یہی کوشش کی کہ ان خاتون کو کچھ نہ کہے بغیر ہی معاملہ سلجھا لیا جائے۔

پولیس ذرائع کے مطابق جھگڑے کے فوری بعد ہی لڑکے کو گرفتار کرکے تھانے لے جایا گیا تھا، تاہم کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا کیونکہ معافی تلافی ہو گئی تھی، جس کے بعد انھیں بھی چھوڑ دیا گیا تھا۔

لیکن سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد حکام نے نوٹس لیا اور پھر اس واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا۔

واقعے میں مبینہ طور پر ملوث خاتون اور مرد کے حوالے سے شراب نوشی کے الزام کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ دفعات مقدمے میں اس لیے درج نہیں کی گئیں کیونکہ 24 گھنٹوں بعد ویسے ہی شراب نوشی کا ٹیسٹ منفی آتا ہے، اس لیے اسے ثابت کرنا ممکن نہیں تھا۔

دوسری جانب سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق انھوں نے کانسٹیبل کی طرف سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے پر شاباش دیتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی طرف سے ایسا رویہ برداشت نہیں کیا جائے گا اور تشدد کرنے والی خاتون کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

سوشل میڈیا پر ردِعمل

سوشل میڈیا صارفين کی جانب سے اس ویڈیو اور دیگر الزامات پر ردِعمل دیتے ہوئے یہ کہا جا رہا ہے کہ جب بھی ایسی کوئی ویڈیو منظر عام پر آتی ہے تو لوگ اصل وجہ جاننے کے بجائے خاتون کی کردار کشی شروع کر دیتے ہیں، کوئی یہ وجہ کیوں نہیں جاننے کی کوشش کر رہا کہ یہ خاتون اتنے غصے میں آئی کیوں۔

صحافی لعلین نے کہا کہ وہ ان خاتون کے رویے کا دفاع نہیں کر رہیں تاہم ’قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے لیے بھی کسی خاتون کا گھیراؤ کرنا اور ان کی فلم بنانا یا ان پر آوازیں کسنا مناسب نہیں ہے‘۔

صارف مائدہ اشرف نے لکھا کہ ’دونوں کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہیے کیونکہ انھوں نے جنونیت کا مظاہرہ کیا اور ڈیوٹی پر موجود اہلکار کے ساتھ بدتمیرزی کی‘۔ انھوں نے اہلکار کو بھی ’احترام کے دائرے‘ میں رہنے پر شاباش دی۔

عابد اجمل نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ ’ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار کو گالیاں نہیں دے سکتے ہیں، پولس والے نے خاتون کا احترام کرتے ہوئے بدلے میں گالیاں نہیں دی اور نہ ہی ہاتھ اٹھایا، اگر وہ بھی بدلے میں ایسا کر دیتا تو کیا عزت رہ جاتی‘۔

حمنیٰ ملک نے لکھا کہ ’ہمیں اس ملک میں مردوں کے لیے الگ سے ‘می ٹو’ مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے‘۔

نایاب شاہد کہتی ہیں کہ ’اس ویڈیو کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا ہے کہ ہمیں اپنے ملک کے مردوں کو بھی تحفظ دینا چاہیے‘۔

مومنہ نے ویڈیو شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ ’میں اس پولیس اہلکار کو دس میں دس نمبر دیتی ہوں جس طرح اس نے اپنے غصے پر قابو رکھا‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp