معیشت اور جسٹس (ر) جاوید اقبال کی نباضی


تین روز پہلے وعدہ کیا تھا کہ سند باد جہازی کے قصے لکھا کریں گے، قطب شمالی کی برفانی چادر تلے دبی مچھلی کا شکار بیان کریں گے، افریقہ کے جنگلوں میں آزاد گھومتے شیروں کی عادات پر روشنی ڈالیں گے۔ اپنے دیس کی کتھا نہیں کہیں گے۔ مگر وطن تو پرندے کے پاؤں میں الجھی ڈور جیسا رشتہ ہے۔ سید امجد علی پہلی گول میز کانفرنس میں علامہ اقبال کے شریک سفر تھے۔ ایک روز حضرت علامہ کو ذوق کا شعر سنایا۔ ’پھر مجھے لے چلا وہیں دیکھو / دل خانہ خراب کی باتیں‘۔ ذوق کی نمود تو کہیں بعد کو ہوئی۔ ہماری ہڈیوں میں تو میر تقی کی وارفتگی بسی ہے۔ ’چلا نہ اٹھ کے وہیں چپکے چپکے پھر تو میر / ابھی تو اس کی گلی سے پکار لایا ہوں‘۔ وطن کی خبریں تو بہت ہیں، وہ خبر البتہ فردوس گوش نہیں ہوتی کہ’جس کے ساتھ بندھی ہے دلوں کی فتح و شکست‘۔
اقوام متحدہ کے ادارہ ترقی (UNDP) نے خبر دی ہے کہ انسانی ترقی کے انڈیکس میں پاکستان دو درجے تنزلی کے ساتھ 152 سے 154 پر آ گیا ہے۔ شاید ہماری تالیف کے لئے یہی کافی ہو کہ بھارت بھی دو درجے نیچے آ کر 131 پر آن ٹکا ہے۔ کوئی تیس برس پہلے انسانی ترقی کی درجہ بندی (HDI) شروع ہوئی تو پاکستان کہیں 135 کے ہندسے کے آس پاس پایا جاتا تھا۔ ہم تب ایسے سادہ تھے کہ بھارت کے ایک درجہ آگے ہونے پر کڑھا کرتے تھے۔ ہمیں خبر نہیں تھی کہ نرسیما راؤ کے ہندوستان نے منموہن سنگھ ڈھونڈ نکالا ہے جو چوتھائی صدی میں بھارت کی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دے گا۔ ہم نے بھی ایسے جواہر کی تلاش میں سر گاڑی پاؤں پہیا کئے رکھا۔ ہمارے حصے میں معین قریشی، شوکت عزیز اور حفیظ شیخ آئے۔ قسمت کھوٹی ہے، سونے کو ہاتھ لگاتے ہیں تو مٹی ہو جاتا ہے۔ بھارت ہی سے تقابل ٹھہرا تو ورلڈ بینک کی رپورٹ دیکھیے۔ 2020ء میں بھارت کی معاشی شرح نمو 5.4 فیصد رہی جب کہ پاکستان میں یہ شرح 0.5 فیصد رہی۔ اس برس بھارت میں افراط زر کی شرح 3 فیصد رہی جب کہ ہمارے ملک میں افراط زر 12 فیصد کو جا پہنچا۔ ابھی پچھلے ہفتے پیٹرول کی قیمت میں تین روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوا۔ نیا برس شروع ہوتے ہوتے یہ فیصلہ بھی اپنا رنگ دکھائے گا۔

انسانی ترقی، شرح نمو اور افراط زر کی خبریں یو این ڈی پی اور ورلڈ بینک نے دی ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں یہ استعماری ادارے ہیں۔ حکومت پاکستان کا ادارہ شماریات بتا رہا ہے کہ 2018ء میں متوسط آمدنی والے پاکستانی شہریوں (انفرادی آمدنی 300 ڈالر ماہانہ) کی تعداد ایک کروڑ ساٹھ لاکھ تھی۔ اب یہ تعداد 56 لاکھ رہ گئی ہے۔ گویا دو برس میں ایک کروڑ دس لاکھ شہری غربت کا شکار ہو گئے۔ کیسے اجڑی بستیوں کو آباد کرو گے؟ ایسے اعداد و شمار ایک متعین معیار کی مدد سے بیان کئے جاتے ہیں۔ 300 ڈالر کی اس لکیر سے ذرا اوپر بسنے والوں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس میں ان ساڑھے پانچ کروڑ افتادگان خاک (24.3 فیصد) کا ذکر شامل نہیں جو پہلے سے غربت کی لکیر سے نیچے کلبلا رہے ہیں۔ 2014ءمیں 300 ڈالر ماہانہ کی استطاعت رکھنے والے پاکستانی شہری 53 لاکھ تھے۔ یعنی چور لٹیروں کی حکومت نے پانچ برس میں جو بنایا تھا، اسے دو برس میں گنوا دیا گیا۔

2008ء میں جی ڈی پی کا حجم 134 ارب ڈالر تھا جو 2018ءتک 315 ارب ڈالر ہو گیا۔ کورونا کی افتاد ٹوٹنے سے پہلے جی ڈی پی کا تخمینہ 264 ارب ڈالر تھا۔ گویا پابند سلاسل جمہوری عشرے میں ہونے والی ترقی دو برس میں ڈبو دی گئی۔ مزید یہ کہ رواں مالی برس کے پہلے پانچ ماہ میں ساڑھے چار ارب ڈالر کا مزید قرض لیا گیا اور یہ قرض ترقیاتی کاموں کے لئے نہیں لیا گیا، اس کا مقصد گزشتہ قرض کی ادائیگی اور زر مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنا تھا۔ جاننا چاہیے کہ قرض بذات خود معیشت کے بارے میں حتمی صورت حال بیان نہیں کرتا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی کاروباری ادارہ اور کوئی حکومت قرض کے بغیر نہیں چلتے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ قرض کس مد میں صرف ہو رہا ہے۔ کیا کوئی ایسی صورت ہے کہ پیداواری صلاحیت بڑھا کے قرض کی واپسی کی صورت نظر آتی ہو؟ وزیر تجارت رزاق داؤد کہتے ہیں کہ گزشتہ دو ماہ میں برامدات میں گزشتہ برس کے اسی تقابلی دورانیے سے 7.2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ کورونا کی ناکہ بندی کے باعث گودیوں پر رکے ہوئے سامان کے نکاس سے معیشت کے عارض پر سرخی کی جھلک نظر آئی ہے۔

معیشت میں امید و یاس کے تخمینے موضوعی نہیں ہوتے اور نہ بھاڑے پر تیارہ شدہ خبروں سے معیشت کی صورت حال چھپائی جا سکتی ہے۔ وجہ یہ کہ ہر شہری اپنے دسترخوان کی خبر رکھتا ہے۔ ذرا اپنے ارد گرد دیکھ کر وہ گھرانے گن جائیے جہاں یہ امید قائم ہو کہ ماں باپ کی محنت کے نتیجے میں آئندہ نسلوں کا معیار زندگی بہتر ہو جائے گا۔ کسی عقل مند سے پوچھ کر بتائیے کہ آئندہ دس پندرہ برس میں ملک کا سیاسی، معاشی نقشہ کیا ہو گا؟ آبادی، خواندگی اور روزگار کی تصویر کیا ہو گی؟ ایک تجویز یہ ہے کہ پاکستان کے تمام بیرونی اور داخلی قرضوں کا ایک جامع آڈٹ ہونا چاہیے جس سے معلوم ہو سکے کہ ہم نے قرض کی رقم کس مد میں صرف کی۔ مجوزہ تجزیے سے بہت سی اجتماعی غلط فہمیاں دور ہو سکیں گی۔ کم از کم ہمیں احتساب بیورو کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی نیم حکیم نباضی سے نجات مل سکے گی جو فرماتے ہیں کہ ملک میں غربت و افلاس کا سبب اربوں روپے کی منی لانڈرنگ ہے۔ ہم جسٹس صاحب کی قانونی نشتر زنی سے سنبھل نہیں پائے، انہوں نے سیاست اور معیشت کا مردہ خراب کرنے پر بھی کمر باندھ لی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).