کیا کملا ہیرِس کا کامیابی کے بعد ایشین نژاد اور سیاہ فام امریکیوں کے جوڑے مقبول ہو جائیں گے؟


'میرے لیے سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ میں کس طرح اپنے والدین کو یہ بتاؤں کہ میرا پارٹنر ایک سیاہ فام مرد ہے، اور کئی برسوں تک ایک منافقانہ زندگی بسر کرتی رہی۔'

انڈیا میں ذات پات کے نظام اور کالی رنگت کے بارے میں متعصبانہ رویے کی وجہ سے سیاہ فام مرد یا عورت کے ساتھ تعلق بنانا ایک ‘ٹیبو’ سمجھا جاتا ہے، اس لیے ایسے جوڑوں کو اپنے رشتہ داروں میں اپنے سیاہ فام پارٹنر کو متعارف کرانا ایک بہت جرات کا کام بن جاتا ہے۔

ایشین نژاد لوگوں میں سیا فام مردوں اور عورتوں کے بارے میں اس شدید تعصب کے باوجود ایسے جوڑے دیکھنے میں آرہے ہیں جن میں یا تو لڑکی انڈیا کی ہے اور مرد سیاہ فام ہے یا مرد انڈین ہے اور عو رت سیاہ فام ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’میرے ایشیائی خاندان نے سیاہ فام بوائے فرینڈ کو قبول نہیں کیا‘

غلاموں کی اولادیں جو آج بھی اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتیں!

جدید ٹیکنالوجی چہرے پہچاننے میں نسلی تعصب کا شکار

رشتہ تلاش کرنے کی ویب سائٹ سے جلد کی رنگت کا سوال ہٹ گیا

اس برس نسل پرستی کا موضوع خبروں میں مسلسل رہا ہے۔ اس برس گرمیوں میں ‘بلیک لائیوز میٹر’ کے مظاہروں سے سے لے کر کملا ہیرِس کے انتخاب تک، جو کہ پہلی سیاہ فام انڈین نژاد خاتون ہیں جو امریکہ کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوئی ہیں، خبروں میں رہی ہیں۔

سیاہ فام اور انڈین نژاد جوڑوں کے بارے میں ایک آن لائین پلیٹ فارم کو قائم کرنے والے کہتے ہیں کہ ان واقعات کا ذاتی سطح کے تعلقات پر اثر بھی پڑا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والوں کے لیے کسی سیاہ فام مرد یا عورت کے ساتھ پیار کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔

لندن میں رہنے والے ایک یوگنڈا نژاد امریکی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انجینیئر جونا بٹامبُزی نے ایک ایسی ویب سائٹ بنائی ہے جس میں میں وہ ایشین نژاد اور سیاہ فام جوڑوں کے مسائل اور مشکلات کے حل میں مدد مہیا کرنے کا مشن سنبھالا ہے۔ اس کا نام ‘بلِنڈیان پراجیکٹ’ ہے۔

جونا نے انڈیا کی ریاست آندھرا ہردیش کے تیلگو خاندان کی ایک لڑکی سویتا سے دوستی ہو گئی اور بعد میں انھوں نے اپنے خاندانوں کی مخالفت کے باوجود شادی کر لی۔ دونوں کی ملاقات شمالی آئر لینڈ کے شہر ڈبلِن میں ہوئی تھا جہاں وہ دونوں زیرِ تعلیم تھے۔

جونا اور سویتا بٹامبُزی

جونا اور سویتا بٹامبُزی نے جلد ہی محسوس کیا کہ وہ اپنے ملنے جلنے والوں میں بہت ہی کم ایسے جوڑے دیکھتے ہیں جن میں ایک ایشین نژاد ہو اور دوسرا انڈیا ہو۔ ان کو اپنے جیسا دِکھنے والا جوڑا تلاش کرنے میں کئی برس لگے تھے۔

شادی کے بعد جونا اور سویتا جب لندن آئے تو انھوں نے اپنی طرح کے جوڑوں کو تلاش کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم استعمال کیے۔ ابتدا میں انہیں صرف دس جوڑے ملے۔

لیکن اب ان کے پلیٹ فارم ‘بلِنڈین پراجیکٹ’ کے ذریعے وہ اب سیاہ فام اور انڈین نژاد ہزاروں جوڑوں کے رابطے بنا رہے ہیں۔

ایسے جوڑوں کے درمیان رابطوں کا فقدان صرف برطانیہ ہی میں نہیں، بلکہ دنیا بھر میں ہے۔ مگر ان سب میں ایک مسئلہ حاوی ہے ۔ جونا بٹامبُزی کہتے ہیں کہ ‘ان سے جو بات سب سے زیادہ پوچھی گئی وہ تھی کہ میں اپنے نئے ساتھی کو اپنے والدین سے کیسے متعارف کراؤں۔’

بٹامبُزی جوڑے کا کہنا ہے کہ ایشین کمیونیٹیز میں سیاہ فاموں کے خلاف شدید تعصب نسل پرستی، ذات پات کے نظام اور بزرگوں کے دباؤ کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ سویتا کہتی ہیں کہ انڈین خاندانوں میں سیاہ فاموں کے خلاف بہت شدید تعصب دیکھا گیا ہے۔

