فلورین زیلر کی ٹرالوجی اور مغرب میں خاندان کا بحران


فلورین زیلر پر کچھ لکھنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ اس نسل کا تعارف کرا دیا جائے جس سے وہ تعلق رکھتے ہیں تاکہ اس ذہنی پس منظر کی تفہیم ہو سکے جو ان کی تخلیقات میں کارفرما ہے۔ 1970 کی دہائی کے آخری برسوں میں جنم لینے والی اس نسل نے شعور کی آنکھ دیوار برلن کے گرنے کے بعد کی دنیا پیں کھولی۔ یہ زمانہ جسے سماجی ماہرین پوسٹ ماڈرن یا مابعد جدید عہد قرار دیتے ہیں اس میں کم از کم مغرب کی حد تک نظریاتی کشمکش کا خاتمہ ہو چکا ہے اور انسانوں کی غالب اکثریت نے منڈی کی معیشت اور جمہوری آزادیوں کو مسلمہ اصول کے طور پر اپنا لیا ہے۔

اس سیاسی اور معاشی آزادی کے بطن سے جس انفرادیت نے جنم لیا ہے وہ انسانی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے اور اسی عہد کا خاصہ ہے۔ ایک اور پہلو جو اس عہد کا ہے وہ ٹیکنالوجی کا انسانی رویوں پرکامل غلبہ ہے، گویا وہ اندیشہ جو گزشتہ سو سوا سو سال سے سوچنے والوں کو پریشان کیے ہوئے تھا وہ اب حقیقت بننے کے قریب ہے ٹیکنالوجی اب انسانی رویوں کو اسی طرح کنٹرول کرہی ہے جیسے اگلے وقتوں میں مذہبی عقائد اور جمالیاتی اقدار کرتی تھیں۔ اب ظاہر ہے کسی بڑے نصب العین کی غیر موجودگی میں انسان کی کامرانی کی منتہا پیشہ ورانہ کامیابی کے سوا کیا رہ جائے گی؟ رہی بات ترقی کی تو حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنا لوجی کا منہ زور گھوڑا بے قابو ہوکرانجانی منزلوں کی طرف رواں دواں ہے اور حضرت انسان کی حالت ”نے ہاتھ باگ پر ہے نا پا ہے رکاب میں“ والی ہے۔

فلورین زیلر اکیسویں صدی میں منظر عام پر آنے والے فرانسیسی ناول نگار اور ڈرامہ نویس ہیں جن کی مذکورہ ٹرالوجی کے تین ڈرامے 2012 سے 2019 کے درمیان لکھے گئے۔ اس سلسلے کا پہلا ڈرامہ۔ ”باپ“ پھر ”ماں“ اور آخری حصہ ”بیٹا“ اس بدلتی ہوئی دنیا کو سماج کی بنیادی اکائی خاندان کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش ہے۔ ”باپ“ ایک 80 سالہ بوڑھے آندری کی کہانی ہے جو الزائمر کا مریض ہے اور ایک عالی شان اپارٹمنٹ میں اکیلا رہتا ہے۔

اس کی بیٹی این اپنے پارٹنر پیٹر کے ساتھ لندن منتقل ہو رہی ہے اور جانے سے پہلے اس کی دیکھ بھال کے لیے مستقل کیئرٹیکر خدمت گار کا انتظام کرنا چاہتی ہے آندری بظاہر اس بندوبست پر آمادہ ہے مگر جہاں ایک طرف این اس کے حقیقی ارادوں کے بارے میں شبے میں مبتلا ہے وہیں دوسری طرف وہ خود اپنے تئیں این اور پیٹر کی بدنیتی بھانپ چکا ہے کہ وہ اس کا اپارٹمنٹ ہتھیانا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ قاری جو کچھ دیکھ رہا ہے وہ آندری کی انکھوں سے دیکھ رہا ہے اس لیے یہ امتیاز کرنا مشکل ہے کہ جو کچھ نظر آ رہا ہے وہ واقعتاً حقیقت ہے یا ایک بیمار اور الجھے ہوئے ذہن کی پیداوار؟

Florian Zeller

مثلاً اچانک آندری کے اپارٹمنٹ کا منظر غائب ہو کر این کے گیسٹ روم میں تبدیل ہوجاتا ہے، جہاں آندری پڑا ہوا ہے۔ یا نئی خدمت گار جس میں وہ اپنی دوسری بیٹی کی شبیہ پاتا ہے، کیا اس کی دوسری بیٹی کا واقعی کوئی وجود ہے یا وہ محض آاندری کے تخیل کی پیداوار ہے۔ اسی طرح پیٹر کی حقیقی نیت اور کردار بھی غیر واضح ہے۔ اس ڈرامے میں فلورین زیلر نے کمال چابکدستی سے حقیقت اور تاثراتی حقیقت (Perceived reality) کی سرحدوں کو خلط ملط کر کے مابعد جدید دور کی عکاسی کی ہے جہاں فرد کا حقیقی دنیا سے رشتہ کمزور پڑتا جا رہا ہے۔

سیریز کے دوسرے ڈرامے ”ماں“ میں این کی کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ وہ اور پیٹر اب شادی کر کے بظاہر خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی ایک بیٹی اور بیٹا نکولس بھی ہے۔ اس سب کے باوجود این کی زندگی میں ایک خلا ہے۔ یہاں فلورین زیلر نے سماج کے بحران کو ایک بکھرتے ہوئے خاندان کی کہانی میں بیان کیا ہے۔ صدیوں پر محیط انسانی تجربے نے سماج کی تعمیر میں خاندان کے ادارے کو کلیدی اہمیت دی ہے، یہی وجہ ہے کہ روایتی معاشروں میں گھر کو جوڑے رکھنے میں ما ں یا با الفاظ دیگر خاتون خانہ کے کردار کو تقدس اور احترام کا درجہ دیا جاتا تھا۔

مگر مابعد جدید دور میں یہ ایک کارعبث ہے۔ یہ اس لیے کہ علم اور تصورات کی وہ دنیا جس پر خاندانی ں ظام کھڑا تھا ٹیکنالوجی کے انقلاب سے پیدا شدہ برقی ذہن کو ہضم نہیں ہو سکتی، آج کا صارفیت زدہ معاشرہ کسی پیدواری کردار سے محروم اس رشتے کی تفہیم سے عاری ہے۔ اور یہی این کا المیہ ہے کیونکہ خاندان کی شکست و ریخت کا سب سے بڑا نقصان بھی ماں ہی اٹھاتی ہے۔ آندری کی طرح این بھی حقیقت اور تاثر میں امتیاز سے قاصر ہے مگر حیرت انگیز طور پر یہ محرومی اس کی سوچ کو پراگندہ کرنے کے بجائے معاملات کی تہ تک پہنچنے میں مدد کر تی ہے، یا شاید مادری جبلت اس کی رہنما ہے۔

اس کا ذہنی دباؤ اسے بظاہر عام گھریلو معاملات کی ایسی توجیہ دکھاتا ہے جو اس کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ اسے لگتا ہے کہ گھر والے اپنی اپنی زندگی میں آگے بڑھ گئے ہیں، پیٹر پیشہ ورانہ بلندیوں کو چھو رہا ہے اور اس کا غالباً کوئی معاشقہ بھی ہے، نکولس بھی اپنی نئی گرل فرینڈ کے ساتھ مشغول ہے۔ جبکہ وہ اسی جگہ ایک صوفے پہ پڑی سارا دن گزار دیتی ہے۔ کمال بات ہے کہ اس گھر کو اپنی ذات کا خون جگر پلا کر پروان چڑھانے والی این اب وہاں تنہا ہے۔ اس ڈرامے میں فلورین زیلر نے ایک بار پھر پلاٹ کی بنت میں حقیقت اور تاثر کے اختلاط کو استعمال کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ زمانی تسلسل کے اصول کو بھی توڑا ہے یوں پلاٹ کے مختلف حصے کسی زمانی تسلسل کے بغیر جڑے ہوئے ہیں۔

ٹرالوجی کے آخری حصے ”بیٹا“ میں نکولس اور پیٹر کی کہانی اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔ پیٹر این سے علیحدگی کے بعد اپنی گرل فرینڈ اور نومولود بچے کے ساتھ رہ رہا ہے۔ نکولس ماں کے ساتھ ایک مشکل وقت گزار کر اب ان کے پاس رہنے آیا ہے، وہ واضح طور پر ذہنی اضطراب کا شکار ہے۔ پیٹر اور صوفیہ جلد ہی اس کے رویے میں پراسرار تبدیلی محسوس کرتے ہیں۔ پیٹر صوفیہ کی مخالفت کے باوجود (جو نکولس کی بیماری کو اپنی خوشیوں کی راہ میں حائل سمجھتی ہے) ہر ممکن طریقے سے نکولس کو اس ذہنی دباؤ سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے (یہ پچھلے دونوں ڈراموں کے خودغرض کردار کا بالکل مختلف روپ ہے ) مگر نکولس کی بیماری بڑھتی جاتی ہے۔ وہ تشدد پسند اور خارجی دنیا سے لا تعلق ہوتا جا رہا ہے۔ ناچار اسے ذہنی شفاخانے میں داخل کرانا پڑ جاتا ہے۔ کہانی کا انجام نکولس کی خودکشی اور پیٹر کے پچھتاوے پر ہوتا ہے۔

یہاں اگر اس ٹرالوجی کے مجموعی تاثر یا مرکزی خیالیے پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ خارجی حقیقت اور انسانی ادراک کا تعلق اس کا خاص موضوع ہے۔ ٹرالوجی کے تینوں مرکزی کرداروں کا مطالعہ اس سلسلے میں اہم ہے۔ آندری حقیقت اور اپنے ذہن کی پیداوار تاثراتی حقیقت کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہے، اس کے آس پاس کی دنیا اس کے جذب کرنے کی سکت سے زیادہ تیزی سے بدل رہی ہے یوں حقیقت پر اس کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ این خارجی حقیقت کو سمجھنے کے بعد مایوس اور خود ترسی کا شکار ہے اور نکولس ایک درجہ آگے بڑھ کر خارج سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کرتا ہے۔

دوسرا اہم پہلو مابعد جدید عہد میں ابلاغ کا فقدان ہے۔ ٹرالوجی کے سارے کردار اپنے خول میں بند ہیں۔ این خلوص نیت سے آندری کی مدد کرنا چاہتی ہے اسی طرح پیٹر بھی ہر قیمت پر نکولس کو بچانا چاہتا ہے مگر ان کے درمیان ایسی غیر مرئی دیواریں حائل ہیں جو کسی بھی قسم کا معنی خیز مکالمہ ناممکن بنا دیتی ہیں۔ یہ اسی مابعد جدید انفرادیت کا کرشمہ ہے کہ یہ سارے لوگ چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کا نقطہ نظر نہیں سمجھ پارہے۔

پیٹر سمجھ نہیں پارہا کہ این آخر کیوں اپنے لیے کوئی گھریلو مشغلہ یا دوسری مصروفیت نہیں ڈھونڈ پا رہی اسی طرح نکولس بھی حیران ہے کہ اس کی ماں آخر کیوں اس کی نجی زندگی میں مداخلت کر رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے یہ اہم سوال ہے۔ انسان کو حیوان ناطق کہا گیا ہے۔ دیکھا جائے تو جتنا شور اس زمانے میں ہو رہا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی مگر اس شور میں بامعنی گفتگو کی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔ روایتی طور پر جب ہم خاندانی اقدارکی شکست و ریخت پر بات کرتے ہیں تو مادی طرز زندگی اور جدید لائف اسٹائل کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں مگر فلورین زیلر اس معاملے کو ایک اور ذاویے سے دیکھ رہے ہیں، ان کے مطابق انسان کا انسان سے بڑھتا ہوا فاصلہ اور اس کے نتیجے میں معنی خیز ابلاغ کا خاتمہ اس کی وجہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).