اب فلسطینی کیا کریں؟


پچھلے ہفتے مراکش نے متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان کی صفوں میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران یہ چوتھی اسلامی ریاست بن گئی، جس نے اسرائیل کے بارے میں اپنی پالیسی بدلی۔ ترکی نے بھی طویل تعطل اور بحث و مباحثے کے بعد بالآخر اپنا سفیر اسرائیل میں تعینات کر دیا۔ گزشتہ ماہ امریکی صدارتی انتخابات کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاھو ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے لئے خفیہ طور پر سعودی ساحلی شہر نیوم گئے۔

مبینہ طور پر دونوں نے وائٹ ہاؤس میں صدر منتخب ہونے والے جو بائیڈن کے داخلے سے قبل علاقائی معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ ان علاقائی معاملات میں عرب خیلییجی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان دفاعی معاہدوں، ٹکنالوجی کے تبادلے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسے معاملات شامل ہیں۔ اس وقت خیلج کی عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان دفاعی معاہدے اور فوجی تعاون ہر ملاقات کا نقطہ ماسکہ ہوتا ہے۔

اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اسرائیل کے ایک اعلی سیکیورٹی اہلکار نے گزشتہ دنوں کہا ہے کہ اسرائیل عرب ریاستوں کے ساتھ فوجی تعاون کے لئے تیار ہے۔ نئی نئی دوستی کی گرمی اب دفاع سمیت ایسے شعبوں میں بھی محسوس ہو رہی ہے، جن کا کل تک تصور کرنا مشکل تھا۔ اسرائیلی ٹکنالوجی اور جدید ایجادات تک رسائی، جس میں دفاعی میزائیل سسٹم شامل ہیں، عرب خلیجی ریاستوں کا ایک بڑا مقصد ہے۔ یہ مقصد ہی اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے مابین اس موسم گرما میں تعلقات کو ایک نیا موڑ دینے کا باعث بنا ہے۔

اسرائیل اور خلیج کے نئے اتحادیوں کے مابین ممکنہ میزائل ٹیکنالوجی کے تبادلے کے امکانات پر بات کرتے ہوئے اسرائیل کے میزائل ڈیفنس آرگنائزیشن کے سربراہ موشے پٹیل نے تصدیق کی ہے کہ یقیناً ان معلومات کو شیئر کیا جاسکتا ہے۔

پٹیل نے کہا ہے کہ میزائل دفاعی تعاون کے معاملے پر خلیجی ریاستوں کی طرف سے پہلے ہی کوششوں کی ابتدا ہو گئی ہے۔ اور جلد یا بدیر یروشلم اور واشنگٹن میں حکومتوں کو اس باب میں فیصلے کرنے ہوں گے۔

اگر گزشتہ چند برسوں کے دوران خیلجی ریاستوں اور ایران کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو بہت ساری چیزیں واضح ہوتی ہیں۔ خلیجی عرب ریاستیں ایران کی میزائل اور ڈرون صلاحیتوں، اور ان کی علاقائی مسلح گروہوں میں منتقلی کی وجہ سے تشویش میں مبتلا رہی ہیں۔ ماضی قریب میں ان کے لیے جو اہم تشویشناک واقعات ہوئے ہیں ان میں حوثی باغیوں کے ذریعہ سعودی عرب کے مختلف مقامات پر بار بار میزائل حملوں، اور ارمکو کے خلاف ستمبر 2019 میں ہونے والے حملے جیسے واقعات شامل ہیں۔

ظاہر ہے خیلجی ریاستوں نے ان حملوں کا ذمہ دار ایران اور اس کی پراکسیوں کو قرار دیا ہے۔ ان حملوں کے خلاف امریکہ کی طرف سے بھی اس طرح کا ردعمل نہیں ہوا، جس کا عرب ریاستیں توقع رکھتی تھیں۔ اس صورت حال نے خلیج کی عرب ریاستوں میں اپنی سلامتی کے باب میں خطرات اور خدشات کو جنم دیا۔ ان خدشات کے پیش نظر کئی عرب اور افریکی مسلمان ریاستوں نے اسرائیل کی طرف اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لائی ہیں۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ خلیج کی عرب ریاستوں کی مشترکہ دلچسپی بقول ان کے ایرانی خطرہ ہے، اور یہ یقینی طور پر تعاون کی بنیاد ہے۔ خلیجی ممالک کی اپنے دفاعی معاملات پر تشویش اور عجلت میں فیصلے کرنے کی ایک اور بڑی وجہ صدر ٹرمپ کے دور میں امریکی خارجہ پالیسی میں تبدیلی ہے۔ یہ ریاستیں روایتی طور پر اپنے دفاع کے لیے بڑی حد تک امریکہ پر تکیہ کرتی رہی ہیں۔ لیکن امریکہ کی حالیہ پالیسیوں اور اقدامات کی روشنی میں وہ اس خطے

امریکہ کی طویل المدتی موجودگی کے بارے میں کافی تشویش میں مبتلا ہو گئے۔ اور ایک ایسے متبادل حفاظتی نظام کے بارے میں سوچنے لگے جو زیادہ تر علاقائی صلاحیت پرمبنی ہو۔ اس نئے انتظام میں ان کو اسرائیل کا کردار ناگزیر نظر آیا، جو اس خطے میں فوجی اور ٹیکنیکی برتری کا حامل ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اسرائیل اس طرح کے تعاون سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تو اسرائیل کے اس میں دو واضح مقاصد ہیں۔ ایک بڑا مقصد ایران کی طاقت کو کمزور کر کہ مشرق وسطی میں مکمل بالادستی اور فوجی برتری کا حصول ہے، جس کو اسرائیل اپنی بقا اور سلامتی کی ضمانت قرار دیتا ہے۔ اور دوسری طرف اسرائیل کو خلیج کی عرب ریاستوں میں پیسہ بھی نظر آ رہا جو اسرائیلی صنعتوں کے لئے بہت پرکشش ہو سکتا ہے۔

ان بڑے مقاصد کی خاطر اسرائیل ان ممالک کے ساتھ فوجی راز اور ٹیکنالوجیز بانٹنے پر تیار ہے جو کچھ عرصہ قبل تک اس کے وجود کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے تھے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ

اسرائیل علاقائی ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن معاہدوں کے باوجود ان کو وہ فوجی ٹیکنالوجی منتقل نہیں کرے گا، جو اس کو خطے میں فوجی برتری دیتی ہے۔ تاہم دفاعی اینٹی میزائل ٹکنالوجی کی فروخت کو جائز سمجھا جا رہا ہے، اور اس کی منتقلی پر بات چیت کا آغاز ہو چکا ہے۔ ایران کے خلاف عرب خیلجی ریاستوں کو دفاعی میزائیل اور جنگی سازو سامان کی منتقلی پر واشنگٹن اور یروشلم میں اتفاق پایا جاتا ہے۔

گزشتہ ماہ، امریکی سینیٹ نے متحدہ عرب امارات کو جدید اسلحہ اور ایف 35 جنگی طیاروں کی فروخت کی مخالفت کرنے والی تجویز کو مسترد کر دیا، جس میں 23 ارب ڈالر کے اسلحے کے معاہدے کی تکمیل کی شرائط کو واضح کیا گیا تھا۔ مبینہ طور پر یہ معاہدہ نیتن یاہو نے اگست میں ان کی وزارت دفاع کے فوجی حکام کی معلومات کے بغیر، متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاہدے کے بدلے منظور کیا تھا۔ ان حالات و واقعات سے نظر آتا ہے کہ کچھ خلیجی عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کس سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

اور آگے چل کر یہ تعلقات جو شکل اختیار کرنے والے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے باقی ماندہ خلیجی ریاستیں بھی جلد یا بدیر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیں گی۔ اور جس طرح ایک وقت میں یہ ریاستیں اسرائیل کی تباہی کواپنی سلامتی کی ضمانت قرار دیتی تھیں، اسی طرح وہ اب اسرائیل کے ساتھ مشترکہ دفاعی نظام کو اپنی سلامتی کے لیے ناگزیر قرار دیں گی۔ رہا سوال فلسطینی عوام کا تو ان کے لیے یہ ایک المناک صورت حال ہے۔

مگر ان میں جو شعور رکھتے ہیں ان کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کی پیٹھ میں کئی بار چھرا گونپا جا چکا ہے۔ وہ تاریخ میں بار بار دھوکہ کھا چکے ہیں۔ اور شاید اس تازہ ترین تلخ تجربے کے بعد وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے اور اپنے مقدر کا خود فیصلہ کرنے کا راستہ اختیار کریں۔ اپنی صفوں میں چھپی ہوئی بنیاد پرست، شدت پسند اور موقع پرست عناصر سے جان چھڑائیں۔ بیرونی بیساکھیوں کے بجائے اپنے عوام پر بھروسا کریں۔ اور اپنی تحریک کو جدید سائنسی بنیادوں پر منظم کرتے ہوئے ایک پر امن جمہوری جدوجہد کا راستہ اختیار کریں۔ صرف ایسی ہی جہدوجہد کے ذریعے وہ اپنی قومی خودمختاری، بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی لڑائی جاری رکھ سکتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).