‘یہ خاندانوں کے لیے مشکل وقت ہے، لیکن ہمیں والدین کے احترام میں توازن لانا ہے۔ اور میرے خیال میں یہ بچوں کے لیے بہت اہم ہے۔ ہمارے بچے چار اور چھ برس کے ہیں، یہ مِکسڈ ریس بچوں کی طرح بڑے ہو رہے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ اپنی رنگت کے بارے میں پُر اعتماد رہیں۔’

سویتا اور بٹامبُزی نے آن لائین ورکشاپس کا اہتمام کیا ہے تاکہ وہ ایسے جوڑوں کو اِن پیچیدگیوں سے نمٹنے میں مدد دے سکیں۔ سویتا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک ایسی لڑکی کا فون آیا جس کا بوائے فرینڈ سیاہ فام تھا۔ وہ بہت پریشان تھی۔

اس نے کہا: ‘مجھے افسوس ہے کہ میں اونچی آواز میں بات نہیں کرسکتی ہوں کیونکہ میں گھر میں اس وقت اپنی فیملی کے ساتھ ہوں۔ میں اپنے پارٹنر کے ساتھ ڈھائی برس سے جا رہی ہوں، اور میں اپنی منافقانہ زندگی سے تنگ آچکی ہوں۔’

سویتا اور جونا نے اُس لڑکی کو مشورے دے کر اُس کی ہمت بڑھائی اور حقائق کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا۔

اس وقت مِکسڈ ریس تعلقات کے واقعات میں اضافہ ہو رہا، لیکن سیاہ فام اور ایشین نژاد جوڑوں کا زیادہ ڈیٹا نہیں ہے، اِس لیے یہ اپنے آپ کو اور بھی زیادہ تنہا محسوس کرتے ہیں۔ آن لائین پلیٹ فارم بلِنڈین پراجیکٹ کا مقصد ہی ایسے جوڑوں کو ملانا ہے تاکہ یہ ایک دوسرے کی مدد کر سکیں۔

ایک اور ایشین نژاد اٹھائیس برس کی ثنیہ سلیم کہتی ہیں کہ بلِنڈین پراجیکٹ نے انہیں اپنے والدین کو اپنے بوائے فرینڈ مائیکل سے تعارف کرانے میں مدد دی۔ مائیکل سے اُس کے تعلقات چار برس سے تعلقات چلے آرہے تھے لیکن وہ خاندان میں کسی کو بتانے کی ہمت نہیں رکھتی تھیں۔

‘میں بہت زیادہ گھبراتی تھی، خوف زدہ تھی۔ میں اپنے والد سے آنکھ ملا کر بات بھی نہیں کر پاتی تھی۔ میری نظریں نیچی رہتیں۔ اور میں اپنے رشتہ داروں میں اپنا کوئی حامی تلاش کرتی رہتی۔ میں نے بہت کوشش کی۔ میرے خاندان میں سب سے پہلے میرا بھائی تھا جو مائیکل سے ملا۔’

سویتا اور جونا بٹامبُزی کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ہونے والے حالیہ واقعات ایشین نژاد لوگوں کے سیاہ فام مخالف رویوں میں تبدیلی لا رہے ہیں۔ اب ان موضوعات پر نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں بات ہو رہی اور ایسے جوڑوں کی کامیابی کی بھی بات ہو رہی ہے۔

ثنیہ کہتی ہیں ‘ہم نے جو اس دوران پولیس کے مظالم دیکھے ہیں، یہ ایسے موضوعات ہیں جن پر میں اپنے والدین سے بات کرتی ہوں۔ جب کملا ہیرِس کامیاب ہوئی، میں نے امی سے کہا یہ بلِنڈین ہے۔ یہ میرے اور مائیکل جیسی ہے۔ یہ ہمارے بچوں کی طرح ہو گی۔’

جونا کہتے ہیں ہیں کہ ‘وقت آگیا ہے کہ اب ایسے جوڑے لوگوں میں زیادہ نظر آتے ہوئے خوشی محسوس کریں گے۔’

جونا نے یہاں برطانیہ میں اس پلیٹ فارم پر لوگوں میں زیادہ دلچسپی دیکھی ہے۔ ‘آپ مشرقی افریقہ، یوگنڈا جیسی جگہوں میں ایسے جوڑے دیکھتے ہیں۔ آپ جزائر کیریبین میں بھی دیکھتے ہیں۔ وہاں ہماری کمینیٹیز مل جل کر رہتی رہی ہیں۔ اس لیے ظاہر ہے کہ ہمارے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کافی عرصہ سے چلے آرہے ہیں۔’

جونا کو امید ہے کہ اب اگر سیاہ فام اور ایشینز کی کامیاب کہانیوں پر ہم خوشی منائیں گے تو اگلی نسل کے لیے نسل پرستی شاید کوئی مسئلہ ہی نہ رہے بلکہ وہ زیادہ خوش ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp